3۔ جنگی قیدیوں کے احکام :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ میدانِ جنگ میں دشمن کی مکمل شکست سے پہلے مسلمانوں کوکسی بھی صُورت میں جنگی قیدی بنانے کا اقدام نہیں کرناچا ہیئے ، کیونکہ اس سے ہرحالت میں سنگین خطرات کا احتمال ہے لیکن زیرتفسیر آیات کے لب ولہجہ سے ظا ہر ہوتا ہے کہ دشمن پر کامیابی کے بعد انہیں قتل کرنے کے بجائے قیدی بنا لیاجائے اسی لیے قرآن فرماتا ہے : جب تم دشمن کاسامنا کرو تواس پرکا ری ضربیں لگاؤ ۔
پھرفر مایا گیا ہے:یہ کا ری ضر بیں ان پر برابر جاری رکھو ، یہاں تک کہ دشمن کاستیاناس کردو اور انہیں گھنٹے ٹیکنے پرمجبُور کر دو ، ایسے میں قید یوں کی گرفتار ی کے لیے اقدام کرو اورانہیں خوب باندھ لو (فَإِذا لَقیتُمُ الَّذینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقابِ حَتَّی إِذا اٴَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثاق) ۔
لہذا دشمن پر قابو پانے کے بعد انہیں قتل کرنے کے بجائے اسیر بنالیاجائے اور یہ ایسا کام ہے جس سے گریز ناممکن ہے ،کیونکہ اگردشمن کوچھوڑ دیاجائے توممکن ہے کہ وہ دو بارہ سنبھل کرپھرحملہ کردے ۔
لیکن قید ی بنانے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں اوراسیر تمام جرائم کے باوجُود مسلمانوں کے ہاتھ میں خداکی ایک امانت کی صُورت میں آ جاتا ہے جس کے بہت سے حقوق کی حفاظت مسلمانوں پرفرض ہوجاتی ہے ۔
قرآن مجید نے ایسے لوگوں کی زبردست تعریف کی ہے ، جنہوں نے ایثار سے کام لیا اور اپنا کھانا اسیر کودے دیا ، ارشاد ہوتا ہے :
” وَ یُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلی حُبِّہِ مِسْکیناً وَ یَتیماً وَ اٴَسیراً“
” خداکے نیک بندے کھا نے کی خوا ہش رکھنے کے باوجُود اپناکھا نامسکین ، یتیم اوراسیر کو دے دیتے ہیں ‘ ‘ (دھر ، ۸) ۔
مشہور روایت کے مطابق یہ آیت حضرت علی ، جناب فاطمہ زہرا اور حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین علیہم السلام کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جنہوں نے اپنے افطار کاکھانا مسکین ، یتیم اوراسیر کودے دیا۔
حتّٰی کہ بعض استثنا ئی حالات میں مثلاً ان کے خطرناک ہونے یاخاص قسم کے جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے جن قیدیوں کوسزا ئے موت کاحکم جاتا ہے ، ان کے بارے میں بھی حکم یہی ہے کہ سزا پرعمل درآمد سے پہلے تک ان کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے ، جیساکہ حضرت علی علیہ السلام کافرمان ہے ۔
” اطعام ا لاسیر والا حسان الیہ حق واجب وان قتلتہ من الغد “۔
” اسیر کوکھانا کھلانا اوراس سے حسنِ سلوک کرنا ایک واجب حق ہے ،ہرچند کہ یہ طے پاچکا ہو کہ کل اسے سزا ئے موت دی جائے گی ( 1) ۔
اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث موجُود ہیں( 2) ۔
ایک حدیث میں حضرت امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :
” اذا اخذت اسیراً فعجز عن المشی ولیس معک محمل فارسلہ ، ولا تفتلہ ، فانّک لاتد ری ماحکم الامام فیہ “۔
” جب تم کسی کواسیر بنالو اوراپنے ساتھ لے آ ؤ ، لیکن وہ چلنے سے عاجز ہو اور تمہار ے پاس اس کے لیے سواری بھی نہ ہوتو اسے چھوڑ دو اور قتل نہ کرو ،کیونکہ تم یہ نہین جانتے کہ جب اسے امام کے پاس لے جاؤ تووہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کرے ( 3) ۔
حتّٰی کہ تاریخ میں رہبر انِ اسلام کے حالات میں ملتا ہے کہ جو کھا ناوہ خود کھاتے تھے ، اسیروں کو بھی وہی کھلاتے تھے ۔
لیکن اسیروں کے بار ے میں حکم جیسا کہ ہم آیات کی تفسیر میں بتاچکے ہیں، جنگ کے خاتمے کے بعد ان تینوں چیزوں میں سے ایک ہے : یاتو انہیں غیر مشروط طور پر چھوڑ دیاجائے یافدیہ ( تاوان ) لے کر انہیں آزاد کردیاجائے یاپھر انہیں غلام بنالیا جائے ، البتہ مذکورہ تینوں صورتوں میںسے کسی ایک کا انتخاب امام مسلمین اور پیشوا ئے اسلام کی مرضی پر موقوف ہے اور وہ بھی اُسراء کے حالات ،داخلی اورخارجی لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کوپیش ِ نظر رکھتے ہوئے جوبات بھی اسے زیادہ مناسب نظر آ ئے گی اختیار کرے گا اوراس پر عمل در آمد کاحکم د ے گا ۔
بنابریں نہ توتاوان لیناضر وری ہے اورنہ ہی غلام بنانا بلکہ یہ سب کچھ امام المسلمین کی صوا بدید پرمنحصر ہے کہ اگر مصلحت اس بات میں ہے کہ تاوان لے کر چھوڑ دیاجائے تووہ ایسا ہی کرے گا اوراگر مصلحت غلام بنانے میں ہے توغلام بنائے گا اوراگرمصلحت اس بات میں ہوکہ غیرمشروط پر چھوڑ دے توایسا ہی کرے گا ۔
فدیہ اور تا وان کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۷ ،سُورہ انفال کی ۷۰ ویں آیت کی تفسیر میں تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں ۔
1۔ وسا ئل الشیعہ، جلد ۱۱،صفحہ ۶۹۔
2۔ فروع کافی جلد۵، صفحہ باب الرفق بالا سیر واطعامہ ۔
3 ۔ فروع کافی جلد۵، صفحہ باب الرفق بالا سیر واطعامہ ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma