اہل ایمان ظلم کے آگے نہیں جُھکتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

یہ آیات اس گفتگو کاتسلسل ہیں جوگزشتہ آیات میں توکل پیشہ مومنین کے لیے خدا کی جزا کے بار ے میں ہوچکی ہے۔
ایمان اور توکل کی صفات کے بعد جو کہ قلبی صفات ہیں ان آ یات میں ان کے ساتھ قسم کے اعمال کی طرف اشارہ ہوا رہاہے . ان میں سے کچھ تومنفی پہلو کے حامل ہیں اور کچھ ،مثبت کے ، کچھ انفرادی ہیں اور کچھ اجتماعی ، کچھ مادی ہیں اور کچھ معنوی . اور یہ ایسے اعمال ہیں جو ایک صالح اور طاقتو ر حکومت اور صحیح وسالم معاشرے کے بنیاد ی ار کان ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ظاہر ی طورپر یہ آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں اوران دنوں میں نازل ہوئی ہیں جب اسلامی معاشرے کی تشکیل نہیں ہوئی تھی اورنہ ہی اسلامی حکومت کوجود عمل میں آیاتھا . لیکن ان آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ انہی دنوں سے ایسی آیات کے ذ ریعے مسلمانوں کو صحیح بصیرت سے آگاہ کیاجانے لگا تھ. کیونکہ مکہ میں قیام کے دوران ہی مستقبل کے لیے ایک صحیح اسلامی معاشر ے کی تشکیل کے لیے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) انہیں مسلسل اورمکمل تعلیم سے بہرہ مند فرمارہے تھے ۔
پہلی صفت کو اصلاح سے شروع کر تے ہوئے فر مایاگیاہے :خدا کی جزا اورجوکچھ خداکے پاس ہے ان لوگون کے لیے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ پائیدار ہے جوگناہان کبیرہ سے اجتناب کرتے ہیں اور بری باتوں سے پرہیز کرتے ہیں (وَ الَّذینَ یَجْتَنِبُونَ کَبائِرَ الْإِثْمِ وَ الْفَواحِش) ( ۱).
وَ الَّذینَ یَجْتَنِبُون... لھم مثل ذالک من الثواب
لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
” کبائر “ ” کبیرة “ کی جمع ہے جس کامعنی ہے بڑے گناہ ، اب رہا یہ سوا ل کہ گناہوں کے بڑا ہونے کا کیامعیار ہے ؟کچھ مفسرین نے تواس سے ایسے گناہ مرادلیے ہیں جوقرآن میں مذکور ہوئے ہیں اورخداوند عالم نے ان کے ارتکاب پرعذاب کی وعید کی ہے ، یاایسے گناہ جوشرعی حد کا سبب بنتے ہیں۔
بعض مفسر ین نے کہا کہ شاید اس سے مراد بد عتیں ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اعتقادی شکوک وشبہات کاپیدا کرنا ہے۔
لیکن جس طرح کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اگر ہم ” کبیر ة “ کے لغوی معنی کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوگاکہ کبیرہ سے مراد ہر وہ گنا ہ ہے جو اسلامی نکتہ نظر سے بڑااور بااہمیت ہے .اس کے بڑا ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں اس کے بار ے میں عذاب کی دھمکی ہو . اسی لیے روایات اہلبیت علیہ السلام میں بھی ” کبائر “ کی ا س صورت میں تفسیر ہوئی ہے کہ :
التی اوجب اللہ عزوجل علیہ النار
گناہان کبیرہ وہ ہوتے ہیں ن کی سز اخدا وند عزوجل نے جہنم مقرر فرمائی ہے ( ۲).
اسی طرح اگر کسی گناہ کی عظمت اوربڑا ئی دوسر ے حوالوں سے ثابت ہوجائے تو بھی اس پرکبیر ہ کا عنوان صادق آتاہے۔
” فواحش “ ” فاحشہ“ کی جمع ہے ، جس کامعنی ہے ” نہایت ہی بر ے اور ناپسند یدہ اعمال “ . اس کلمہ کو ” کبائر “ کے بعد ذکر کرنااصطلاحی طورپر عام کے بعدخاص کاذکر ہے اورحقیقت یہ ہے کہ سچے مومنین کے بار ے میں یہ بتانے کے بعد کہ وہ تما م کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں اب برے اور شرم آورگنا ہوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ ان کی اہمیت واضح ہو ۔
اس طرح سے خدا پر ایمان او ر توکل کی پہلی نشانی گناہان گبیر ہ سے پرہیز اورا جتناب ہے . یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ انسان ، خدا پر ایمان اور توکل کادعویٰ توکرے لیکن خود کئی قسم کے گناہوں سے آلودہ ہو اور اس کادل شیطان کاٹھکاناہو؟
دوسر ی صفت بھی پاکیز گی اوراصلاح کے پہلو کی حامل ہے اورانسان کے زبردست بحرانی حالات میںغیظ وغضب پرکنڑ ول کی علامت ہے ، خد ا فرماتاہے : وہ ایسے لوگ ہیں جوغصے کے وقت معاف کردیتے ہیں ( وَ إِذا ما غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُون).
نہ صرف غصے کے وقت زمام اختیار ان کے قابوں میںرہتی ہے اوروہ کسی غلط کام کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ آپ عفو و غفران سے اپنے اور دوسر ے لوگوں کادل کینوں سے صاف کردیتے ہیں۔
یہ وہ صفت ہے جوخداپر صحیح معنوں میں ایمان اورذات حق پر توکل کے سوا پیدانہیں ہوتی . یہ بات لائق غور ہے کہ خدا یہ نہیں فر ماتاکہ وہ غصّہ نہیں کرتے ،کیونکہ یہ توانسانی فطر ت کاتقاضاہے اوربعض مقامات پر تواس کی ضر ور ت بھی ہوتی ہے جیسے خدا کی راہ اورمظلوم لوگوں کے حق کوثابت کرنے کے لیے غیظ وغضب کااظہار ،بلکہ فر ماتاہے کہ وہ غصّے کے وقت گناہوں سے آلودہ نہیں ہوتے اور معاف بھی کردیتے ہیں اورایسانا بھی چاہیئے .انسان کیونکر خداکی مغفر ت کی توقع کر سکتاہے جبکہ وہ خود کینہ پرور اورمنتقم مزاج ہو اور غیظ وغضب کے موقع پر کسی قانون کوخاطر میں نہ لاتاہو ؟
اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پر ” غصے “ کے مسئلے پر زیادہ زور دیاگیا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ حالت ایک ایسی جلا ڈالنے والی آگ ہوتی ہے جو انسان کے اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے اور بہت سے لوگ ایسی حالت میں اپنے نفس پر قابو پانے سے عاجز ہوتے ہیں لیکن حقیقی موٴ من کسی بھی حالت میں مغلوب الغضب نہیں ہوتے ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فر ماتے ہیں :
من ملک نفسہ اذار غب ، واذا رھب ،واذاغضب ،حرم اللہ جسدہ علی النا ر
جوشخص خواہشات ، خوف اورغصے کے وقت اپنے آپ کوقابو میں رکھتاہے ، خدااس کے جسم کوجہنم کی آگ پرحرام کردیتاہے ( ۳).
بعد کی آیت میں تیسری سے چھٹی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے :
وہی لوگ کہ جہنوں نے اپنے پروردگار کی دعوت کوقبولکیاہے اوراس ک فر مان کو دل و جان سے مانا ہے (وَ الَّذینَ اسْتَجابُوا لِرَبِّہِمْ).
اور نماز کوقائم کیاہے (وَ اٴَقامُوا الصَّلاةَ ).
اور ان کے کام باہم مشو رے کی صورت میں انجام پاتے ہیں (وَ اٴَمْرُہُمْ شُوری بَیْنَہُم) (۴).
اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے ہمار ی راہ میں خرچ کرتے ہیں ( ْ وَ مِمَّا رَزَقْناہُمْ یُنْفِقُون).
گزشتہ آ یت میں موٴ منین کے وجود کی گناہوں سے دوری اور غیظ وغضب پرقابو پانے کی بات کی گئی تھی لیکن زیر تفسیر آیت میں ان کے وجود کی مختلف پہلوؤں سے اصلاح کی بات ہورہی ہے جن میں سے اہم ترین چیزدعوت پر وردگار کی قبولیت اور اس کے فر مان کے آگے سرتسلیم خم کردیناہے.یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں تمام نیکیاں ، اچھا ئیاں اور فرمان ِ الہٰی کی اطاعت سب کے سب یکجا ہیں اور موٴمنین اپنے تمام وجود کے ساتھ اس کے حکم کے آگے سرجھکائے ہوتے ہیں.اس کے ارادے کے مقابلے میں اپنے اراد ے کونہیں لاتے اورہونا بھی ایساہی چاہیئے کیونکہ گناہ کہ جوراہ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں،قلب وروح کوان کے آثار سے پاک کرنے کے بعد ، اسی کے آگے سرتسلیم خم کردینے کا مرحلہ قطعی ہوجاتاہے۔
نیز خدائی احکام میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو نہایت ہی اہم مسائل پر مشتمل ہیں کہ خاص طور پر جن کی نشاندہی کی جانی چاہیئے،چنانچہ یہاں پر اسی قسم کے مسائل کوذکر کیاگیاہے جن میں سے اہم ترین نماز ہے . نماز دین کاستون ہے،خالق اورمخلوق کے درمیان رابط ہے،نفوس کی تربیت کنند ہ ہے،موٴ من کی معراج ہے اور برائیوں سے روکنے والی ہے۔
اس کے بعد اہم معاشرتی اوراجتماعی مسئلہ بیان کیاگیا ہے اور وہ ہے ”شورٰی “ کامسئلہ،جس کے بغیر تمام کام ناقص ہوتے ہیں. ایک انسان فکری لحاظ سے جتنا بھی قوی کیوں نہ ہو مختلف مسائل کوایک یاچند پہلوؤں سے سوچتا ہے، اس لیے دوسرے پہلو اس سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں مگر جب مسائل کوشورٰی میں پیش کیاجائے اورمختلف عقلیں ،تجربے اور نقطہ ہائے نظر ایک دوسرے کی مدد کریں تو مسائل یقینا مکمل ،پختہ اور نقص وعیب سے تقر یباً خالی ہوکر سامنے آجاتے ہیں جن میں لغزش کاامکان بہت کم ہوتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ سر کار رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں :
انہ مامن رجل یشاور احدً االاھدی الی الرشاد
جوشخص بھی اپنے کاموں میں کسی دوسرے شخص سے مشورہ کرتاہے اسے مطلوبہ اور سیدھے راستے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہاں پرعبادت کے الفاظ ایسے انداز میں ذکر ہوئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ موٴ منین کے مستقبل طرز عمل میں شامل ہے . نہ صرف ایک فور ی اور عارضی کام میں موٴ منین ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں بلکہ ان کے سارے کام ہی باہمی مشوروں سے نجام پاتے ہیں اور پھر دلچسپی کی با ت یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عقل کل ہونے اور مبداٴ وحی سے مستقل رابط رکھنے کے با وجود مختلف اجتماعی ، معاشر تی ، انتظامی نیز جنگ اورصلح کے مسائل اور دوسرے اہم امور میں صحابہ سے مشورہ کیاکرتے تھے بلکہ بعض اوقات ان کی رائے کوترجیح دیاکرتے تھے ، خواہ اس میں انہیں مشکلات کاسامناہی کیوں نہ کرنا پڑ ت. اس طرح سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے لیے ایک مثال قائم کردی کیونکہ مشورے کی برکتیں اس کے امکانی نقصانات سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
مشورہ کی اہمیت ،شورٰی کی شرائط اور مشیر کے اوصاف اور فرائض کے بار ے میں کے بار ے میں تفسیر نمونہ کی تیسری جلد میں سورہ ٴ آل عمران کی ۱۵۹ ویں آیت کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوچکی ہے یہاں پر اسے دہرانے کی ضر ورت نہیں . البتہ چند ایک موضو عات کو یہاں پراضافی صورت میں ذکر کیاجاتاہے۔
الف :شورٰی صرف انتظامی امور اور موضوع کی شناخت کے بار ے میں ہوتاہے نہ کہ احکام الہٰی کے سلسلے میں ، کیونکہ احکام الہٰی کاتعلق مبداٴ وحی اورکتاب وسنت سے ہوتاہے ” امر ھم “ ( ان کے کام ) کی تعبیر بھی اسی بات کوبیان کرتی ہے کیونکہ احکام کانفاذ خدا کاکام ہوتاہے لوگوں کانہیں۔
بنابریں اگر آلوسی جیسے مفسرین نے اس کے دائر کو وسیع کردیاہے اورجن احکام کے بار ے میں خاص نص و ارد نہیں ہوئی انہیں بھی اس میں شامل کردیاہے تو ان کا یہ نظر یہ بے بنیاد ہے بالخصوص جب ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کے بار ے میں خاص یاعام نص موجود نہ ہو ، وگر نہ ” الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ “ ( مائدہ . ۳) کانزو ل صحیح نہیں ہوگا ۔ ( اس کی تفصیل اور تشریح کااصول قفہ کی کتابوں میں مطالعہ کیاجائے جہاں پر اسلام میں قانون ساز ی کے بارے میں اجتہاد کے باطل ہونے کے بارے میں بحث کی گئی ہے ).
ب : بعض مفسرین کہتے ہیں ” امرھم شورٰی بینھم “ کاجملہ انصار کے بار ے میں نازل ہواہے اوران کے لیے یہ حکم یاتوا س لیے ہے کہ قبل ازاسلام بھی ان کے امورشورائی طریقے پرانجام پاتے تھے یاپھرانصار کے اس گروہ کے لیے ہے جوہجرت سے پہلے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرایمان لے آئے ،مقام ”عقبہ “ پر آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بیعت کی اورآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو مدینہ تشر یف لانے کی دعوت دی ( چونکہ یہ سورت نکی ہے اور مذ کورہ با لاآیات بھی بظاہر مکہ ہی میں نازل ہوئی ہیں ) ۔
صورت حال خواہ کچھ بھی ہو آیت کاحکم اپنی شان نزول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ایک عام اوروسیع حکمت عملی کوبیان کررہاہے۔
ہم اپنی اس گفتگو کوحضرت امیر الموٴ منین علیہ السلام کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں.آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فر ماتے ہیں :
لا ظھیر کالمشاورة وا لا ستشارة عین الھد ایة
باہمی مشورت جیسا کو ئی پشت پناہ نہیں اور مشورہ لیناعین ہدایت ہے ( ۵) ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں جوآخر ی صفت بیان ہوئی ہے صرف مال خرچ کرنے کو بیان نہیں کررہی بلکہ ہر اس چیزمیں سے خرچ کرنے کو بیان کررہی ہے کہ جوخدانے انسان کو عطا فر مائی ہے خواہ وہ مال ہو یاعلم ،عقل ہو یافکر اوریاپھر اجتماعی تجربہ ، غرض ہرایک چیز میں سے خرچ کرنے کابتا رہی ہے۔
یہ وضاحت بھی ضر وری معلوم ہوتی ہے کہ جہاں پرستم رسیدہ لوگوں کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ ظلم وستم کے مقابلے میں کے لیے دوسرے لوگوں سے مدد طلب کریں، وہاں پر دوسرے لوگوں کابھی فرض بنتاہے کہ ان کی مدد کریں.کیونکہ جب مدد کرنے والا موجود نہ ہو مددطلب کرنافضول ہوتاہے.درحقیقت مظلوم کافرض ہے کہ ظلم کامقابلہ کرے اوردوسروں سے مدد طلب کرے اور دوسرے موٴمنین پر لازم ہے کہ اس کی فر یاد کو پہنچیںاورمددکریں. چنانچہ سورہٴانفال کی ۷۲ ویں آیت میں ہے :
إِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْر
جب بھی وہ تم سے دین کی حفاظت کے بار ے میں نصرت طلب کریں تو تم پر بھی لازم ہے کہ ان کی مددکرو ۔
” ینتصر ون “ کا کلمہ ” انتظار “ سے لیاگیاہے جس کامعنی مددطلب کرناہے،لیکن بعض مفسرین نے اسے ” تناصر“ (باہم مددکرنا “ کے معنی میں لیاہے لیکن اگر توجہ سے کا م لیاجائے تو مندرجہ بالاتشریح کے پیش نظر دونوں کاایک ہی نتیجہ نکلتاہے۔
بہرصورت اگر مظلوم تنہا ظلم وستم کے دور کرنے پر قادر نہیں ہے توخا موشی اختیار نہ کرے بلکہ دوسر ے لوگوں کی توانا ئیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ،ظالم کے مقابلے میں ڈٹ جائے اور تمام دوسرے مسلمانوں کافرض بنتاہے کہ اس کی نصرت طلبی کامثبت جواب دیں۔
لیکن جہاں تک ایک دوسرے کی مد د کرنے کاسوال ہے وہ مددعدل وانصاف کی راہوں سے ہٹ کرجذبہ انتقام کینے اورتجاوز کی حدتک نہ پہنچ جائے،اسی لیے بعد کی آیت میں فوراً ہی اسے ان چیزوں سے مشروط کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتاہے کہ اس بات کاخاص خیال رہے کہ ” برائی کی سزا،اسی برائی جیسی ہوتی ہے “ ( وَ جَزاء ُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِثْلُہا ).
کہیں ایسانہ ہوکہ تمہارے دوستوں پرظلم ہواہے توتم خدا سے بڑ ھ جاؤ اورخود ظالم بن جا ؤ . خاص کربعض معاشروں میں جیسے اوائل اسلام میں عرب معاشرہ تھا ،ظلم کاجواب دیتے وقت حد سے بڑھ جانے کا بہت بڑا اندیشہ تھا،اسی لیے مظلوم کی نصرت اورجذبہٴانتقام کافر ق بتادیناضروری تھا ۔
یہاں پریہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ظالم کے کام کوتو ” سیّئة “ اوربرائی سے تعبیر کرناصحیح ہے لیکن اسے سز ادینا تو یقینا ”سیّئة “ اوربرائی نہیں ہے،یہاں پر”سیّئة “سے تعبیرکیاگیاہے توا س کی وجہ سے یہ ہے کہ لفظ درحقیقت برابر کے قرینے کے طورپر استعمال ہواہے یااس لیے کہ چونکہ سزاپانے والے ظالم کی نگاہ میں یہ ردعمل ”سیّئة ‘ ‘ ہوتاہے . نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس کو ”سیّئة “سے اس لیے تعبیرکیاگیاہے کہ سزابھی ایک تکلیف اوردکھ ہوتی ہے جوبذاتہ ایک بُر ی چیز ہے ہرچند کہ قصاص اورظلم کی سزا اچھی چیزشمار ہوتی ہے۔
یہ بات اُس تعبیر سے ملتی جلتی ہے جوسورہٴ بقرہ کی آیت ۱۹۴ میں یوں بیان ہوئی ہے :
فَمَنِ اعْتَدی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدی عَلَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّہَ
جوشخص تم پر تجاوز کرے تم بھی ایسے ہی پر تجا وز کرو اورخداسے ڈر و (اورحد سے نہ بڑھ جاؤ ) ۔
لیکن صور ت حال خواہ کچھ بھی ہو ، ہوسکتاہے کہ یہ تعبیر اس عفود ورگزر کامقدمہ ہوجوبعد کے جملے میں بیان ہواہے . گو یا قرآن یہ کہناچاہتاہے کہ :سزاجیسی بھی ہو ایک قسم کاتکلیف ضرورہے لہٰذ اگر فریق مخالف نادم اور پشیمان ہوجائے توعفوو در گزر کے لائق ہے۔
ایسے حالات میں درگز رسے کام لوکیونکہ ” جوشخص عفواور اصلاح سے کام لیتاہے اس کاثواب خدا کے پاس ہے “ (فَمَنْ عَفا وَ اٴَصْلَحَ فَاٴَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ ).
یہ ٹھیک ہے کہ ضائع شدہ حقوق کے بدلے میںبظاہر کوئی چیز نہیں ملتی ، لیکن درگزشت سے جو نتیجہ حاصل ہوتاہے وہ ایسے حقوق سے کہیں زیادہ فوائد کاحامل ہوتاہے کیونکہ اس سے ایک تو معاشرے میں اتحاد فروغ پاتاہے ، دوسر ے دلوں سے کینے اوربغض دور ہوتے ہیں ، تیسرے محبت بڑھتی ہے ، چوتھے جذبہ انتقام ٹھنڈ ا پڑ جاتاہے اورپانچویں معاشرے میں سکون او ر سکھ کاسانس لیا جاتاہے . اسی لیے اس کا اجر خدا خود ہی عطا فر ماتاہے ،جویقینااس کا بے انتہا فضل وکرم ہے اور کیا ہی بہتر ین تعبیر ہے ” علی اللہ “ کے کلمہ سے ، گو یاخداوند عالم اپنے آپ کو ایسے افراد کا مر ہون سمجھتاہے اور فر ماتاہے کہ اس کااجر میرے ذمہ ہے۔
آیت کے آخر میں فر مایاگیاہے : خدا ظا لموں کوہرگز دوست نہیں رکھتا (إِنَّہُ لا یُحِبُّ الظَّالِمین).
ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ ذیل کے چند نکات کی طرف اشارہ ہو ؛
پہلا نکتہ یہ کہ عفو د درگزر کاحکم شاید اس لیے ہے قصاص اور سزا کی صورت میں بعض اوقات انسان خود کو صحیح معنوں میں کنڑول نہیں کرپاتا اور حد سے بڑھ جاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ ظالموں کی فہرست میں آ جاتاہے۔
دوسرانکتہ یہ کہ اگر عفو کا حکم دیاگیاہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ظالموں کادفاع کیاگیاہے کیونکہ خدا ظالموں کوتو ہرگز دوست نہیں رکھتا .بلکہ اصل مقصد گمراہوں کی ہدایت اور اجتماعی رابطوں کومضبوط بنانا ہے۔
تیسر ا نکتہ یہ کہ جولوگ عفو کے مستحق ہیں وہ ظلم کاراستہ ترک کریں ، اپنے کئے پر ندامت اور پشیمانی کااظہار کریں اوراپنی اصلاح پر آمادہ ہوں وہ ایسے ظالم نہ ہوں جنہیں عفو مزید جسارت پر آمادہ کرے اوروہ مزید جری ہوجائیں۔
زیادہ واضح الفاظ میں یہ ہے کہ ہرایک کے لیے عفو ااور سزا کے اپنے حالات اورمواقع ہوتے ہیں . عفو ایسے مقام پرہوتاہے جہاں انسان انتقام کی قدرت رکھتاہو ، اگر معاف کردے تو یہ اس کی کمزوری نہیں ہوگی ایسی معافی کابہت فائدہ ہوتاہے کامیاب مظلوم کے لیے اس لیے مفید ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابورکھتے ہوئے اورصاف دل کے ساتھ معاف کردیتاہے اورمغلوب ظالم کے لیے اس لیے کہ اسے اپنے نفس کی اصلاح پرآمادہ کرتی ہے۔
کسی کے کیے کی سزااور انتقام ایسے مقام پرعمل میںآنے چاہئیں جہاں ظالم ہنوز شیطانی راستے پر قائم ہو اورمظلوم اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط مستحکم نہ کرسکا ہواورمعاف کرناکمزوری سمجھاجاتا ہوتوایسے مقامات پر ظالم کوسزا ملنی چاہیے ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں :
اذاکان یوم القیامة نادی منادمن کان اجرہ علی اللہ فلید خل الجنة ،فیقال من ذ االذی اجرہ علی اللہ ؟فیقال : العافون عن الناس ، فید خلون الجنة بغیر حساب
جب قیامت کادن ہوگا،(خدا کی طرف سے ) ایک منادی ندادے گاکہ جس جس شخص کااجر خدا کے ذمہ ہے وہ بہشت میں چلائے . تو پوچھا جائے گا :خدا کے ذمہ کس کااجر ہے ؟ تو جواب ملے گا ، جنہوں نے لوگوں کو معاف کردیاہے . چنانچہ وہ حساب کے بغیر بہشت میں چلے جائیں ( ۶).
درحقیقت یہ حدیث زیر نظر آیات میں سے آخری آیت سے نتیجے کے طورپر اخذ کی گئی ہے . اورا سلام کااصل اورصحیح راستہ بھی یہی ہے۔
۱۔ اکثر مفسرین کے خیال کے مطابق ” الَّذینَ یَجْتَنِبُون“کاعطف گزشتہ آیت ” للذین اٰمنو ا“ پر ہے ہرچند کہ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہ جملہ مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے . جوتقد یر ی طورپر یوں ہوگا ۔
۲۔ تفسیر نورالثقلین جلد او ل ،ص ۴۷۳۔
۳۔ تفسیر نورالثقلین جلد ۴،ص ۵۸۳ منقول از تفسیر علی بن ابراہیم ۔
۴۔ ”شورٰی “ کالفظ مصدر ہے اور مشاورت کے معنی میں ہوتاہے لہٰذ مذکورہ آیت میں ”ذو“ کے لفظ کو مقدر ماناجا ئے گا اوراسے تقد یری طورپر یوں سمجھا جائے گا ” امرھم ذوشورٰی “ یہ بعض مفسرین کاموقف ہے . یاپھر اسے مبالغہ اور تاکید پر محمول کیاجائے گا کیونکہ جہاں پر ”صفت “ کے بجائے ”مصدر “ ذکر ہوتاہے عام طور پر یہی معنی ظاہر کر تاہے . لیکن اگر”شورٰی “ کامعنی ایساکام ہوجس میں مشورہ لیاجاتاہے تو مفر دات میں راغب کے بقول :” الا مرالذ ی یتشاورفیہ “ کے معنی میں ہوگا اور کسی چیز کومقدر ماننے کی ضرورت در پیش نہیںآ ئے گی ۔ ( غور کیجئے گا )
۵۔ وسائل الشیعہ جلد ۸ ،ص ۴۲۵ ( احکام العشرة کا ۲۱ واں باب ) ۔
۶۔ تفسیر مجمع البیان ایسی آیت کے ذیل میں۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma