موسٰی پھر آغوش مادر میں ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16


ان آیات میں اس داستان کاایک اور حصّہ بیان کیاگیا ہے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) کی ماں نے اس طرح سے جیساکہ ہم نے پیشتر بیا ن کیا ہے ،اپنے فرزند کو دریائے نیل کی لہروں کے سبر د کردیا مگر اس عمل کے بعد اس کے دل میں جذبات کاایک شدید طوفان اٹھنے لگا . نواز ئیدہ بیٹے کی یاد ، جس کے سوا اس کے دل میں کچھ نہ تھا اس کے احساسات رپ غالب آگئی تھی ۔
قریب تھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اوراپنا راز فاش کردے ۔
قریب تھا کہ چیخ مارے اور اپنے بیٹے کی جدائی میں نالے کرے ۔
لیکن ... عنایت خداوند ی اس کے شامل حال رہی جیساکہ قرآن میں مذکور ہے : موسٰی کی ماں کادل اپنے فرزند کی یاد کے سواہر چیز سے خالی ہوگیا ۔
اگرہم نے اس کا دل ایمان اور امید ےک نور سے روشن نہ کیا ہوتاتوقریب تھاکہ وہ راز فاش کردیتی .لیکن ہم نے یہ اس لیے کیاتاکہ وہ اہل ایمان میںسے رہے :
( واصبح فئواد ام موسٰی فارغا ان کادت لتبد ی بہ لولاان ربطنا علی قلبھا لتکون من المئومنین ) ۔
”فارغ “ کے معنی ہیں خالی . اس جگہ ” پر چیز سے خالی “ سے مراد یہ ہے ” بجز یاد فرزند ہر شئی سے خالی تھا “ ۔
ہر چند کہ بعض مفسرین نے یہ امر اد لی ہے کہ مادر موسٰی کا دل غم و اندوہ سے خالی تھا ۔
یا . اس الہام اور خوش خبری سے خالی تھا کو اسے پہلے دی گئی تھی لیکن اگرسیاق عبارت پرغور کیاجائے تو یہ مفاہیم درست نہیں معلوم ہوتے ۔
یہ قطعی فطری امر ہے کہ : ایک ماں جواپنے بچے کواس صورت حال سے اپنے پاس جدا کرے وہ اپنی اولاد کے سوا ہرشے کوبھو ل جائے گا . اور اس کے حواس ایسے باختہ ہوجائیں گے کہ ان خطرات کالحاظ کیے بغیر جواس کے اور اس کے بیٹے دونوں کے سر پر منڈلارہے تھے فریاد کرے اور اپنے دل کا راز فاش کرددے ۔
لیکن وہ خد ا جس نے اس ماں کے سپر د یہ اہم فریضہ کیاتھا ، اسی نے اس کے دل کوایسا حوصلہ بھی بخشا کہ وعدہ الہٰی پراس کاایمان ثابت رہے اوراسے یہ یقین رہے کہ اس کا بچہ خداکے ہاتھ میںہے آخر کار وہ پھراسی کے پاس آجا ئے گا اور پیغمبر بنے گا ۔
” ربطنا “ کامادہ ” ربط “ ہے .اس کلمہ کے وضعی معنی ہیں ” حیوانات کو کسی ایسی جگہ باند ھنا جہاں وہ اطمینا ن سے اپنی جگہ محفوظ رہیں “ اس قسم کی جگہ کو ” رباط “ کہتے ہیں مجازا حفظ تقویت اور استحکام بخشنے کے معنی میں آتاہے . اس آیت میں جو ”زبطناعلی قلبھا“کہاگیا ہے تواس سے مراد یہی ہے کہ ہم نے اس کے دک کو قوی کردیاتاکہ وہ خداپرایمان لائے اوراس عظیم واقعے کاصدمہ برداشت کرے ۔
اس لطف خداوندی کے طفیل ماں کاسکون لوٹ آیامگر اسے آرزو رہی کہ وہ اپنے فرزند کے حال سے باخبر رہے اس لیے اس نے موسٰی کی بہن سے کہا کہ جا تو دیکھتی رہ کہ اس پر کیا گزرتی ہے :( وقالت لاختہ فصیہ ) ۔
”قصیہ “ مادّہ ”قص“ سے مشتق ہے اس کے معنی ہیں کہ کسی چیز کی کیفیت کی جستجو .عرف عام میںجولفظ ” قصّہ “ ہے یہ نام اس وجہ سے ہواکہ اس کہ میں بھی قسم قسم کے واقعات کی جستجوتی ہے ۔
موسٰی کی بہن ماں کا حکم بجالائی اوراتنے فاصلہ سے جہاں سے سب کچھ نظر آتاتھا دیکھتی رہی .اس نے دور سے دیکھا کہ فرعون کے عمال اس کے بھائی کے صندوق کو پانی میںسے نکال رہے ہیں اورموسٰی کوصندوق میںسے نکال کرگود میںلے رہے ہیں :
( قطصرت بہ عن جنب ) ۔
مگر وہ لوگ اس بہن کی اس کیفیّت حال سے بے خبر تھے :
( وھم لایشعرو ن ) ۔
اس وقعے کے متعلق بعض لوگوں کاقول یہ ہے کہ فرعون کے مخصوص خدمت گار اس بچے کو لے کرمحل سے باہر آئے تھے تاکہ اس کے لیے کوئیددودھ پلانے ولی تلاش کریں . ٹھیک اسی وقت موسی کی بہن نے دورسے اپنے بھائی کو دیکھ لیا تھا ۔
مگر پہلی توجہیہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے .اس توجیہہ کی بناء پرجب موسٰی کی ماں بچے کے صندوق کو دریائے نیل کے سپرد کرکے گھر لوٹ آئی تو موسٰی کی بہن دریاکے کنارے کھڑی دورسے دیکھتی رہی کہ دیکھیے اب کیا ہوتاہے ! اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ غمال فرعون نے اسے پانی میں سے نکال لیاہے اوربچہ اس عظیم خطرے سے جو اسے درپیش تھا نجات پاگیاہے ۔
” ھم لایشعرون “ کی اور بھی تفاسیر بیا ن کی گئی ہیں .مرحوم علامہ طبرسی اس احتما ل کوبعد نہیںسمجھتے کہ اس جگہ اور آیات ماقبل میں اس جملے کی جو تکرار فرعون کے متعلق ہوئی ہے ،اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب کہ وہ حالات سے اس حد تک لاعلم تھا تو پھر کس طرح خدائی کادعویٰ کرتاتھا ؟وہ ارادئہ الہٰی اور اس کے مشیت سے کس طرح نبرد آذ ماہوناچاہتاتھا ؟
بہر حال اراد ہ الہٰی یہ تھا کہ یہ طفل نوزاد جلد اپنی ماں کے پاس واپس جائے اوراس کے دل کو قرار آئے . اس لیے فرمایاگیا ہے ” ہم نے تمام دودھ پلانے والی عورتوں کو اس حرام کردیاتھا : “
( وحرم علیہ المراضع من قبل ) (۱)۔
یہ امر طبعی ہے کہ شیر خوار نواز د چند گھنٹے گزر تے ہی بھوک سے رونے لکتاہے اور بے تاب ہوجاتاہے .اندریں حال لازم تھا کہ موسٰی کودودھ پلانے کے لیے کسی عورت کی تلاش کی جاتی ” خصوصا جبکہ ملکئہ مصر اس بچے سے نہاہت دل بستگی رکھتی تھی اوراسے اپنی جان کے برابر عزیز رکھتی تھی ۔
محل خدّام حرکت میں آگئے اور در بدر کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کرنے لگے مگر عجیب بات تھی کہ وہ کسی کا دودھ پیتا ہی نہ تھا ۔ممکن ہے کہ وہ بچہ ان عورتوں کی صورت ہی سے ڈر تاہو اور ان کے دودھ کامزہ (جس سے وہ آشنانہ تھا ) اسے اس کاذائقہ ناگوار اورتلخ محسوس ہوتاہو . اس بچے کاطور کچھ اس طرح کا تھا گو یا کہ ان (دودھ پلانے والی ) عورتوں کی گود سے اچھل کے دور جا گرے دراصل یہ خداکی طرف سے
” تحریم تکوینی “ تھی کہ اس نے تمام عورتوں کواس پر حرام کردیاتھا ۔
بچّہ لحظ بہ لحظ زیادہ بھوکا اورزیادہ بیتاب ہوتاتھا . بار بار ور ہاتھا اوراس کی آواز سے فرعون کے محل میں شور ہو رہا تھا . اور ملکہ کادل لرز رہاتھا ۔
خدمت پرمامور لوگوں نے اپنی تلاش کو تیز تر کر دیاتھا .ناگہاں قریب ہی انھیں ایک لڑکی مل جاتی ہے .و ہ ان سے یہ کہتی ہے : میں ایک ایسے خاندان کوجانتی ہوں جواس بچّہ کی کفالت کرسکتاہے .وہ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔
کیا تم لوگ یہ پسند کروگے میں تمہیں وہاں لے چلوں ؟
( فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکوکلونہ لکم وھم لہ ناصحون ) ۔
” میں بنی اسرائیل میںسے ایسی عورت کوجانتی ہوں جس کی چھاتیوں میں دودھ ہے اوراس کادل مخبت سے بھراہواہے .اس کایک بچّہ تھا اسے کھوچکی ہے .وہ ضرور اس بچّہ کو جو محل میںپیداہواہے ، دودھ پلانے پرآمادہ ہوجائے گی “ ۔
وہ تلاش کرنے والے خدام یہ سن کرخوش ہوگئے اورموسٰی کی ماں کوفرعون کے محل میں لے گئے .اس بچّہ نے جونہی اپنی ماں کی خشبو سونگھی اس کا دود ھ پینے لگا . اوراپنی ماں کاروحانی رس چوس کراس میںجان تازہ آگئی .اس کی آنکھوں میںخوشی کانور چمکنے لگا ل۔
اس وقت وہ خدّام جو ڈھونڈ ڈھنوڈ کرتھک گئے تھے .بہت ہی زیادہ خوش و خرّم تھے .فرعون کی بیوی بھی اس وقت اپنی خوشی کونہ چھپاسکی .ممکن ہے اس وقت لوگوں نے کہا ہوکہ تو کہا ں چلی گئی تھی .ہم تو تجھے ڈھنوڈ ڈھنوڈ کے تھک گئے تجھ پراورتیر ی شیر مشکل کشاپر آفرین ہے ۔
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جس وقت حضرت موسٰی (علیه السلام) ماں کا دودھ پینے لگے ،فرعون ککے وزیر ھاما ن نے کہا : مجھے لگتا ہے کہ تو ہی اس کی ماں ہے .بچّہ کی ماں ہے .بچّے نے ان تمام عورتوں میںسے صر ف تیرا ہی دودھ کیوں قبول کرلیا ؟
ماں نے کہا :
”اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایسی عورت ہوں جس کے دودھ میںسے خوشبوآتی ہے .میرز دودھ نہایت شیر یں ہے .اب تک جو بچّہ نہایت شیر یں ہے .اب تک جو بچّہ بھی مجھے سپر کیاگیا ہے . وہ فوراً ہی میرا دودھ پینے لگتے ہے “۔
حاضرین دربانے اس قول کی صداقت کو تسلیم کرلیا اورپر ایک نے حضرت موسٰی کی ماں کوگراں بہاہد یے اورتحفے دے (۲) ۔
ایک حدیث جوامام باقر علیہ السلام سے مروی ہے اس میں منقول ہے کہ :
” تین روز سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا کہ خدانے بچّے کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا “ ۔
بعض اہل دانش کاقول ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے لیے یہ
” تحریم “ (یعنی دوسری عورتوں کاحرام کردینا ) اس سبب سے تھی کہ خدایہ نہیں چاہتاتھاکہ میرافرستادہ پیغمبرایسا دودھ پئے جوحرام سے آلودہ ہواوراس ایسامال کھا کے بنا ہو جو چوری ، ناجائز ذر ائع ، رشوت اورحق النّاس کوغصب کرکے حاصل کیاگیا ہو . خداکی مشیت یہ تھی کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) اپنی صالحہ ماں کے پاک دودھ سے غذا حاصل کریں تاکہ وہ اہل دنیا ک شر کے خلاف ڈٹ جائیں اور اہل شرو فساد سے نبر د آزمائی کر سکیں ۔
ہم نے اس طرح موسٰی کواس کی ماں کے پاس لوٹا دیا . تاکہ اس کی آنکھیں روشن ہوجائیں اوراس کے دل میںغم و اندوہ باقی نہ رہے اوروہ یہ جان لے کہ خداکا وعدہ حق ہے .اگر چہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے :
( فرد ناہ الی امہ کی تقر عینھا ولا تحزن ولتعلم ان وعداللہ حق ولکن اکثر ھم لا یعلمون ( ۳)۔

اس مقام پر ایک سوال پیداہوتاہے اوروہ یہ ہے کہ :
کیا وابستگان فرعون نے موسٰی کاکلیہ ماں کے سپرد کردیاتھا کہ وہ اسے گھر لے جائے اوردودھ پلایاکرے اور دوران رضاعت روز انہ یاکبھی کبھی بچے کوفرعون کے محل میںلایا کرے تاکہ ملکہ مصر اسے دیکھ لیاکرے یا یہ کہ بچہ محل میں رہتا تھا اور موسٰی کی ماں معیّن اوقات میں آکر اسے دودھ پلاجاتی تھی ؟
مذکورہ بالادونوں احتمالات کے لیے ہمارے پاس کوئی واضح دلیل نہیں ہے .لیکن احتمال ادل زیادہ قرین قیاس ہے ۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ :
آیا عرصئہ شیر خوا ر گی کے بعد حضرت موسٰی (علیه السلام) فرعون میںچلے گئے یاان کا تعلق اپنی ماں اورخاندان کے ساتھ باقی رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے ؟
اس مسئلے کے متعلق بعض صاحبان نے یہ کہا ہے کہ شیر خوا ر گی کے بعد آپ کی ماں نے انھیں فرعو ن اوراس کی بیو ی آسیہ کے سپر د کردیاتھا اورحضر ت موسٰی (علیه السلام) ان دونوں کے پاس پرورش پاتے رہے ۔
اس ضمن میں رادیوں نے فرعون کے ساتھ حضرت موسٰی (علیه السلام) کی طفلانہ ( مگر بامعنٰی ) باتو ں کاذکر کیاہے کہ اس مقام پرہم ان کو بعذرطول کلام کے پیش نظر قلم انداز کرتے ہیں .لیکن فرعون کایہ جملہ جواس نے بعثت موسٰی (علیه السلام) کے بعد کہا :
” الم نریک فینا ولید اولبثت فینا عن عمرک سنین “ (شعرا . ۱۸ )
کہاہم نے تجھے بچپن میںپرورش نہیں کیا اورکیا تو بر سوں تک ہمارے درمیان نہیں رہا ۔
یہ ثابت کرتاہے کہ حضر ت موسٰی (علیه السلام) فرعون کے محل میں مدّتوں رہے تھے ۔
علی ابن ابراہیم کی تفسیر سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) تازمانہ بلوغ کے محل میں نہایت احترام کے ساتھ رہے .مگر ان کی توحید آشکار باتیں فرعون کوسخت ناگوار ہوتی تھیں .یہاں تک کہ اس نے انھیں قتل کرنے کاارادہ کرلیا .حضرت موسٰی (علیه السلام) اس خطرے کربھاپ گئے اور بھاگ کر شہر میں آگئے .یہاں وہ اس واقعے سے دوچار ہوئے کہ دو آدمی لڑرہے تھے جن میںسے ایک قبطی اورایک سبطی تھا ( اس واقعے کی تفصیل آئندہ آتی ہے (۴)۔

۱۔ ” مراضع “ جمع ہے ” مرضع “ ( بر وزن مخبر ) کی .اس کامعنی ہے ” دودھ پلانے والی عور ت “ . بعض کے نزدیک یہ ” مرضع “ ( بوزن مکتب ) کی جمع ہے بمعنی دودھ پلانے کی جگہ یعنی پستان مادر . اس کلمے کے متعلق یہ احتمال بھی ہے کہ یہ مصد ر میمی ہے ” رضاع “ نگر پہلا معنٰی زیادہ مناسب ہے ۔
۲۔ تفسیر فخر رازی ، جلد ۲۴، صفحہ ۲۳۱۔
۳۔ ”تقرعینھا “ کے لغوی مادّہ کے متعلق اس کتاب کی پندرھویں جلد میں .سورئہ فرقان کی آیت نمبر ۷۴ کے تحت ذکر ہو چکا ہے ۔
۴۔تفسیر علی بن ابراہیم طبق نور اثقلین ، جلد ۴ ، صفحہ ۱۱۷ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma