پر ہیز گارلوگ اور بہشت کی گو نا گون نعمتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
چونکہ گذ شتہ آ یات میں جنمیوں کے درد ناک عذاب کاتذکرہ تھا ، لہذاان آ یات میں اہل ِ بہشت کی نعمتوں اورجزا کوشمار کرکے ان ہردو کی اہمیّت کوزیادہ آشکار کیاگیاہے ۔
اہل بہشت کی جزاء کوسات قسموں میںخلاصہ کیاگیاہے :
پہلی یہ کہ ” پرہیزگار لوگ اموامان کی جگہ میں ہوں گے “ (إِنَّ الْمُتَّقینَ فی مَقامٍ اٴَمینٍ ) (۱) ۔
اسی لیے انہیں کسی تکلیف اور بے چینی کاسامنا نہیں کرناپڑے گا . وہ آ فا ت و بلیات ، رنج وغم اور شیطانوں اورطاغوتوں سے بالکل محفوظ ہوں گے ۔
پھر دوسر ی نعمت کو بیان کرتے ہُو ئے قرآن کہتاہے : وہ باغو ں اور چشموں میں رہیں گے اوران کی قیام گا ہوں کوہرطرف سے چشموں اور باغوں نے اپنے گھر ے میں لیاہوگا (فی جَنَّاتٍ وَ عُیُونٍ) ۔
” جنّات “ (گھنے باغات )کی تعبیر شاید باغوں کی مختلف تعداد کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ بہشت کے سب باغات یکساں نہیں ہیں ، بلکہ بہشتوں کے مختلف درجات کی وجہ سے باغات بھی مختلف ہوں گے ۔
تیسر ے مرحلے پر ان کے زیبا اورخوبصورت لباس کی طرف اشارہ کر تے ہُوئے فرمایاگیاہے : وہ نرم ونازک اورضخیم وبیز ریشمی زیب تن کریں گے اورتختیوں پرایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے (یَلْبَسُونَ مِنْ سُندُسٍ وَ إِسْتَبْرَقٍ مُتَقابِلین) ۔
” سندس “ ریشم کے نزم ونازک اور لطیف کپڑ ے کوکہتے ہیں ، بعض نے اس کے ساتھ زربافت کی قید بھی لگائی ہے ، یعنی زر بافت نرم و نازک ریشمی کپڑا ۔
” استبرق “ ریشم کے ضخیم اور دبیز کپڑے کوکہتے ہیں ، بعض اہل سُنّت اسے ” استبر “ ( بمعنی ضخیم ) فارسی کلمہ معر ّب سمجھتے ہیں . یہ احتمال بھی ہے کہ اسے عربی کاکلمہ ” برق “ (چمک دمک )سے لیاگیا ہو بوجہ اس خاص چمک دمک کے جواس قسم کے کپڑ وں میں ہوتی ہے ۔
البتہ بہشت میں نہ توسخت سردی ہوگی او ر نہ ہی سخت گرمی کہ جِسے اس قسم کے لباس کے ذریعے رو کاجائے ، بلکہ یہ بہشت والوں کے گو نا گُوں اور طرح طرح لباسوں کی طرف اشارہ ہے ۔
جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ہمارے الفاظ و کلمات جو دُنیا میں ہماری روز مرّ ہ کی حاجات پوراکرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں اس عظیم اوعر مکمل جہان کے مسائل بیان کرنے پر قادر نہیں ہیں ،بلکہ صرف ان کی طرف ایک اشارہ ہوسکتے ہیں۔
بعض عُلماء نے لباس کے مختلف ہونے کواہل بہشت کے مقام ِ قرب کے تفاوت کی طرف اشارہ سمجھاہے ۔
یہ بات بھی ذہن نشین ررہے بہشت والوں کا ایک دوسرے کے رُو بُرو بیٹھنا اوران کے درمیان ہرقسم کے امتیاز اور برتری کی نفی اسی بات کی طرف اشار ہ ہے کہ ان کی باہمی نشتوں میں انس ومحبت اواخوب اور بھائی چار ے کی رُوح حکم فرماہوگی اوراس فضا میں صدق وصفات اور رو حانیت کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا ۔
چوتھے مرحلے میں ان کی از واج کاذکر کیاگیاہے ، ارشاد ہوتاہے : جی ہاں ! اسی طرح ہیں اہل بہشت اور ہم انکی حوار لعین کے ساتھ تزویج کردیں گے (کَذلِکَ وَ زَوَّجْناہُمْ بِحُورٍ عینٍ ) ۔
” حو ر “ جمع ہے ” حوراء “ کی جس کامعنی ہے ، اس کی آنکھوں کی سیاہی مکمل طو ر پر سیاہ او رسفیدی مکمل طورپر شفا ف ہے ۔
’ ’ عین “ (بروزن ” چین “ ) ” اعین “ اور ’ ’ عیناء “ کی جمع ہے ، جس کا معنی ہے موٹی آ نکھ ،چونکہ انسان کی خوبصورتی سب سے زیادہ اس کی آنکھوں میں ہوتی ہے ، اسی لیے یہاں پر حورا لعین کی خوبصُور ت آنکھوں کی تعریف کی گئی ہے ، البتہ قرآن کی دوسری آ یات میں اس کی دوسری خوبصور تیوں کو بھی خوبصُورت انداز میں بیان کیاگیا ہے ۔
اس کے بعد اہل بہشت کی پانچو یں نعمت کاذکر کر تے ہُوئے فرمایاگیاہے : وہ جس قسم کے پھل چاہیں گے انہیں دیئے جائیں گے اوروہ وہاں پرنہایت اطمینان سے رہیں گے (یَدْعُونَ فیہا بِکُلِّ فاکِہَةٍ آمِنین) ۔
حتی کہ دُنیا میںپھلوں سے استفادہ کرنے کے لیے جومشکلات درپیش ہوتی ہیں ان کے لیے وہ بھی نہیں ہونگی ، تمام پھل ان کے نز دیک اوران کی دسترس میں ہوں گے . لہذا اونچے اونچے درختوں سے پھل چننے کی زحمت بھی انہیں گوا را نہیں کرنا پڑے گی ، کیونکہ ” قطو فھا دا نیة “ (حاقة ۔ ۲۳) ۔
جوپھل وہ چاہیں گے ان کاانتخاب بھی خود کریں گے ” وَ فاکِہَةٍ مِمَّا یَتَخَیَّرُونَ“ ( واقعہ ۔ ۲۰) ۔
وہ بیمار ی اورتکلیف جوبعض اوقات دُنیا میں پھل کھانے کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے ، وہاں پر نہیں ہوگی اور نہ ہی اِن میودں کے خراب ہونے ، کمیاب ہونے اورختم ہونے کاخطر ہ ہوگا ، غرض ہرلحاظ سے وہ مطمئن ہوں گے ۔
بہرحال اگر جہنمیوں کی غذا ’ ’ زقوم “ ہوگی جوان کے پیٹ میں کھو لتے ہُو ئے پانی کی طر ح اُبال پیدا کردے گی توبہشتیوں کی غذ الذیذ پھل ہوں گے جو ہرقسم کی تکلیف سے مُبّراہوں گے ۔
بہشت اور بہشتی نعمتوں کادوام اورہمیشگی ، متقین کے لیے خداکی چھٹی نعمت ہوگی کیونکہ ” وصال “ کے وقت جوچیز انسان کو بے چین کردیتی ہے وہ ”فراق “ کااندیشہ ہے ، اسی لیے خداتعالیٰ فرماتاہے : وہاں پہلی دفعہ کی موت کے سواجس کی تلخی وہ دُنیا میں چکھ چکے ہوں گے انہیں موت کی تلخی نہیں چکھنی پڑے (لا یَذُوقُونَ فیہَا الْمَوْتَ إِلاَّ الْمَوْتَةَ الْاٴُولی وَ وَقاہُمْ عَذابَ الْجَحیمِ) ۔
یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ قرآن مجید نے بہشت کی نعمتوں کے جاو دانی ہونے کو مختلف تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے ، کہیں پرفر ماتاہے :
” خالدین فیھا “۔
” وہ بہشت کے باغوں میں ہمیشہ رہیں گے “( ۲) ۔
کبھی فرماتاہے:
” عطاء ً غیر مجذ وذ “ ۔
” یہ ایسی عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی “ ( ہود ۔ ۱۰۸) ۔
یہاں پر”الْمَوْتَةَ الْاٴُولی “ (پہلی موت ) کیوں کہاگیاہے ؟ اس بارے میں ایک تفصیلی گفتگو ہے ، جوبعد میں بیان ہوگی ۔
آخر میں اس سِلسلے کی ساتویں اور آخر ی نعمت کویبان کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : اورخدا انہیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا (وَ وَقاہُمْ عَذابَ الْجَحیم) ۔
ان نعمتوں کی تکمیل اس بات سے ہورہی ہے کہ عذاب کا احتمال اورسزا کاخوف بہشت والوں کوپر یشان نہیں کرے گا ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگرپر ہیز گا روں میں کسی قسم کی لغزش بھی ہوگی توخدا وندعالم اپنے لطف وکرم سے انہین معاف کردے گا اورانہیں اطمینان دلائے گاکہ وہ اس لحاظ سے پریشان نہ ہوں ، باالفاظ دیگر معصومین کے علاوہ سب لوگ کسی نہ کسِی لغزش کے مر تکب ضرور ہوتے ہیں، اگرخدا کی رحمت اورمغفرت ان کے شاملِ حال نہ ہو توانہیں ہمیشہ یہ خطر ہ لاحق رہتا لہذا یہ آ یت انہیں اطمینان دلارہی ہے ۔
یہاں پر ایک سوال پیداہوتاہے وہ یہ کہ بعض مومنین اپنے گناہوں کی وجہ سے ایک عرصے تک جہنم میں رہیں گے ، پھر وہ پاک ہوکر داخل بہشت ہوں گے ، توکیا مندرجہ بالاآ یت کااطلاق ان پر بھی ہوگا؟
جواباً گزارش ہے کہ مندر جہ بالاآ یت بلند پایہ پرہیز گر روں کی بات کررہی ہے جوابتداء ہی میں بہشت میں داخل ہونگے اور دوسر ے افراد کے بارے میں یہ آ یت خوموش ہے ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ بھی بہشت میں داخل ہوں نے کے بعد جہنم کی طرف واپس جانے کے خوف سے بے نیاز ہوجائیں گے اور بالکل امن وسکُون سے زندگی بسرکریں گے ، یعنی مذکورہ آ یت ان کی بہشت میں داخل ہونے کے بعد کی تصویر کشی بھی کررہی ہے ۔
اسی سلسلے کی آ خری آ یت میں مذکورہ ساتوں صفات کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے نتیجہ کے طورپر فرمایاگیاہے : یہ سب تمہارے پروردگار کافضل اوراس کی بخشش ہے اوریہی بہت بڑ ی کامیابی ہے ، جو پر ہیز گار وں کے شامل ِ حال ہے (فَضْلاً مِنْ رَبِّکَ ذلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ ) (۳) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ پر ہیز گار وں نے دُنیا میں بہت زیادہ نیکیاں اور کارِ خیرانجام دیئے ہوںگے ، لیکن ان ناچیز اعمال کی جزا ء اس قدر بے انہتا اور جا ودانی نعمتیں نہیں ہیں . یہ توخدا کافضل وکرم ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ عظیم نعمتیں میسّر آ ئیں گی ۔
اس کے علاوہ اگردُنیا میں خدا کا فضل وکرم ان کے شاملِ حال نہ ہوتاتووہ اس حد تک نیک اعمال انجام نہ دے سکتے ، خدا نے انہیں عقل و دانش عطاء کی ، انبیاء اور آسمانی کتابیں بھیجیں اورہدایت اورعمل کی توفیق ان کے شامل حال کی ۔
جی ہاں ! خداوند ِ عالم کی اس قدر عظیم توفیقات سے بہرہ مند ہونا اوراس حد تک جزائے الہٰی تک پہنچنا ان تو فیقا ت کے پر تومیں ہی ” فوز عظیم “ اور بہت بڑی کامیابی ہے ، جو اس کے لطف وکرم کے سایہ ہی میں حاصل ہوتی ہے ۔
” پہلی موت “ کیاہے ؟
ہم نے مندرجہ بالاآ یات میں پڑھا ہے کہ بہشتی لوگ پہلی موت کے علاوہ کسی اورموت کاذائقہ نہیں چکھیں گے ، اس سلسلے میں تین سوال پیدا ہوتے ہیں ۔
پہلایہ کہ ” مو تہ الیٰ “ یاپہلی موت موت سے کیا مُراد ہے ؟ اگراس سے مراد وہ موت ہے جوزندگی کے خاتمہ کاسبب بنتی ہے تو پھریہ کیوں کہتاہے کہ ” اہل بہشت پہلی صورت میں موت کے علاوہ کسی اور موت کاذائقہ نہیںچکھیں گے “ جبکہ وو تواس سے پہلے یہ ذائقہ چکھ چکے ہیں ( یہاں فعل ماضی استعمال ہوناچایئے تھا نہ کہ فعل مضارع) ۔
تواس سوال کے جواب میں بعض مفسرین نے ” إِلاَّ الْمَوْتَةَ الْاٴُولی“ میں ” الاّ “ کو ” بعد “ کے معنی میں لا ہے ، ان کے بقول آ یت کا معنی یُوں ہوگا : ” اس پہلی موت کے کسِی اورموت کاذائقہ نہیں چھکیں گے ۔
بعض مفسرین نے کہاہے کہ یہاں پر ایک جُملہ مقدر ہے جو یہ ہے :
”إِلاَّ الْمَوْتَةَ الْاٴُولی الّتی ذاقوھا “
” سوائے پہلی موت کے جو پہلے سے چکھ چکے ہیں “ ( ۴) ۔
دوسراسوال یہ ہے کہ یہاں پرصرف پہلی موت کاتذ کرہ کیوں ہوا ہے حالانکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ انسان نے دو موتوں کامزہ چکھناہوتاہے ، ایک موت دُنیا وی زندگی کے خاتمے پر اوردوسر ے برزخ کی زندگی کے اختتام پر ۔
اس سوال کے کئی جوابات دیئے گئے ہیں ، جن میں سے کوئی بھی قابلِ قبُول نہیں ہے ، لہٰذا ہم بھی انہیں یہاں پر لکھنے کی ضرورت محسُوس نہیں کرتے ، بہتر یہی ہے کہ یہ کہاجائے کہ برزخ کی زندگی اورموت معمُول کی زندگی اورموت سے کسی بھی طرح مشابہ نہیں ہے بلکہ معاد جسمانی کے بموجب قیامت کی زندگی دُنیا وی زندگی کے ساتھ کئی جہات سے مماثلت رکھتی ہے البتہ بلند اور بالاسطح پر ، اسی لیے اہل بہشت سے کہاجائے گا کہ جوموت تم دنیامیں پاچکے ہو ،وہی کافی ہے ، اب تمہیں موت نہیں آ ئے گی اورچونکہ برزخ کی موت اورزندگی اس کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتی لہٰذا اس کاذِکر ہی نہیں ہوٴا ( ۵) ۔
تیسر اسوال یہ ہے کہ قیامت میں موت کانہ ہونا صرف بہشت والوں ہی کے ساتھ مخصوص ہے ، بلکہ اہل دوزخ کو بھی توموت نہیں آ ئے گی ، تو پھراس بارے میں خاص طورپر اہل بہشت کاذکر کیوں کیاگیاہے ؟
مرحوم طبرسی نے ” مجمع البیان “ میں اس کانہایت ہی خوبصُورت جواب دیاہے ، رہ گئے جہنمی توچونکہ ان کی زندگی کاہرلمحہ موت ہوگا گویا وہ ہمیشہ مرتے اور زندہ ہوتے رہیں گے ،لہٰذا انہیں ایسی بات یاد کروا نے کاکوئی فائدہ نہیں ہے ۔
بہرحال یہاں پر” لایذ وقون “ ( نہیں چکھیںگے ) کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل بہشت ک لیے موت کی کمتر ین علامت بھی ظاہر نہیں ہوگی ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ :
خدا بروز قیامت کچھ بہشتیوں کے بارے میں کہے گا ۔
” وعزّتی وجلالی وعلوی وارتفاع مکانی ، لانحلن لہ الیوم خمسة اشیاء ... الاانّھم شباب لایھر مون ، واصحاء لا یسقمو ن ، و اغنیاء لایفتقر ون ،وفرحون لایحز نون ، لایموتون ،ثُمّ تلاھٰذہ الاٰ یة : لایذ وقون فیھا الموت الاّ الموتة الاولیٰ “ ۔
” مجھے اپنے عزت وجلال کی قسم اور بلندی وعَلُوِ مقام کی قسم ، میں انہیں پانچ چیزیں عطا کروں گے ... وہ ہمیشہ جوان میں رہیں گے ، کبھی بوڑ ھے نہیں ہوں گے ، تندرست رہیں گے ، بیمار نہیں ہوں گے تو نگر رہیں گے غر یب نہیں ہوں گے ،مسرور رہیں گے ، غمگین نہیں ہوں گے ، زندہ رہیں گے مریں گے نہیں “ ۔
پھر آپ علیہ السلام نے قرآن کی یہ آ یت تلاوت فر مائی ۔
” لا یَذُوقُونَ فیہَا الْمَوْتَ إِلاَّ الْمَوْتَةَ الْاٴُولی وَ وَقاہُمْ عَذابَ الْجَحیم“ ( ۶) ۔
۱۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ” امین “ کومقام اورجگہ کی صفت کے طورپر ذکر کیا گیاہے ،گویا بہشت والوں کاخود مقام امین ہوگا اوران سے کسِی قسم کی خیانت کااظہار نہیں کرے گا ، اس قسم کی تعبیرات عام طورپر تاکید اور مبالغے کے لیے آ تی ہیں ۔
۲۔اس قسم کی تعبیرات قرآن مجید کی بہت سی آ یات میں آ ئی ہے ، منجملہ ان کے سُورہ ٴ آل ِ عمران کی آ یات ، ۱۵ اور ۱۳۶ ، سُورہ نساء کی آ یت ۱۳ اور ۱۲۲ ،سُور ہ ٴ مائدہ کی آ یت ۸۵ وغیرہ بھی ہیں ۔
۳۔ ” فضلاً “ کے اعراب کے بارے میں کئی احتمال ہیں . ایک تویہ کہ فعل محذوف ” فضلھم فظلا ” کا مفعول مطلق ہے ، دوسر ے یہ کہ ” منفعول لہ “ واقع ہورہاہے اورتیسر ے حال واقع ہورہاہے ۔
۴۔بنابریں مندرجہ بالااستثنا بھی استثنائے منقطع ہے . کیونکہ ایسی موت کاذائقہ بہشتی لوگ نہیں چکھیں گے بلکہ اس سے پہلے وہ چکھ چکے ہوں گے ( غور کیجئے گا ) ۔
۵۔ برزخ کی موت وحیات کے بارے میں ہم نے تفسیر نمونہ کی بیسویں جلد سُورہ ٴ موٴ من کی گیار ہو یں آ یت کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔
۶۔ تفسیر نورالثقلین جلد ۴ ،ص ۶۳۴ بحوالہ اصولِ کافی ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma