مُوٴمن حق کی اور کافر باطِل کی اتباع کرتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ تین آیات درحقیقت مقدمہ ہیں ایک ا ہم جنگی حُکم کا جوچوتھی آیت میں دیاگیا ہے ․پہلی آیت میں کفّار کا اور دوسری میں مومنین کاحال بیان کرنے کے بعدتیسری آیت میں ان کا آپس میں تقابل کیاگیا ہے تاکہ جب دونوں خطُوط اورراستے واضح ہوجائیں توظالم اور بے رحم دشمن کے ساتھ عقیدے پر مبنی جنگ کے لیے پوری آ مادگی حاصل ہوجائے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیا ہے: جن لوگوں نے کُفر اختیار کیا اور لوگوں کوخدا کے راستے سے روکا اللہ ان کے اعمال اکارت کردیات ہے (الَّذینَ کَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبیلِ اللَّہِ اٴَضَلَّ اٴَعْمالَہُم) ۔
یہ کفّار کے سرغنوں اور مکّہ کہ مشر کین کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اسلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی تھی وہ خود ہی کافر نہیں تھے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مختلف حیلوں اور بہانوںسے خدا کے راستے سے روکتے تھے ۔
اگرچہ بعض مفسرین مثلاً کشاف میں زمخشری کے مانند یہاںپر” صد “ کی ایمان سے ” رو گرانی“ کے معنی کی تفسیر کی گئی ہے بعد کی آیات کے مقابل میں جن میں ایمان کی بات کی گئی ہے ،لیکن اس کلمے کے قرآن مجید میں استعمال کے مواقع کے پیشِ نظراس کے اصلی معنی کو ہی لیاجائے گاجو ” روکنے اور منع کرنے “ کے ہیں ۔
” اٴَضَلَّ اٴَعْمالَہُم“ سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعمال اکارت کرد ے گا ،کیونکہ گم کرنا ،کنایہ ہے کسِی چیز کے بے سرپرست ہونے کے لیے کہ جس کے نتیجے میں وہ چیز ختم ہو جاتی ہے۔
بہرحال بعض مفسرین نے اس جُملے کوان لوگوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے جنہوں نے جنگ بد ر کے دن اونٹ نحر کرکے لوگوں میں تقسیم کیے ، ابوجہل نے دس اونٹ ،صفوان نے دس اونٹ ، اور سہل بن عمرو نے بھی دس اونٹ اپنے فو جیوں کے لیے نحر کیے تھے (۱)لیکن چونکہ یہ کام شیطانی مقاصد اور شرک کے لیے تھے لہذاسب ضبط ہوگئے ۔
لیکن بظا ہریہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اسی معنی میں محدُود نہیںہے ، بلکہ انہوں نے محتاجوں یامہمانوں کی امداداکارت جائیں گے ۔
علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کومٹانے اور مسلمانوں کونیست ونابودکرنے کے لیے جو کام بھی کیے ہیںخداتعالیٰ نے ان سب کوبھی فنا اور نا مراد بنا دیا اور انہیں مقصد تک پہنچنے سے روک دیا۔
بعد کی آیت مومنینکی کیفیّتب بیان کررہی ہے جوکفار کے مدّ مقابل ہیں اوران کی کیفیّت گزشتہ ٴ آیت میں مذ کور ہوچکی ہے ، ارشاد ہوتا ہے :اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اورانہوں نے اچھے اچھے کام کیے اور جوکچھ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرنازل ہوا اورسب برحق ہے اورپر وردگار کی جانب سے ہے ، اس پر بھی ایمان لے آئے توخدا ان کے گنا ہوں کوبھی بخش دے گا اور ان کی دُنیا اور آخرت میں حالت سنوار دے گا(وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ آمَنُوا بِما نُزِّلَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّئاتِہِمْ وَ اٴَصْلَحَ بالَہُمْ)(۲)
مطلق ایمان کاذکر کرنے کے بعد جوکُچھ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرنازل ہوئی اُس پرایمان کاتذکرہ رسُولِ اعظم کے تمام اُمور پرایمان لانے کاتاکیدی بیان ہے گو یایہ عام کے بعدخاص کاذکرہے اوراس حقیقت کوواضح کررہا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرنازل کردہ چیزوںپر ایمان نہ لایا جائے اس وقت تک خداپرایمان کی تکمیل ناممکن ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ شاید یہ پہلا جُملہ خداپرایمان کی طر ف اشارہ ہوجواعتقاد ی پہلو کاحامل ہے اور یہ جُملہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اوراسلام کے پیش کردہ نظام اوراحکامات پرایمان کی طرف اشارہ ہے اور یہ جو عملی پہلوکاحامل ہے ۔
بالفاظ دیگرصرف خداپرایمان لاناکافی نہیںہے ” ما انز علیہ “پرایمان بھی ضروری ہے ، قرآن پرایمان، جہادپر ایمان،نماز روزے پرایمان اوران اخلاقی اقدار پر ایمان جوآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرنازل ہوئیں ۔
ایسا ایمان جس سے اعمال صالحہ کی بجا آوری کے لیے تحر ک پیدا ہو۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس جُملے کے بعد فرمایاگیا ہے :
”وَ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِم “
حالانکہ وہ برحق اورخدا کی طرف سے ہے ۔
یعنی ان کا ایمان نہ توکسی حساب وکتاب کے بغیرہوتا ہے اور نہ ہی بغیر کسی دلیل واستدلال کے ہے ، کیونکہ انہوں نے حق کو پہچانا ہے ، لہذا اس پرایمان لے آ ئے ہیں ۔
اور” من ربّھم “(ان کے پروردگارکی طرف سے )اس حقیقت کی تاکید ہے کہ حق ہمیشہ پروردگار کی طرف سے ہوتا ہے ، اسی سے معرض ِوجود میں آ تا ہے اوراسی کی طرف پلٹ جاتا ہے ۔
یہ بات بھی شامل شایان توجہ ہے کہ جس طرح را ہ حق سے روکنے والے کفّارکے لیے دوسزا ئیں بیان ہوئی ہیں اسی طرح صالح العمل موٴ منین کے لیے بھی جزائیں بیان ہوئی ہیں، ان میںسے ایک تولغزشوں کی معانی اور خطا ؤں کی بخشش ہے جن کے ارتکاب سے کوئی بھی غیر معصوم محفوظ نہیں ہے اور دوسرے حالات کی اصلاح او ر امورکاسنوا ر نا جِسے” اصلاح بال“ کہاگیا ہے ۔
” بال “ کے مختلف معانی مذکور ہُوئے ہیں مثلاً حال ، کام اوردِل ،لیکن مفردات میںرغب کے بقول ” بردست ا ہمیّت کے حامل حالات “کے معنی میں ہے ،بنابریں “ اصلاحِ بال “کامعنیٰ تمام زندگی کے مکمل امور کوسنوار نا او سد ھارنا ہے جوفطری طورپردنیا اور آخر ت کی کا میابی پرمشتمل ہوتے ہیں ․کفار کے انجام کے بالکل برعکس کہ ” اٴَضَلَّ اٴَعْمالَہُمْ“ کے پیش نظر جن کی تمام تگ ودوکسی نتیجہ پرنہیں پہنچتی اور سوائے شکست کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گنا ہوں کی معافی ان کے ایمان کانتیجہ ہوتی ہے اور ” اصلاحِ بال “ ان کے اعمال ِ صالح کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
موٴ منین کوایک توذہنی سکون حاصل ہوتا ہے اور دوسرے انہیں عملی پروگراموں میں کامیابی حاصل ہوتی ہے جووسیع پیمانے پراصلاح اُمور کی صورت ہوتی ہے اوراس سے بڑھ کراور کیا نعمت ہوسکتی ہے کہ انسان کو روحانی سکون اور قلبی اطمینان کے حصُول کے علاوہ مفید اور تعمیری پروگراموںپرعمل پیرا ہونانصیب ہو۔
اس سِلسلے کی آکری آیت میں مومنین کی کامیابی اور کفا کی شکست کا اصل نکتہ ایک مختصر لیکن واضح تقابل کی صورت میں بیان کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے : یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور موٴ منوں نے اس حق کی جوان کے پروردگارکی طرف سے تھا (ذلِکَ بِاٴَنَّ الَّذینَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الْباطِلَ وَ اٴَنَّ الَّذینَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّہِمْ) ۔
تمام مطالب کی جان یہی ایک نکتہ ہے جس سے ” ایمان “ اور” کفر“ کے دوخطوط بالتر تیب ” حق “ اور ” باطل “ سے حاصل ہوتے ہیں ۔” حق “ یعنی عینی حقیقیتں جن میں ہر فہرست پروردگار عالم کی ذات پاک ہے اوراس کے بعد وہ حقائق ہیں جن کا انسانی زندگی سے تعلق ہوتا ہے اوروہ قوانین ہیں جوبندے اورخدا کے درمیان نیز خود بندوں کے درمیان با ہمی رابطے کاکام دیتے ہیں ۔
” باطل “ یعنی اٹکل پچو خیالات ،نیز نگیاں ، خر افاتی افسانے اور بے ہو دہ اور بے مقصد کام ،غرض عالمِ ہستی پرحکم فر ما ہر قسم کے گمرا ہ کن قوانین ۔
جی ہاں ! مومنین حق کی اس معنی کے ساتھ جوبیان ہُوا ہے پیروی کرتے ہیں اور کفار ، باطل کی ․یہی وجہ ہے کہ مومنین کوکامیابی اور کفار کو ناکامی اور شکست کامنہ دیکھنا پڑتا ہے۔
قرآن کہتا ہے :
” وَ ما خَلَقْنَا السَّماء َ وَ الْاٴَرْضَ وَ ما بَیْنَہُما باطِلا“
” ہم نے تما م آسمان وزمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے اسے باطل پیدانہیں کیا“ ( ص / ۲۷) ۔
بعض مفسرین نے ” باطل “ کو” شیطان “ کے اور بعض نے ” بیہودہ او ر بے مقصد “ کے معانی سے تفسیرکیا ہے ،لیکن جیساکہ ہم ابھی بتاچکے ہیں ” باطل “ وسیع معنی میں استعمال ہُوا ہے جواِن معنی اوردوسر ے معانی پر بھی محیط ہے۔
آیت کے آخر میں فرمایاگیا ہے : خدالوگوں کے لیےان کی زندگی یوں بیان فرماتا ہے (کَذلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ لِلنَّاسِ اٴَمْثالَہُمْ) ۔
یعنی جس طرح اللہ نے مومنین اور کفار کی زندگی کے خطُوط ، ان کے عقائد اورعملی پرو گرام اور نتائج کوان آیات میں بیان فرمایا ہے اسی طر ح وہ ان کی زندگی کے انجام اور عاقبت الامر کوبھی واضح فرماتا ہے ۔
راغب اپنی کتاب مفردات میں کہتے ہیں کہ ”مثل “ کسِی چیز کے بارے میں ایسی گفتگو کوکہتے ہیں جیسی اس مطلب کے مشابہ کے بارے میں کی گئی ہے تاکہ یہ ایک دوسر ے کوواضح کریں ۔
راغب کی دوسری گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی تو ” مشابہت“ کے معنی میں اور کبھی ” توصیف“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
زیرتفسیرآیت میں بظا ہردوسرامعنی مراد ہے ،یعنی خدا اس طرح لوگوں کے حالات بیان کرتا ہے جیساکہ سُور ہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پندرھویں آیت میں ہے :
” مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ“
” بہشت والوں کی صفت کہ جس بہشت کا ان سے وعدہ کیاگیاتھا کچھ یُوں ہے ․․․“ ۔
بہرحال اس آیت سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ہم حق کے جتنا نزدیک ہوں گے اسی قدر ایمان کے نزدیک ہوں گے اورہمارا ایمان وعمل جس قدر باطل کے نزدیک ہوگا اسی قدر ہم ایمان سے دُور ہوں گے ،کیوں کہ ایمان وکُفر کے خطوط ہی توحق و باطل کے خطُوط ہوتے ہیں ۔
۱۔ تفسیر روح المعانی جلد۲۶ ،صفحہ ۳۳۔
۲۔کچھ مفسرین نے ” وھو الحق من ربّھم “ کے جُملے کوجُملہ معترضہ سمجھا ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma