سب گھٹنے ٹیک دیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

یہ آ یتیں درحقیقت دن دہریوں کا ایک اور جواب ہیں جو مبداء اورمعاد کے منکر تھے اور گزشتہ آیات میں ان کی باتوں کی طرف اشارہ بھی ہو چکا ہے ۔
چنانچہ ان آ یات میں سب سے پہلے فر مایاگیاہے : کہہ دے کہ خداہی تم کو زندہ کرتاہے ، پھروہی تمہیں مارتاہے پھر تمہیں قیامت کے دن حساب وکتاب کے لیے جمع کرے گا ،وہی دن کہ جس کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں (قُلِ اللَّہُ یُحْییکُمْ ثُمَّ یُمیتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ إِلی یَوْمِ الْقِیامَةِ لا رَیْبَ فیہِ ) ۔
وہ نہ تو خدا کومانتے تھے اور نہ ہی روز ِ جزا کو اوراس آ یت کے مضامین درحقیقت ان دونوں قسموں کے لیے استد لال ہیں ، کیونکہ پہلے تو ” حیات “ کے مسئلے پر زو ر دیاگیاہے ، بالفاظ دیگر وہ پہلی زندگی کے وجود اور بے جان چیزوں سے زندہ چیزوں کی پیدائش کاانکارنہیں کرسکتے تھے اور یہ بات بذاتِ خودا س امر کی دلیل ہے کہ کوئی علمِ کل اور عقل ِ کل موجود ہے ،کیا یہ بات ممکن ہے کہ زند گی کامحیر العقول نظام ، کائنات کے پچیدہ اسرار اور گو ناگوں صورتیں کہ جس کے بارے میں تمام دانشوروں کی عقلیں مات ،مبہود اورحران وسرگرداں ہیں،صاحب ِ قدرت اورصاحب ِ علم خداکے وجُود کے بغیر منصہ شہود پرآسکتے ہیں ؟
اسی لیے تو قرآن مجید کی مختلف آیات میں حیات کے مسئلے کوتوحید کی ایک علامت کے طورپر ذکرکیاگیاہے ۔
پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جو ذات پہلی مرتبہ زندگی عطاکرنے پر قادر ہے ،وہ دو بارہ زندگی عطاکرنے پر کیونکر قدرت نہیں رکھتی ؟
” لا رَیْبَ فیہ‘ ‘ (اس میں کسی قسم کاشک نہیں ) یہ عبارت جوقیامت کے بارے میں ہے اور اس کے ” واقع “ ہونے کی خبردے رہی ہے نہ کہ اس کے ” امکان “ کی ، ممکن ہے کہ پروردگار عالم کے ” قانون عدالت “ کی طرف اشارہ ہو ،کیونکہ یہ بات تویقینی ہے کہ اس دُنیا میں تمام حق داروں کوصحیح معنوں میں ان کا حق نہیں مِل پاتا اور نہ ہی تمام ظالموں کوان کے کیے کی صحیح معنوں میں سزاملتی ہے اور اگرقیامت کی عدالت بھی نہ ہو توپھر پروردگار عالم کی عدالت اپنامفہوم کھودے گی ۔
نیز چونکہ بہت سے لوگ ان آیات میں غور وفکر سے کام نہیںلیتے اس لیے آ یت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یَعْلَمُون) ۔
قیامت کا ایک نام کہ جس کی طرف مندرجہ بالاآ یت میں اشارہ ہواہے ” یوم الجمع “ بھی ہے ،کیونکہ تمام اوّلین و آخرین اورانسانوں کوتمام قسمیں! اس روز ایک جگہ پر جمع ہوں گی ، یہ تعبیر قرآن کی چند دیگر آیات میں بھی بیان ہوئی ہے ، جن میں سے سُورہ ٴ شوریٰ کی آ یت ۱۷ اور سورہٴ تغابن کی آ یت ۹ بھی ہے ) ۔
بعد کی آ یت معاد کے مسئلے پرایک اور دلیل ہے اوراس طرح کی گفتگو ہم قرآن کی اور بھی آ یات میں پڑھ چکے ہیں ، ارشاد فرمایاگیاہے : اور سارے آسمانوں اور زمین کی مالکیّت اورحاکمیّت خاص خداکے لیے ہے (وَ لِلَّہِ مُلْکُ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ ) ۔
جوذات تمام کائنات کی مالک اورحاکم ہے وہ یقینا مردُوں کی زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اورایساکام اس کی قدرت کے لیے قطعاً مشکل نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے دُنیا کوآخرت کی کھیتی اورمرنے کے بعد کے جہان کے لیے نفع بخش تجارت کامرکز قرار دیا ہے ،لہٰذاآ یت کے آخر میں فرمایاگیاہے : جس دن قیامت برپاہوگی ، اس دن اہل ِ باطل خسار ے میں رہیں گے (وَ یَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یَوْمَئِذٍ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُون) ۔
کیونکہ وہ زندگی کا سرمایہ کھوبیٹھے ہوں گے اوراس سے کوئی تجارت بھی نہیں کی ہوگی اورانہوں نے حسرت وغم کے سوا کوئی مال نہیں خرید ا ہوگا ۔
اس تجارتی منڈی میں حیات ، عقل وہوش اور دنیاوی نعمتیں انسان کاسر مایہ ہوتی ہیں ، باطل پرست افراد اسے یہیں پر جلد ختم ہوجانے والے مال کے بدلے میں بیچ ڈالتے ہیں جب کہ روزِ قیامت صرف قلبِ سلیم ، ایمان اورعمل صالح ہی کام آ ئیں گے ، لیکن وہ لوگ اپنے خسارے کو اپنی ہی آنکھوں سے مشاہدہ کریںگے ۔
” یَخْسَر“ ”خسران “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی ہے ” سر مائے کوصنائع کردینا“ اور مفر دات میںراغب کے بقول کبھی تواس کی نسبت خودا نسان کی طرف دی جاتی ہے اورکہا جاتاہے ” خسر فلان “ یعنی فلاں شخص نے نقصان اُٹھا یا اور کبھی تجارت کی طرف دی جاتی ہے اورکہاجاتاہے ” خسر ت تجارتہ “ یعنی اس کی تجارت نے نقصان اُٹھا یا ،اگرچہ دنیا پرست لوگ اس بغیر کومال ، مقام ، منصب اورمادی نعمتوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مادی خسارے زیادہ اہم نقصان عقل وایمان کے سر مائے اورثواب کوکھو دینا ہوتاہے ۔
” مبطل “ ” ابطال “ کے مادہ سے ہے ،جس کے لُغت میں بہت سے معانی ہیں ،مثلاً کسِی چیزکو باطل کردینا ،جُھوٹ بولنا ،ہنسی مذاق کرنا اور باطل چیز پیش کرناوغیرہ مذ کورہ تمام معانی کااطلاق مندرجہ بالا آ یت پرہوسکتاہے ۔
جن لوگوں نے حق کو باطل کردیا ، جنہوں نے باطل عقائد کاپر چار کیا ، جنہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے جُھوٹ بولا اوران کی باتوں کاتمسخر اڑایا ، غرض سب اس دن اپنا نقصان اورخسارہ اپنی آ نکھوں سے دیکھ لیں گے ۔
بعد کی آ یت قیامت کے منظر کی نہایت واضح الفاظ میں تصویرکشی کررہی ہے اورکہتی ہے : اس دن تم ہراُمّت کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوگی (وَ تَری کُلَّ اٴُمَّةٍ جاثِیَةً) ۔
بعض عظیم مفسرین کے اقوال سے استفادہ ہوتاہے کہ گزشتہ زمانے میں مدعی اور مدعیٰ علیہ قاضیوں اورحکام کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا کرتے تھے تاکہ اس طرح سے وہ دوسروں سے الگ نظر آئیں ، قیامت کے دن بھی وہ خدا کی عظیم عدالت میں اسی طر ح گھٹنوں ٹیک کر بیٹھیں گے تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جائے نیز یہ بات بھی ممکن ہے کہ یہ تعبیران کی خدا کے ہرقسم کے احکام وفرمان کی بجاآوری کے لیے مکمل آمادگی کی طرف اشارہ ہو ،کیونکہ جولوگ بالکل تیاری کی حالت میں ہوتے ہیں وہ گھٹنوں کے بُل بیٹھا کرتے ہیں ۔
یاپھر ہوسکتاہے ان کی کمز وری ، ناتوانی ، خوف دہراس کی طرح اشارہ ہوجواُنہیں لاحق ہوگا ( یہ تمام معانی آ یت کے مفہوم میں جمع ہوسکتے ہیں ) ۔
” جاثیہ “ کے کئی اور معانی بھی ہیں جن میں سے ” لوگ کاجم غفیر“ ٹولے ٹولے “ہونا بھی ہے .جواس بات کی طرف اشارہ ہوسکتے ہیں کہ اللہ کی عدالت میںلوگوں کاجم غفیر ہوگا یاہر اُمت اورہر ٹولہ علیٰحدہ ہوں گے ،لیکن پہلا معنی زیادہ مشہور اورمناسب ہے ۔
پھر قیامت کے ایک اور منظر کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے : اور ہر اُمت اپنے نامہٴ اعمال کی طرف بلائی جائے گی اوراس سے کہا جائے گا جوکُچھ تم لوگ کیاکرتے تھے آج اس کاتم کوبدلہ دیاجائے گا (کُلُّ اٴُمَّةٍ تُدْعی إِلی کِتابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ ما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔
” یہ کتاب “ نا مہٴ اعمال ہی ہے کہ جس میں انسان کی تمام نیکی ، برائی ، رفتار ،گفتار اورکردار درج ہوں گے اور قرآنی الفاظ میں ” لا یُغادِرُ صَغیرَةً وَ لا کَبیرَةً إِلاَّ اٴَحْصاہا“ یعنی کوئی بھی چھوٹا اور بڑا کام ایسانہیں ہوگاجو اس میں درج نہ ہو (کہف / ۴۹) ۔
” “ کی تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ ہرانسان کے انفرادی اعما ل نامے کے علاوہ ہراُمت اور گروہ کے اجتماعی اعمال نامے بھی ان کے سامنے پیش کیے جائیں گے ،انسان کے دوقسم کے اعمال نام ہوں گے ، اگر اس معنی پر توجہ کئی جائے توبات عجیب سی معلُوم ہوتی ہے ،لیکن اگرغو رسے کام لیا جائے دو طرح کے اعمال ناموں کاہونا ایک فطری بات ہے ( ۱) ۔

” تدعیٰ “ کی تعبیر سے معلُوم ہوتاہے کہ انہیں اپنا نامہٴ اعمال پڑ ھنے کی دعوت دی جائے گی . یہ معاملہ بعینہٖ سُورہ ٴ بنی اسرائیل کو چودھویں آ یت سے مِلتا جُلتا ہے ، جس میں کہاگیاہے :
”اقْرَاٴْ کِتابَکَ کَفی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسیباً “
” اپنے نامہٴ اعمال کو پڑھو ، آج یہ بات کافی ہے کہ تم اپنا حساب خود ہی کرو “۔
یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کہہ رہی ہے اور تمہیں تمہار ے اعمال بتارہی ہے (ہذا کِتابُنا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ ) ۔
اس دن تم جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اورا س بات کاہرگز گمان تک نہیں کرتے تھے کہ تمہار ے اعمال کہیں درج بھی ہورہے ہیں ،لیکن ” ہم نے حکم دے دیاتھا کہ جوکچھ بھی تم انجام دوگے لکھتے رہیں “ (إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ ماکُنْتُمْ تَعْمَلُون) ۔
” نستنسخ “ ” استنساخ “ کے مادہ سے ہے ،یہ دراصل ” نسخ “ سے لیاگیا ہے ،اس کامعنی کسی چیز کوکسِی دوسری چیز کے ذ ریعے زائل کرناہے ، مثلاً کہاجاتاہے :
” نسخت الشمس الظل “
” سُورج نے سایئے کوزا یل کردیا “ ۔
بعد ازاں اس کااستعمال ایک کتاب سے دیکھ کردوسری کتاب پراس طرح سے لکھنے کے لیے بھی ہواہے کہ اصل اور پہلی کتاب بھی محفوظ رہے ۔
یہاں پرایک سوال پیدا ہوتاہے اور وہ یہ کہ اگر خدانے حکم دیا ہے کہ انسان کے اعمال کو ” استنساخ “ کریں تواس سے پہلے کوئی کتاب ہونی چاہیئے ،جس سے دیکھ کراس کے نامہ ٴ اعمال لکھے جا ئیں ، اسی لیے توبعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ تمام لوگوں کے اعمال پہلے سے ہی ” لوح محفوظ “ میںلکھے جاچکے ہیں اور انسان اعمال کے محافظ فرشتے انہیں لوح محفوظ سے نقل کرکے نامہٴ اعمال میں لکھتے رہتے ہیں ۔
لیکن یہ معنی زیرِ تفسیر آ یت میں چنداں مناسب نہیں ہے ، جومعنی مناسب معلوم ہوتاہے وہ ان دونوں معانی میں سے ایک ہے ، پہلا یہ کہ یہاں پر ” استنساخ “ سے مراد خود ” لکھنا “ ہے (جیسا کہ بعض مفسرین کہتے ہیں ) اور دوسرا یہ کہ انسان کے اپنے اعمال بذات خودایک تکوینی کتاب کے مانند ہیں جِسے دیکھ کرفرشتے نسخہ ٴ کتاب تیار کرتے ہیں اوراس کی کا پی تیار کرتے ہیں ، اسی لیے قرآن کی دوسری آ یات میں اس لفظ کے بجائے ” کتاب “ کاکلمہ استعمال ہوا ہے : جیساکہ سُورہٴ ایٰس کی بارہو یں آ یت میں ہے ۔
”إِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتی وَ نَکْتُبُ ما قَدَّمُوا وَ آثارَہُم “
” ہم مُردوں کوزندہ کریں گے اورجوکُچھ وہ پہلے بھیج چکے ہیں اسے اوران کے باقی ماندہ آثار کرلکھتے رہتے ہیں “ ( ۲) ۔
اعمال کے اند راج کے بارے میں کتابوں کاذکر سُورہٴ یٰس کی آ یت ۱۲ کے تحت تفسیر نمونہ کی جلد ۱۸ میں تفصیل سے کیاگیا ہے ، جس میں انسان کے ذاتی نامہ ٴ اعمال ، امتوں کے نامہٴ اعمال اور تمام انسانوں کی جامع اور عمومی کتاب کے بارے میں بڑ ی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے ۔
بعد کی آ یت میں قیامت کی عدالت کے آخری مرحلے کا ذکر کیاگیاہے ، جب کہ ہر گروہ اپنے اعمال کانتیجہ پالے گا ،چنانچہ ارشاد ہوتاہے: لیکن جولوگ ایمان لائے اوروہ اچھے اعمال بجا لا ئے ، توان کو ان کا پر وردگار اپنی رحمت میں داخل کریگا (فَاٴَمَّا الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَیُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ فی رَحْمَتِہِ ) ۔
یہاں پر” فاء ٍ تفریعیہ “کا آ نااس بات کی دلیل ہے کہ اعمال کی حفاظت اور عدالت الہٰی کانتیجہ یہی ہے کہ موٴ منین رحمت الہٰی میں داخل ہوں گے ۔
اس آ یت کی رُو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف ایمان کافی نہیں ہے ، بلکہ عمل صالح کی بجا آوری بھی اس کے ساتھ شرط ہے ۔
” ربّھم “ (ان کاپروردگار ) کی تعبیر خداوند کریم کے خاص لطف و کرم کی غمازی کررہی ہے اور ” بہشت “ کے بجائے ” رحمت “کی تعبیر اس لُطف وکرم کے کما ل کوظاہر کررہی ہے ۔
آ یت کے آخر ی جُملے میں فر مایا گیا ہے : یہ بہت واضح کامیابی ہے (ذلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبین) یہ جملہ اس لُطف وکرم کو اوج کمال پرپہنچا رہاہے ۔
” رحمت الہٰی “ کاوسیع مفہوم ہے جودُنیا اورآخرت دونوں پر محیط ہے ،قرآنی آیات میں بہت سے معانی پراس کااطلاق ہواہے ، کبھی ہدایت پر ، کبھی دُشمن کے چنگل سے چھٹکا راحاصل کرنے پر ، کبھی بابرکت پراور کبھی نور وظلمت جیسی دُوسری نعمتوں پر اور بہت سے مقامات پر بہشت اورقیامت میںخدا کی نعمتوں پر بھی اس کااطلاق ہواہے ۔
” ذلِکَ الْفَوْزُ الْمُبین“ کاجُملہ ایک مرتبہ سُورہ ٴ انعام کی آ یت ۱۶ میں بھی آ یاہے ،لیکن وہاں پر ” فو زمبین “ (واضح کامیابی )کاان لوگوں کے بارے میں ذکرہواہے جوعذابِ الہٰی سے بچ جائیں گے . ارشا د ہوتاہے ۔
” مَنْ یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَ ذلِکَ الْفَوْزُ الْمُبین“
لیکن یہاں پر ان لوگوں کے بارے میں ہے جوبہشت اور رحمت خدواندی میں داخل ہوں گے اورحقیقت ہوں گے اورحقیقت میں یہ دونوں بڑی کامیا بیاں ہیں ، عذاب الہٰی سے نجات اور رحمت حق کے سایے میں داخلہ ۔
یہاں پر مُمکن ہے یہ سوال پیش ہو کہ جو منین عمل صالح سے عاری ہیں آ یاوہ بہشت میں ہیں جائیں گے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ضر ور جائیں گے ، لیکن قبل ازیں وہ جہنم میں اپنی بد اعمالیوں کی سزاپائیں گے اور پاک و صا ف ہو کر داخلِ جنّت ہوں گے .حساب وکتاب کے بعد وہی لوگ براہ راست رحمت ِ الہٰی میں داخلہ حاصل کرسکیں گے جو ایمان کے علاوہ عمل صالح کے سرمائے کے بھی حامل ہوں گے ۔
” فوز “ کالفظ جس طرح کہ راغب نے مفر دات میں کہاہے اس ” کامیابی “ کے معنی میں ہے جس کے ساتھ ” صحت وسلامتی “ بھی ہو یہ کلمہ قرآنی آیات میں ۱۹ مرتبہ استعمال ہواہے . کہیں پرتواس کی ” مبین “ کے لفظ کے ساتھ صفت بیان کی گئی ہے اور کہیں پر ” کبیر “ کے لفظ کے ساتھ ،لیکن اکثر آیات میں ” عظیم “ کے لفظ کے ساتھ اس کی توصیف کی گئی ہے ، اور عام طورپر بہشت ہی کے سِلسلے میں ہے ،لیکن بعض مقامات پراطاعت الہٰی اور گناہوں کی بخشش وغیرہ کے بارے میں بھی استعمال ہوا ہے ۔
بعد کی آ یت میں ایک اورٹولے کے انجام کاذکر ہے ،جوٹھیک اس گروہ کامد مقابل ہے ،ارشاد ہوتاہے : لیکن جن لوگوں نے کُفر اختیار کیاان سے کہاجائے گا : کیا تمہار ے سامنے ہماری آ یتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں ؟ تم نے تکبّر کیااورحق کے سامنے سر نہیں جھکا یااور تم لوگ توگناہگار تھے (وَ اٴَمَّا الَّذینَ کَفَرُوا اٴَ فَلَمْ تَکُنْ آیاتی تُتْلی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَ کُنْتُمْ قَوْماً مُجْرِمین) ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ آ یت صرف کفر کے متعلق گفتگو کررہی ہے . لیکن اس میں بُرے اعمال کاتذ کرہ نہیں ہے جوعذابِ الہٰی میں داخل ہونے کاسبب ہیں ، یہ سب اس لیے ہے کہ مسئلہ کفرہی بذاتِ خود عذاب کاموجب ہوتاہے ، یاپھراس لیے کہ آ یت کے ذیل میں ” مجر مین “ کی تعبیرہی اس معنی کو ذکر کرنے کے لیے کافی ہے ۔
ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر دوزخ کی سزاؤں کاذکرنہیں ہوا ،دراصل پروردگار عالم کی سرزنش کاذکر ہی بہت بڑی سزا محسُوب ہوتی ہے ،جس کے مقابلہ میں دوزخ کی اہمیّت بہت کم ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس آ یت سے یہ بات سمجھ میں آ تی ہے کہ انبیاء کی بعثت ،رسولوں کے بھیجنے اور آیات ِ الہٰی کے نزُول جِسے اصطلاح میں احکام عقل کی احکامِ شریعت کے ساتھ تاکید کا نام دیاجاتاہے ) کے بغیر خداوند رحمان کی جانب سے سزا نہیں ملے گی اور یہ اس کاانتہائی لطف و کرم ہے ۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ اس ٹولے کے لیے سب سے بڑی مصیبت ایک تو آیات ِ الہٰی کے مقابلے میں ” استکبار “ کامظاہرہ اور دوسری ” جرم و گناہ دوام “ ہے ، جو ”کُنْتُمْ قَوْماً مُجْرِمین“ کے جمے سے سمجھی جاتی ہے ۔
۱۔ بعض مفسرین کااحتمال ہے کہ مذ کورہ آ یت میں ” کتاب “ سے مراد ” آسمانی کتاب “ ہے جواس امت پر نازل ہوئی ہے ،لیکن بظاہر آیت کااپنامعنی اور بعد کی آ یت کوپیش نظر رکھتے ہُوئے ،کتاب کامعنی نامہٴ اعمال ہے اوراکثر مفسرین اسی کے قائل ہیں ۔
۲۔ امیر الم منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے :
” ان اللہ ملائکة ینزلون فی کل یوم یکتبون فیہ اعمال بنی اٰدم “۔
” خدا کی طرف سے کچھ فرشتے ہیں جو روزانہ آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور بنی آدم کے اعمال لکھتے رہتے ہیں ‘ ‘ ۔
شیخ طُو سی ۺ تفسیر ” تبیان ‘ ‘ میںمذ کورہ آیت کے ذیل میں اس روایت کونقل کرنے کے بعد فر ماتے ہیں ۔
” نستنسخ “سے مراد یہ ہے کہ کہ ہم انسانی اعمال کے محافظ فرشتوں کوحکم دیتے ہیں کہ جو اعمال ثواب یاعذاب کا موجب ہوتے ہیں وہ اس گروہ سے لے کر درج کریں اوربقیہ اعمال پر خط تنسیخ کھینچ دیں ، کیونکہ پہلا گروہ انسان کے تمام اعما ل کو لکھ دیتاہے ( ملاحظہ ہوتفسیر تبیان ، جلد ۹،ص ۲۶۰) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma