جدائی کادن یا یوم الفصل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
ز یر نظر آ یات درحقیقت معاد کے بارے میں گزشتہ آ یات کانتیجہ ہیں کہ جن میں اس کائنات کی تخلیق کی حکمت کے حوالے سے قیامت کے وجُوب پراستد لال کیاگیاتھا ۔
سب سے پہلی آ یت میں اس استد لال سے یہ نتیجہ حاصل کیاجارہا ہے ،کہ ” یوم الفصل “ یا جدائی کادِن ان سب کے لیے مقرر گھڑی ہے (إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ میقاتُہُمْ اٴَجْمَعینَ ) ۔
قیامت کے دن کو ” یوم الفصل “ سے تعبیر کرنا کِس قدر دلچسپ ہے کہ جس روز حق کوباطل سے جُدا کردیا جائے گا اور نیک لوگوں کی صفیں بد کاروں سے علیٰحد ہ ہو جائیں گی ، اورانسان اپنے نزدیک ترین دوستوں تک سے جُدا ہوجائے گا ، جی ہاں وہی دِن تمام مجرمین کیلئے مقرر شدہ ہے ( ۱) ۔
پھراس جدائی کے دن کی کچھ تشریح کرتے ہوئے فر مایا گیاہے : اس دن کو ئی شخص کسی دوسر ے شخص کی فر یاد کونہیں پہنچے گااورکوئی دوست اپنے دوست کی ذرہ بھر امداد نہیں کرسکے گا او ر کہیں سے انہیں کمک نہیں پہنچے گی ، (یَوْمَ لا یُغْنی مَوْلًی عَنْ مَوْلًی شَیْئاً وَ لا ہُمْ یُنْصَرُونَ) ۔
یقینا ! و ہی دن فصل اورجدائی کادن ہوگا کہ جب انسان اپنے عمل کے سوا باقی تمام چیزوں سے جُدا ہو جائے گا ، ” مولیٰ“ جس معنیٰ میں بھی ہویعنی دوست ہو یا سرپرست ، ولی نعمت ہو یاقرینی رشتہ دار ، ہمسایہ ہو یا مددگار وغیرہ قیامت کی مشکلات میں ایک معمولی سی مشکل بھی حل کرنے سے عاجز ہوگا ۔
” مولی “ ” ولاء “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی دوچیزوں کاایسا ہی باہمی رابط ہے جن کے درمیان کوئی اجنبی نہ ہو ، اس معنی کے کئی مصداق ہیں ، جولغُت کی کتابوں میں اس لفظ کے مختلف معانی کے طورپر ذکر ہُوئے ہیں ، کیونکہ ان سب کی بنیاد اور اصل معانی مشترک ہیں ( ۲) ۔
وہاں پر نہ صرف دوست ایک دوسر ے کی فر یاد کونہیں پہنچ سکیں گے اوررشتہ دار ایک دوسر ے کی گرہ کشائی نہیں کرسکیں گے بلکہ تمام منصوبے نقش برآپ ثابت ہوں گے ، تمام تد بیریں الٹی ہو جائیں گی اور تمام تیر نشانے سے چوک جائیں گے جیساکہ سورہ ٴ طور کی آ یت ۴۶ میں ہے ۔
”یَوْمَ لا یُغْنی عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئاً وَ لا ہُمْ یُنْصَرُون “
” وہ دن ایساہوگا کہ جس میں ان کی تمام تد بیریں کسِی مشکل کوحل نہیں کرپائیں گی اوران کی کسِی قسم کی مدد نہیں کی جاسکے گی “ ۔
” لا یُغْنی “ اور” لا ہُمْ یُنْصَرُون“ میں کیافرق ہے ؟ اس بارے میں بہتر ین قول یہ ہے کہ پہلا جُملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی شخص اکیلا اور بذات خوداس دن کسی کی کوئی مشکل حل نہیں کرسکے گا اور دوسراجُملہ اس بات کی طرف اشار ہ ہے کہ سب مل کر بھی ایک دوسرے کی مشکلات حل نہیں کرسکیں گے ، کیونکہ نصرت کااطلاق ایسے مقام پر ہوتاہے جہاں کوئی شخص کسی دوسر ے کی امداد کوپہنچے اوراس کی مدد کرے تاکہ دونوں مل کر مشکلات پر قابو پالیں۔
وہاں پرصرف ایک گرہ مستثنٰی ہوگا، جیساکہ بعد کی آ یت میں فرمایاگیاہے : مگر وہ کہ جس پرخدانے رحمت کی ہو ، کیونکہ خداصاحب غلبہ اور رحیم ہے (إِلاَّ مَنْ رَحِمَ اللَّہُ إِنَّہُ ہُوَ الْعَزیزُ الرَّحیمُ ) ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ خدا کی یہ رحمت بلاشرط نہیں ہے ، بلکہ صرف ان مومنین کے شامل ِ حال ہوگی جوعملِ صالح انجام دے چکے ہیں اوراگر ان سے کوئی لغزش سرزد ہو ئی بھی ہوگی تو بھی اس حد تک نہیں کہ ان کے خدا کے ساتھ رابطے کومنقطع کردے ، ایسے ہی لوگ لطفِ الہٰی کے دامان سے وابستہ ہوں گے ، اس کے دریائے جودو کرم سے بہرہ ور ، اس کے چشمہٴ رحمت سے سیراب اور اس کے والیاء کی شفاعت کی حق دار ہوں گے ۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس دن ہرقسم کے دوست ، ولی اور یارو کی نفی مسئلہ شفاعت کے منافی نہیں ہے ،کیونکہ شفاعت بھی اذن وفرامانِ رب ّ العزت کے بغیر حاصل نہیں ہوگی ۔
یہ بات بھی بڑ ی دلچسپ ہے خدا کے ” عزیز “ اور” رحیم “ ہونے کی صفات ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں جن میں سے پہلی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا بے انتہائی قدرت کامالک اور ناقابلِ شکست ہے اور د سری اس کی بے پایاں رحمت کی طرف اشارہ ہے ، اور سب سے اہم با ب یہ ہے کہ قدرت رکھنے کے باوجود رحمت کامالک ہے ۔
اہل بیت علیہم السلام سے منقول بعض روایات میں ہے کہ ” إِلاَّ مَنْ رَحِمَ“ سے مراد وصی رسُول امیرالمو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام اوران کے پیر وکار ہیں ( ۳) ۔
ظا ہر ہے کہ ایسی روایات کامقصد آ یت کاایک واضح مصداق بیان کرناہے ۔
۱۔ ” میقا تھم “ کی ضمیر کامرجع کیاہے ، اس بارے میں مفسرین کئی احتمال ذکرکیے ہیں ، بعض مفسری اسے تمام انسانوں کی طرف پلٹا تے ہیں ، مفسرین با لخصو ص ان اقوام کی طرف جن کی طرف گزشتہ آ یات میں اشارہ ہوچکاہے ، یعنی تبع کی قوم اوراس سے پہلے کی ظالم اقوام ، لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے ۔
۲۔ لغت کی کتابوںمیں ” مولی “ کے بہت سے معانی ذکر ہُوئے ہیں ،حتی کہ بعض ارباب لغت نے اس کے ستائیس ۲۷ سے زیادہ معانی لکھے ہیں ۱۔ ربّ، ۲ ۔ چچا ، ۳۔ چچازاد بھائی ، ۴، بیٹا ، ۵۔ بھانجا ، ۶۔ آزاد کرنے والا ، ۷۔ آزاد ہونے والا ، ۸۔ بندہ ، ۹۔ مالک ، ۱۰۔ تابع ، ۱۱ ۔ جس کونعمت مل چکی ہو ، ۱۲ ۔ شریک ، ۱۳۔ ہم پمیان، ۱۴ ۔ دوست ، ۱۵۔ ہمسایہ ، ۱۶۔ مہمان ،۱۷۔ داماد ، ۱۸۔ قریبی رشتہ دار ، ۱۹۔ نعمت عطا کرنے والا ، ۲۰۔ضائع ہونے والا ، ۲۱۔ سر پرست ، ۲۲۔ زیادہ مناسب ، ۲۳۔ آ قا ، ۲۴۔ دوست رکھنے والا ، ۲۵۔ مددگار ، ۲۶۔ اولی بالتصرف ، ۲۷۔ متولی ( الغدیر ، جلد ۱،ص ۳۶۲) ۔
3۔تفسیرنورالثقلین ،جلد۴،صفحہ ۶۲۹۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma