ان لوگوں کا مرنا جینا ایک سا نہیں ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گزشتہ آیات میں دومختلف اور متضاد گرو ہوں کا ذکرتھا ، ایک مومنین کاگروہ اور دوسرا کافروں کایاایک پرہیز گار وں کا اور دوسرا مجرمین کا ،اس کے بعد زیرنظر آیات میں ان دونوں گروہوں کوآمنے سامنے رکھ کر ان کا باہمی تقابل کیاگیاہے ، پہلی آیت میں فر مایاگیاہے : جو لوگ بُرے کاموں کے مرتکب ہُوئے ہیں کیاوہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انکو اُن لوگوں کے برابر کردیں گے جوایمان لائے اوراچھے اچھے کام بھی کرتے رہے کہ ان کامرناجینا یکساں ہوگا (اٴَمْ حَسِبَ الَّذینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئاتِ اٴَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواء ً مَحْیاہُمْ وَ مَماتُہُمْ ساء َ ما یَحْکُمُونَ) ۔
یہ لوگ کیابُر افیصلہ کرتے ہیں (ساء ما یحکمون) ۔
کیا یہ بات ممکن ہے کہ نور اور ظلمت ، علم اور جہل ،نیک اور بد اوریمان او ر کُفر یکساں ہوں ؟ آ یا یہ بات ممکن ہے کہ نا بر ابر امُور کانتیجہ اورپھل مساوی ہو ؟ ایساہر گز نہیں ہوسکتا . نیک عمل مومنین ، بے ایمان مجرمین سے ہر جگہ علیٰحدہ ہیں ،ایمان ہو یاکفر ، نیک اعمال ہوں یابُرے ،ان میں سے ہرایک کوان کی زندگی اور موت دونوں عالتوں میں اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ۔
یہ آ یت سورہٴ ص کی ۲۸ ویں آ یت کے مانند ہے ،جس میں فرما یا گیاہے :
” اٴَمْ نَجْعَلُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ کَالْمُفْسِدینَ فِی الْاٴَرْضِ اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقینَ کَالْفُجَّارِ “
” کیا جولوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک عمل دیئے ہم ان کو ” مُفْسِدینَ فِی الْاٴَرْضِ “ جیسا بنادیں ؟ یاپرہیز گاروں کو فا جروں کے مانند ؟
سورہٴ قلم کی ۳۵ و ۳۶ ویں آ یت میں بھی فر مایاگیاہے ۔
” اٴَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمینَ کَالْمُجْرِمینَ ،ما لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ“
آ یاہم مُسلمانوں کوگنا ہگا روں جیسا بنادیں ؟ تمہیں کیاہو گیا ہے ،کیسے فیصلے کرتے ہو ؟
” اجتر حوا “ ، ” جرح “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی وہ زخم یااثر ہے جو بیماری یاکسِی اور تکلیف کی وجہ سے انسان کے بدن پر ہوتاہے ، چونکہ گناہ کاارتکاب بھی گو یاانسانی رُوح کومجروح کردیتاہے ،اسی لیے ” اجتراح “ کامادہ گنا ہوں کی انجام دہی کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ، بلکہ بعض او قات اس سے بھی وسیع ترمعانی کے لیے استعمال ہوتاہے ،یعنی ہرقسم کااکتساب اور ارتکاب نیز انسانی اعضاء کواس لیے ” جوارح “ کہتے ہیں کہ ان کے ذ ریعے انسان پر مقاصد انجام دیتاہے اورجوکچُھ چاہتاہے حاصل کرتاہے اور کماتاہے ۔
بہرحال یہ آیت کہتی ہے کہ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ کوئی شخص یہ تصوّر کرلے کہ ایمان یاگناہ اور کُفر کاانسانی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ، ایسابالکل نہیں ہے ، ان دونوں قسم کے لوگوں کی زندگی اور موت مکمل طورپر مختلف ہے ۔
مومنین کرام ایمان اورعمل صالح کے پر تومیں ایک مخصوص قسم کے اطمینان کے حامل ہوتے ہیں ، حتی کہ حوادثات ِ زمانہ کے سخت سے سخت ادوار بھی ان کی رُوح پرذرہ برابر اثر انداز نہیں ہوسکتے ، جب کہ بے ایمان اور گناہوں میں تھڑے ہوئے لوگ ہمیشہ مضطرب بے چین اورپریشان خیالی کاشکار رہتے ہیں ،اگرچہ وہ نعمتوں میں سرمست ہوں ، پھر بھی انہیں ہمیشہ ان کے زوال کاخطرہ رہتاہے اور اگرمصیبت اور تکالیف میں مبتلا ہوں ، بھی ان کے مقابلے کی تاب نہیں رکھتے ، جیساکہ سُورہ ٴ انعام کی ۸۲ ویں آ یت میں ہے ۔
”الَّذینَ آمَنُوا وَ لَمْ یَلْبِسُوا إیمانَہُمْ بِظُلْمٍ اٴُولئِکَ لَہُمُ الْاٴَمْنُ وَ ہُمْ مُہْتَدُون “
” جولوگ ایمان لے آئے اورانہوں نے اپنے ایمان کوشرک سے آلودہ نہیں کیا ان کے لیے اطمینان خاطر ہے اوروہی ہدایت یافتہ ہیں “۔
صاحب ایمان افراد خدا کے وعد و ں پر مطمئن ہیں اوراس کی خاص عنایتوں کے زیر سایہ ہیں ،جیساکہ سُورہٴ مومن کی ۱۵ ویں آ یت میں ہے ۔
”إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذینَ آمَنُوا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ یَوْمَ یَقُومُ الْاٴَشْہادُ “
” ہم اپنے رسُولوں کی اوران لوگوں کی جوایمان لے آ ئے ہیں ،دُنیا وی زندگی میں بھی یقینا مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے ، اس دن ( بروز قیامت ) بھی ۔
نورِ ہدایت ،پہلے گروہ کے لوگوں کے دل کو منور کرتا ہے اور وہ اپنی مقدس منزل مقصود کی جانب استوار اورمضبُوط قدموں کے ساتھ رواں دواں ہیں ۔
ارشاد ہوتاہے :
”اللَّہُ وَلِیُّ الَّذینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَی النُّورِ “
” اللہ ایمان داروں کاولی ہے ، انہیں ظلمت سے نور کی طرف ہدایت کرتاہے ‘-‘ (بقرہ / ۲۵۷) ۔
لیکن دوسر ا گروہ جس کی زندگی کانہ تو کوئی واضح مقصد ہوتاہے اور نہ ہی واضح پرو گرام ہوتاہے وہ ظلمت کی لہروں میں ٹامک ٹو ئیاں مارتا پھرتاہے ۔
ارشاد ہوتا :
” وَ الَّذینَ کَفَرُوا اٴَوْلِیاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُمْ مِنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُماتِ“
” جولوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے ولی طاغوت اور شیطان ہوتے ہیں کہ جوانہیں نُور سے نکال کرظلمت کی طرف لے جاتے ہیں “ ( بقرہ / ۲۵۷) ۔
موٴ منین کی یہ حالت تواس جہان کی دُنیا وی زندگی کی ہے ، لیکن بوقت وفات جوان کے لیے عالمِ بقا کی جانب ایک دریچہ اور آخر ت کے لیے ایک دروازہ ہوتاہے ،قرآن کی زبان میں ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ :
”الَّذینَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلائِکَةُ طَیِّبینَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْکُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ “
” پرہیز گا روں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب فرشتے ان کی رُوح کو قبض کرتے ہیں تووہ پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں ، فرشتے ہیں ، فرشتے انہیں کہتے ہیں تم پرسلام ، بہشت میں داخل ہوجاؤ ، یہ ان اعمال کانتیجہ ہے جوتم انجام دیتے رہے ہو “ (نحل / ۳۲) ۔
جب کہ بے ایمان مجرمین کے ساتھ دوسرے لفظوں میں بات کرتاہے ،جیساکہ اسی سُورت (نحل ) کی ۲۸ ویں ۲۹ ویں آ یات میں ہے کہ :
”الَّذینَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلائِکَةُ ظالِمی اٴَنْفُسِہِمْ فَاٴَلْقَوُا السَّلَمَ ما کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوء ٍ بَلی إِنَّ اللَّہَ عَلیمٌ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ،فَادْخُلُوا اٴَبْوابَ جَہَنَّمَ خالِدینَ فیہا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرینَ “
” ظالم کافروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب فرشتے ان کی رُوح قبض کرتے ہیں تووہ بے بسی کی حالت میں سر جھکا کریہی کہتے ہیں کہ ہم بُر ے کام نہیں کیاکرتے تھے ،بلکہ جوکچھ تم کیاکرتے تھے خدااس سے اچھی طرح آگاہ ہے ، اب تم دوزخ سے داخل ہوجاؤ اوراس ہمیشہ رہو ، یہ متکبر ین کے لیے کیسا بُرا ٹھکانا ہے “۔
خلاصہ ٴ کلام یہ کہ ان دونوں گروہوں کے درمیان دنیاوی زندگی کے تمام شعبوں ، بوقت مر گ ، عالم برزخ اورقیامت میں واضح فرق موجود ہے ( ۱) ۔
دوسرااحتمال یہ ہے کہ حیا ت سے مراد ،قیامت کے دن کی زندگی ہے . یعنی ایسانہیں ہوسکتا ہے کہ مومنین اور بے ایمان لوگوں کاموت کے وقت اورقیامت کے دن زندہ ہونے کے موقع پرایک جیسا انجام ہو، لیکن آیت کاظاہری اعتبار سے وہی معنی صحیح ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔
بعد کی آ یت درحقیقت گزشتہ آ یات کی تفسیر اور توجیہ ہ ، پر وردگار فر ماتاہے : اور خدا وند عالم نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیاہے (وَ خَلَقَ اللَّہُ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ ) ۔
تاکہ ہرشخص کواس کے کیے کابدلہ دیاجائے اوران پر کسی قسم کاظلم نہیں کیا جائے گا (وَ لِتُجْزی کُلُّ نَفْسٍ بِما کَسَبَتْ وَ ہُمْ لا یُظْلَمُونَ ) ۔
ساری کائنات اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ اس کائنات کے پیدا کرنے والے نے اسے محورِ حق پرٹھہرایاہے اورہر مقام پر حق و عدالت حکم فر ماہے ۔
جب صُورت ِ حال یہ ہے کہ توپھر یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ وہ صالح العمل مومنین اور بے ایمان مجرمین کوایک جیسا قرار دے اور یہ بات قانون خلقت میں ایک استثنائی صُورت حال اختیار کر لے ؟
فطری بات ہے کہ جولوگ حق و عدالت کے اس قانون کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ کائنات کی برکتوں اورخدا کی مہر بانیوں سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں اورجولوگ اس کے بر خلاف قدم اٹھا تے ہیں انہیں غضب الہٰی کی آگ کاایندھن ہی بننا چاہیئے اور عدالت کابھی یہی تقاضاہے ۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ’ ’ عدالت “ کامعنی ” مساوات “یا” برابری “ نہیں بلکہ عدالت اس بات کانام ہے کہ ہرشخص لیاقت اور اہلیت کی بناء پر نعمات الہٰی سے بہرہ مند ہو ۔
زیرتفسیر آیات میں سے آخر ی آ یت کافروں اور مو منوں کی عدم مساوات پرایک اور دلیل ہے ، ارشاد ہوتاہے : بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کواپنا معبُود بنارکھّا ہے (اٴَ فَرَاٴَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلہَہُ ہَواہُ وَ اٴَضَلَّہُ اللَّہُ عَلی عِلْمٍ ) ۔
” اوراس کے کان اوردِل پر مہر لگادی ہے اوراس کی آنکھ پرپردہ ڈال دیاہے “ ، تاکہ وہ گمراہی کی وادی میں بھٹکتا پھرے (وَ خَتَمَ عَلی سَمْعِہِ وَ قَلْبِہِ وَ جَعَلَ عَلی بَصَرِہِ غِشاوَةً ) ۔
توپھر ایسی حالت میں خدا کے سوا اسے کون ہدایت کرسکتاہے (فَمَنْ یَہْدیہِ مِنْ بَعْدِ اللَّہِ اٴَ) ۔
” تو کیااب بھی تم لوگ غور وفکر نہیں کرتے ہو؟“ اورایسے شخص کے اور اس شخص کے درمیان فرق نہیں سمجھتے ہو جوراہ حق کو پاچکا ہے (فَلا تَذَکَّرُون) ۔
یہاں پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ انسان اپنی خواہشات کواپنا معبُود بنالے ؟
تویہ بات صاف ظاہر ہے کہ جب انسان خدائی فرمان کوپس پشت ڈال دے اوراپنے دل اور ہوائے نفس کا مطیع و فرما نبر دار بن جائے اورہوائے نفس کی اطاعت کوحق کی اطاعت پر مقدم کرے تویہی ہوائے نفس کی پرستش ہے ،کیونکہ عبادت اورپرستش کاایک معنی اطا عت بھی توہے ،جیساکہ قرآن مجید میں بارہا شیطان یاعلما ء اوراحبار یہود کے بارے میں آ یاہے :
کہ ” کچھ لوگ شیطان کی عبادت کرتے ہیں “ ( یس / ۶۰) ۔
اور یہود کے متعلق ہے کہ :
” انہوں نے اپنے علماء کواپنا ربّ اور پروردگار بنا لیاہے ) ( توبہ / ۳) ۔
اورحدیث میں ہے کہ امام محمد باقر اور امام جعفرصادق علیہماالسلام فرماتے ہیں کہ :
اماواللہ ماصا موالھم و لا صلّوا، ولکنّھم احلو الھم حرامًا وحرموا علیھم حلالا ،فا تبعو ھم وعبد و ھم من حیث لایشعرون “
” خدا کی قسم ان لوگوں ( یہودو نصاریٰ)نے اپنے پیشواؤں کے لیے نماز اور روز ے بجانہیں لائے ، لیکن ان کے پیشواؤں نے حرام کوحلال اور حلال کو حرام قرار دے دیا اورانہوں نے اس کو تسلیم کرلیا اوران کی پیروی کی اور بغیر توجہ کیے ، ان کی عبادت اور پرستش شروع کردی (2) ۔
لیکن بعض مفسرین نے اس تعبیرکو قریش کے بُت پرستوں کی طرف اشارہ سمجھاہے کہ جس چیز کے متعلق ان کا جی چاہتا تھا اس کابُت بنادیتے تھے اوراس کی عبادت کرناشروع کردیتے تھے ،اور جب کسی دوسری جاذب نظر چیز کودیکھتے تو پہلے بُت کوچھوڑ کراس کابُت بناکر اس کی عبادت میں لگ جاتے تھے . اس طرح سے ان کامعبُود وہ چیز ہوتی جِسے ان کی نفسانی خواہشات پسند کرتیں ( ۳) ۔
لیکن ”مَنِ اتَّخَذَ إِلہَہُ ہَواہُ “ (جس شخص نے اپنا معبود اپنی خواہشات نفسانی کوبنالیا ہے ) کی تعبیر پہلی تفسیر سے زیادہ مہم آہنگ ہے ۔
” اٴَضَلَّہُ اللَّہُ عَلی عِلْمٍ “ کے بارے میں مشہور تفسیر تووہی ہے جوسطور ِ بالا میں بیان ہو چکی ہے اورجواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے چراغ ہدایت گُل کردیاہے اورنجات کے د رواز ے اپنے اوپر بندکر لیے ہیں اورواپسی کے راستے برباد کرچکے ہیں توایسی صُورت میں اللہ نے اپنے لطف و کرم اوررحمت ومہر بانی کوان سے سلب کرلیاہے ، نیک و بد کی پہچان کی صلا حیت ان سے واپس لے لی ہے ، گو یا ان کے دل اورکانوں کومحفوظ مقام پر بند کردیا ہے اوراس پر مہر لگادی ہے اوران کی آنکھوں پر دبیز پر دے ڈال دیئے ہیں ۔
درحقیقت یہ سب کچھ اس چیز کے آثار ہیں جو آثار انہوں نے اپنے لیے منتخب کی ہے اورایسے بدبخت معبُود کانتیجہ ہے جِسے انہوں نے اپنے لیے منتخب کیاہے ۔
سچ مچ نفس پرستی کسِی قدرخطر ناک بُت ہے ،جو رحمت اورنجات کے تمام دروازوں کوانسان پر بند کر دیتاہے اوراس بارے میں رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث کس قدر ناطق اور واضح ہے کہ :
” ما عبد تحت السّماء الٰہ ابغض الی اللہ من النھوی “ ۔
” آسمان کے زیر سایہ ہرگز کسِی معبُود کی عبادت نفس پرستی جیسی عبادت سے زیادہ ناپسند یدہ نہیں ہے “ ( ۴) ۔
لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ جُملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نفس پرست اورخود ہٹ دھرم افراد جان بوجھ کرہدایت کی راہوں سے ہٹ کرگمرا ہیوں کواختیار کرتے ہیں ، کیونکہ نہ تو علم ودانش ہمیشہ ہدایت کے ہمراہ ہوتے ہیں اور نہ ہی گمرا ہی ہمیشہ جہالت کے ہم رکاب ہوتی ہے ۔
علم اس وقت سبب ہدایت بنتاہے جب انسان اس کے لواز مات کواپنائے اوراس کے ساتھ ساتھ قدم اُٹھا ئے ،تب کہیں جاکر منز ل مقصُود تک پہنچاتاہے ،جیساکہ قرآن مجید کچھ ،ہٹ دھرم کافر لوگوں کے بارے میں ارشاد فر ماتاہے ۔
”وَ جَحَدُوا بِہا وَ اسْتَیْقَنَتْہا اٴَنْفُسُہُمْ “
” انہوں نے خداکی آیات کاانکار کردیا ، حالانکہ ان کے کے دِل اس کی حقانیّت پریقین رکھتے تھے ( ۵) ۔(نمل / ۱۴)
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آ یت میں جود ضمیروں کامرجع خداتعالیٰ ہے پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ، کیوکہ قرآن فرماتاہے کہ خدانے اِسے گمراہی میں چھوڑ دیاہے اوراس کے کان اور دِل پرمہر لگادی ہے ۔
ہمارے اس بیان سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں عقیدہ ٴ جبری کے بارے میں کوئی علا مت نہیں ملتی ، بلکہ اختیار کے اصول اورانسان کے پانے ہاتھوں سے اپنی تقد یرسنوارنے پرتاکید کی گئی ہے ۔
خداوندعالم کے انسان کے دِل اورکانوں پر مہرلگا نے اورآنکھو ں پر پردہ ڈالنے کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں سورہٴ بقرہ کی ساتویں آ یت کی تفسیر ہم تفصیل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں ۔
۱۔ مندرجہ بالاآ یت کی تفسیر میں مفسرین نے کئی اوراحتما لات بھی ذکر کیے ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ” محیا ھم ومما تھم “کے جُملے سے مراد یہ ہے کہ بے ایمان مجرمین کی زندگی اورموت برابر ہیں ،نہ تو زندگی میں ان سے خیر وبرکت اور اطاعت الہٰی کی امید ہوتی ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد ،وہ زندہ توہیں ، لیکن مر دوں کے مانند ( توایسی صورت میں دونوں ضمیر یں مجر مین کی لوٹ رہیں ہیں ) ۔
۲۔ تفسیر نورالثقلین ،جلد ۲، ص ۲۰۹۔
۳۔ تفسیر درمنثور ،جلد ۶،ص ۳۵۔
۴۔تفسیر قرطبی جلد ۹، ص ۵۹۸۷ ،تفسیر رُوح البیان اور تفسیر مراغی اسی آ یت کے ذیل میں ۔
۵۔تفسیر المیزان ،جلد ۱۸ ،ص ۱۸۷۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma