کہہ دیجیے میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ آیات بھی حسبِ سابق مشرکین کی کیفیّت بیان کررہی ہیں اور آیاتِ خداوندی کے ساتھ ان کے برتاؤ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے :جب ہمار ی واضح آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توکفاراس حق کے بارے میں جوان کے لیے آچکا ہے ،کہتے ہیں یہ توکھلم کُھلا جادُو ہے (وَ إِذا تُتْلی عَلَیْہِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ قالَ الَّذینَ کَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جاء َہُمْ ہذا سِحْرٌ مُبین) ۔
وہ ایک طرف توقرآن مجید کی دلوں میں زود رس اور عجیب گہری تاثیر کا انکار بھی نہیں کرسکتے تھے اوردوسر ی طرف قرآن مجید کی حقانیت اور عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے ،لہذا قرآن پاک کی اس تاثیر کوگمرا ہ کن تفسیر کے ساتھ کھلم کُھلا جادُو کانام دیتے تھے ، جوبذات ِ خود ان کادرپردہ ایک قسم کایہ اعتراف تھا کہ قرآن انسانی قلوب میں انتہائی زیادہ تاثیر رکھتا ہے ۔
بنابریں مندرجہ بالا آیت میں لفظ ” حق “ ” انہی قرآنی آیات “کی طرف اشارہ ہے ، اگرچہ بعض مفسرین نے اس کامعنی ” نبوّت “ یا” اسلام “ یا ” پیغمبراسلام “کے دوسر ے ” معجزا ت “ کیا ہے ،لیکن آیت کے آغاز کوپیش نظر رکھتے ہُوئے پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔
لیکن انہوں نے اسی پراکتفانہیں کیا، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ گئے اورکھلے بندوں” کہتے ہیں ، اس نے ان آیات کی خدا کی طرف جُھوٹی نسبت دی ہے “ (اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرا ہ) ۔
اس موقع پرخدا وندِ عالم اپنے پیغمبر کوحکم دیتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کامُنہ توڑ جواب دیں ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ان سے کہہ دے اگرایسا ہی ہے ، جیسے تم سمجھتے ہواورمیں نے اس قرآن کوخدا کی طرف جُھوٹ منسُوب کردیا ہے ،تولازم ہے کہ وہ مجھے رُسوا کرے اور تم لوگ خدا کے سامنے میرادفاع نہیں کر سکوگے ( قُلْ إِنِ افْتَرَیْتُہُ فَلا تَمْلِکُونَ لی مِنَ اللَّہِ شَیْئاً )(۱)
یہ بات کیسے ہوسکتی ہے کہ خداوندعالم ان ” آیات بینات “ اوراس جاودانی معجزے کوکسی جُھوٹے شخص کے ہاتھوں پرظا ہر کرے ؟یہ بات خداکی حکمت اور اس کے لُطف سے بعید ہے ۔
جیساکہ سورہٴ حاقہ کی آیا ۴۴ ا ۴۷ میں ہے :
” وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنا بَعْضَ الْاٴَقاویلِ ، اٴَخَذْنا مِنْہُ بِالْیَمینِ ،ثُمَّ لَقَطَعْنا مِنْہُ الْوَتینَ ،فَما مِنْکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ عَنْہُ حاجِزینَ “
” وہ (پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہمار ی طرف نار واباتوں کی نسبت دیتا ہے ، توہم اسے اپنی طاقت کے ذ ریعے پکڑیںگے اور اس کے دِل کی رگ کوکاٹ ڈالیں گے ، اور تم میںسے ایک شخص بھی ہمیں اس کام سے نہیں روسکتا اور نہ ہی اس کا دفاع کرسکتا ہے ۔
اس لیے یہ بات کیسے ممکن ہے کہ میں تمہار ی خاطر اس خطرناک کام میں ہاتھ ڈالوں اور تم کیونکر باور کرسکتے ہو کہ میں اس قسم کا جُھوٹ بولنے لگوں اور خدا بھی مجھے ایسے ہی چھوڑ دے ، بلکہ بڑے بڑ ے معجزا ت میرے اختیار میں دے دے ؟
پھران کی تنبیہ کے طورپر فرمایاگیا ہے : لیکن خدا ان کاموں کو دوسرے لوگوں سے بہتر جانتا ہے جن میں تم داخل ہوتے ہو اور وقت آنے پر تمہیںسخت سے سخت سزادے گا ( ہُوَ اٴَعْلَمُ بِما تُفیضُونَ فیہ)( ۲) ۔
جی ہاں ! وہ ان سب تہمتوں کو جانتے ہے جو تم مُجھ پرلگاتے ہو ، اس کے بھیجے ہوئے کہ مقابلے میں کھڑ ے ہوچکے ہو اِسے بھی جانتا ہے اور زہر یلے پر و پیگنڈ ے کے ذ ریعے لوگوں کورا ہ ِ حق سے منحر ف کررہے ہو ، اس سے بھی باخبرہے ۔
بعد کے جُملے میں اس بات کومزید زور دے کر بیان کیاجارہا ہے ،لیکن کچھ اور لہجے میں یہی بات کا فی ہے کہ خدا میرے اور تمہار ے درمیان گواہ ہے (کَفی بِہِ شَہیداً بَیْنی وَ بَیْنَکُمْ ) ۔
وہ رسالت کی دعوت وتبلیغ کے سِلسلے میں میرے صدق وصفا ، میر ی سعی وکوشش اومیر ی تک و دو کوبھی جانتا ہے اور تمہار ے کذب و افتراء ، تمہاری ریشہ دواینوںوسیسہ کاریوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور یہی چیز میرے اور تمہار ے لیے کافی ہے ۔
البتہ انہیں تو بہ اور را ہ راست پر آجانے کی رہنمائی کے طورپر فرمایاگیا ہے : ” وہ غفور بھی ہے اورحیم بھی “ بڑابخشنے والا اورمہر بان ہے (وَ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ) ۔
وہ تو بہ کرنے والوں کوبخش دینا ہے اور انہیں اپنی رحمت واسعہ میں شامل فرمالیتا ہے ۔
اگلی آیت میں فر مایاگیا ہے : کہہ دے کہ میں کوئی نیارسُول نہیںہوں جودوسر ے رسولوں سے مختلف ہو (قُلْ ما کُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ ) ۔
اور کیا میں نہیںجانتا کہ خدا میر ے ساتھ کیاکر ے گا اور تمہار ے ساتھ کیا کرے گا (وَ ما اٴَدْری ما یُفْعَلُ بی وَ لا بِکُمْ ) ۔
میں توصرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں ، جومجھ پر وحی کی جاتی ہے (إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ ما یُوحی إِلَیَّ ) ۔
” میں توبس اعلانیہ طورپر ڈرانے والا ہوں (وَ ما اٴَنَا إِلاَّ نَذیرٌ مُبینٌ) ۔
یہ مختصر لیکن جامع اورمعنی خیز جملے مشرکین کے بہت سے اعتراضات کے جواب میں ، کبھی تووہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پرتعجّب کرتے تھے کہ ایک بشر کیونکر خداسے تعلق پیدا کر سکتا ہے ؟
کبھی کہتے کہ کھاناکیوں کھاتا ہے اور بازار میں کیوں چلتا پھرتا ہے ؟
کبھی وہ عجیب وغریب معجزات کاتقاضا کرتے اور ہر ایک کی اپنی اپنی تمنّا ہوتی ۔
کبھی انہیں یہ توقع ہوتی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے غیب کادر وازہ کھلا ہوا ہے اورانہیں آئندہ کے تمام واقعات سے مطلع فرمادیں گے ۔
اور کبھی تووہ توحید کی دعوت اور معبُود کے وحدہ ٴ لاشریک ہونے پر بھی تعجّب کرتے تھے ۔
یہ آیت ایک اجمالی جواب ہے ا ن تمام باتوں اورحیلہ سازیوں کا۔
رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)فرماتے ہیں کہ میں کوئی نیاتازہ پیغمبر نہیں ہوں کہ جس نے توحید کی دعوت کی ہے ، مجھ سے پہلے کئی انبیاء ہو گزر ے ہیں جوسب کے سب نوعِ بشر میں سے تھے ، وہ لباس بھی پہنتے تھے اورکھانا بھی کھاتے تھے ، ان میں سے کوئی بھی مطلق غیب جاننے کا دعوے دار نہیں تھا ، بلکہ ہرایک یہی کہتا ہے کہ ہم غیب کے بارے میںوہی کچھ جانتے ہیں جوکچھ خدا نے ہمیں بتایا ہے ۔
ان میں سے کوئی بھی لوگوں کی قدم قدم پر معجزوں کی فرمائش اورنفسانی آرزو کے سامنے نہیں جھکا۔
یہ اس لیے ہے کہ سب لوگوں کو پتہ چل جائے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی خدکے بند وں میں سے ایک بندہ ہیں ، ان کی قدرت اوران کاعلم بھی خدا کے علم وقدرت کے مقابلے میں محدُود ہے ،قدرت مطلقہ او ر علمِ مطلق صرف اورصرف ذات ِ کر دگار کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ ایسے حقائق ہیںجن میں سے لوگوں کوباخبر رہنا چا ہیئے اوراپنے ناروا اعتراضات کاسِلسلہ بند کردینا چا ہیئے ۔
یہ سب جوابات اس گفتگو کے بعد ذکر ہوئے ہیں جوگزشتہ آیات میں بیان ہوچکی ہے کہ کبھی تورسُول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جا دوگری کی تہمت سے متہم کرتے اور کبھیان پرافتراء اور کذب کی تہمت لگاتے ، ان سب ناجائز تہمتوں کا اصل سبب وہ تو ہمات تھے جن کا اس آیت میں جواب دیاگیا ہے ۔
یہاں سے یہ بات بھیواضح ہوتی ہے کہ اس آیت کامفہوم ان دوسری آیات کے سامنافی نہیں ہے ، جن میں یہ بتا یاگیا ہے ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)غیب سے باخبرہیں ، جیساکہ سورہٴ فتح میں مکہ کی فتح اور مسجد الحرام میں داخلے کے بارے میں ہے (ملاحظہ ہون سُورہٴ فتح آیت ۲۷ )یاجیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میںسُورہٴ آل عمران آیت ۴۹ میں ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ :
”َ اٴُنَبِّئُکُمْ بِما تَاٴْکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی بُیُوتِکُم “
” میں تمہیں ان چیز وں سے باخبر کرتا ہوں جوتم کھاتے ہویاجمع کرتے ہو “۔
یہ اوراس قسم کی دوسری آیات کیونکہ جس آیت کی ہم تفسیرکر ہے ہیںوہ ” مطلق علم ِ غیب “کی نفی کررہی ہے نہ کہ مطلقاً ” عِلم غیب “کی با لفاظ دیگر یہ آیتاستقلال اورذاتی علمِ غیب کی نفی کررہی ہے ،لیکن وہ آیات اس علمِ غیب کی با ت کررہی ہیںجوخدا کی طرف سے عطا کیاگیا ہے ۔
ہمار ی اس گفتار پرشا ہد سُورہٴ جن کی ۲۶ ویں اور ۲۷ ویں آیات ہیں ، جن میں کہا گیا ہے :
”عالِمُ الْغَیْبِ فَلا یُظْہِرُ عَلی غَیْبِہِ اٴَحَداً ، إِلاَّ مَنِ ارْتَضی مِنْ رَسُول“
” خدا ہی عالم ِغیب اور کسی بھی شخص کواپنے مخفی عِلم سے آگاہ نہیں کرتا، مگرجن رسُولوں کے لیے وہ چا ہے “ ۔
بعض مفسرین نے زیرتفسیر آیت کی شانِ نزُو ل یوں بیان کی ہے ۔
” جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم) کے صحابہ پر مکّہ میں مشکلات بہت بڑھ گئیں توآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے خواب میں دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کررہے ہیں جس میں نخلستان ہیں ، درختوں اورپانی کی فرا وانی ہے ،چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے یہ خواب اپنے دوستوں سے بیان کیاتووہ سب بہت خوش ہُوئے اورسمجھ گئے کہ بہت جلد مشر کین کے آزار اوراذیت سے چھٹکا را مِلنے والا ہے ․ ایک عرصے تک صبرکیے رکھّا ،لیکن ایسی کوئی صُورت نظر نہ آ ئی ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے عرض کرنے لگے یایارسُول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جوفر مایاتھا اس کاتوکوئی نشان دکھائی نہیں دیتا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جس سرزمین کاخواب دیکھاتھا ، ہم کب وہاں ہجرت کر جائیں گے ؟آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خاموش ہوگئے اور اس ہنگام میں مندرجہ با لا آیت نازل ہو ئی کہ ” وَ ما اٴَدْری ما یُفْعَلُ بی وَ لا بِکُمْ“(میں نہیں جانتا کہ خدامیرے ساتھ کیاکرے گا اور تمہار ے ساتھ کیا کرے گا) ۔
لیکن اس آیت کے لیے یہ شانِ نُزول بعید معلُو م ہوتی ہے ،کیونکہ اس آیت میں مخاطب پیغمبر کے د شمن ہیں نہ کہ دوست ،لیکن یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ تطبیق کے طورپر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فر مایا ہو ، یعنی جب دوستوں کی طرف سے مذکُورہ سوال کیاگیا ہو توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اسی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں جواب دیا ہو ۔
اس سلسلے کی آخری آیت میں گذ شتہ آیات میں مذ کورہ گفتگو کی تکمیل کے طورپر فرمایاگیا ہے :
یہ بھی کہہ دے کہ مجھے یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن خداکی طرف سے ہو اور تم اس کا انکار کربیٹھو ، حالانکہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس کی گواہی بھی دے دے اورایمان بھی لے آئے اور تم تکبّر کرتے ہُوئے اس کے آگے نہ جُھکے ، توتم سے بڑھ کر اور کون شخص گمرا ہ ہوگا ؟، یقینی بات ہے کہ خدا ظا لم قوم کو ہدایت نہیں کرتا(قُلْ اٴَ رَاٴَیْتُمْ إِنْ کانَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَ کَفَرْتُمْ بِہِ وَ شَہِدَ شا ہدٌ مِنْ بَنی إِسْرائیلَ عَلی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَ اسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّہَ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمینَ)(۳) ۔
اس بارے میں تفسیر کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ گواہ کون تھا ، جس نے قرآن کی حقانیت اورصداقت پر گواہی دی ؟
بعض مفسر ین کہتے ہیں کہ اس سے مراد جناب موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے زمانے میںپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کی خبردی اوراس علامات بتائیں ۔
لیکن یہ احتمال ” فاٰ من واستکبر تم “ کے جملے سے ہم آہنگ ہے کیونکہ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے ،ک نبی اسرائیل سے یہ شا ہد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان لے آیا جبکہ مشرکین نے تکبر کامظا ہرہ کیا، کیونکہ جُملے کے ظا ہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گواہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھا اور آنحضرت پرایمان بھی لاچکا تھا، جب کہ دوسر ے لوگ تکبر کی را ہوں پرگامزن رہے ۔
کئی اور مفسر کہتے ہیں کہ یہ شخص اہل کتاب کے عُلمامیں سے تھا اور مکّہ میں رہتاتھا اگرچہ یہود اور نصا ریٰ کے مذہب کے پیرو کار مکہ میں بہت کم تھے ، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہاں ان میں سے کوئی ایک بھی نہ رہتا ہو لیکن پھر بھی یہ معلوم نہیں کہ بنی اسرائیل کایہ عالم کون تھا اوراس کا کیانام تھا ؟
اس بات کے پیش نظر کے اہل کتاب کاکوئی مشہور ومعروف عالم ظہور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی تاریخ نے اس کا نام ذکرکیا ہے ،یہ تفسیر بھی مناسب معلوم نہیں ہوتی ( ۴) ۔
البتہ یہ تفسیر اور گذشتہ تفسیر اس بات کی مظہر ضرور ہیں کہ سُورہٴ احقاف مکّی ہے ۔
تیسری تفسیرجو جو اکثر مفسرین کے لیے بھی قابلِ قبول ہے وہ یہ ہے کہ یہ گواہ یہود کامشہور عالم عبداللہ بن سلا م تھا جومدینہ میں اسلام لایا اور مسلمین کی صف میں شامل ہوگیا ۔
ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مدینہ منوّرہ میں یہودیوں کی کسِی عید کے موقع پر ان کے کنیسہ ( عباد ت گاہ )میں کئے ، یہودی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہاں آنے پر خوش نہیں تھے ،پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :
” اے یہود ! تم اپنے میں سے بارہ شخص میرے سامنے لاؤ تاکہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوّت کی گواہی دیں ، اس طرح سے اللہ تعالیٰ تمام دُنیا کے یہودیوں سے اپنا غصب اُٹھا لے گا “۔
وہ سب خاموش رہے اور کسی نے بھی جواب نہیں دیا ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس جُملے کو تین بار دہر ایا لیکن تینوں مرتبہ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا :
” تم نے بیان حق سے انکار کیا ہے ،لیکن خداکی قسم ” حاشر “ اور ” عاقب “ ( تورات میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے القاب) میں ہوں ، خوا ہ تم ایمان لے آ ؤ یا یامیری تکذیب کرو “۔
یہ کہہ کر آنحضرت پلٹنے لگے ،لیکن ابھی ایک قدم با ہر نہیں نکالا تھا کہ ایک شخص پیچھے سے آیا اور آواز دی ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ٹھر جاؤ ! “ پیغمبر ِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رُک گئے ، اس نے یہود یوں کی طرف مُنہ کرکے کہا ” مجھے کیسا آدمی پاتے ہو ؟ “
انہوں نے کیا: ” خدا کی قسم ہمارے درمیان تم سے زیاد عالم کوئی اور شخص نہیں ہے اور تمہار ے باپ داد سے بڑھ کر ہمار ی آسمانی کتابوں کاکوئی اور عالم نہیں ہے ۔
اس نے کہا میں خدا کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ یہ وہی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جس کا ذکر توارت اور انجیل میں آچکا ہے ۔
جب یہود یوں نے یہ دیکھا تو کہا : ” تم جھوٹ کہتے ہو “ یہ کہہ کراسے خُوب جی بھر کے گالیاں دیں ۔
رسُول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :
” تم سب جُھوٹ بولتے ہو، اقرار کے بعد تمہارا انکار قابل ِ قبول نہیں ہے “ ۔
یہ شخص عبد اللہ بن سلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا اوراسی موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی (قُلْ اٴَ رَاٴَیْتُمْ إِنْ کانَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَ کَفَرْتُمْ بِہِ وَ شَہِدَ شا ہدٌ مِنْ بَنی إِسْرائیلَ عَلی مِثْلِہِ ․․․) ۔
اس تفسیر کے مطابق یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، ہرچند کہ یہ سُورت مکی ہے ، اور یہ بات اسی آیت میں منحصر نہیں ہے ، قرآن مجید کی دوسری سُورتوں میں بھی بعض مقاما پر پر ہم مکّی آیتوں کومدنی سُورتوں میں یامکی سُورتوں میں مد نی آیتوں کو مد ہُو ا پاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے کسِی آیت کوجو سُورت کے مفہوم سے ہم آہنگ ہوتی تھی اس کی تاریخی نزُول سے قطعِ نظراسے سُورت میں ملادیا جاتاتھا ۔
یہ تفسیر کئی لحا ظ سے مناسب ترمعلوم ہوتی ہے ۔
۱۔ ” ان افتریتہ “ کاجُملہ ، جملہ ء شرطیہ ہے کہ جس کی جزاء محذوف ہے اور تقدیری طورپر یوں ہے ۔
” ان افریتہ “ اخذ نی و عا جلنی بالعقو بة ۔
۲۔” ما تُفیضُونَ فیہ“ میں ” ما“ کا کلمہ ممکن ہے کہ موصولہ ہواور نارواتہمتوں کے معنی میں ہوجوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر لگائی جاتی تھیں ، اس لحاظ سے ” فیہ “ کی ضمیراسی کی طرف لوٹ رہی ہے اوراگر یہ ” ما “ مصدریہ ہوتو ” فیہ “ کی ضمیر یا ” قراٰن “ کی طرف لوٹے گی یاپھر ” حق “ کی طرف ،توایسی صورت میں ” تفیضُون “ کا معنی ” کسی کام میں فساد ڈالنے کی غرض سے داخل ہونا “ ہوگا ۔
۳۔جُملہ شرطیہ ” ان کان من عنداللہ“کی جزا محذوف ہے ، جو تقدیر ی طور پر ” من اضلّ منکم “ ہے ۔
۴۔” شاھد “ کویہاں نکرہ اس لیے لایاگیا ہے تاکہ عظمت کا اظہار ہو ، اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ وہ شا ہد مشہور ومعروف اوربزرگ شخصیت تھی ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma