۲۔ ایک سوال کاجواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
اس مقام پر یہ سوال اٹھایاجاتاہے کہ اسلامی قوانین میں کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ ایک انسان کا خون بہادوسرے کے ذمّہ ہوتاہے مثلاقتل کے معاملے میں خون بہا ”عاقلہ “کے ذمّہ ہے ۔
” عاقلہ “ اصطلاح فقہ میں ایک باپ کی اولاد ذکور کوکہتے ہیں کہ خون کی رقم اس اولاد ذکورہ پرتقسیم ہوجائے گا اوران میں س ے ہر ایک اپناحصہ اداکرے گا ۔
کیایہ مسئلہ مندرجہ بالاآیات کے مضامین سے متضاد نہیں ہے ؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم مباحثہ فقہی میںیہ واضح کردیاہے کہ ”عاقلہ“کاخون بہاکاضامن ہونا ،ایک قسم کا ایک خاندان کے افراد میں متقابل اور لازمی بیمہ ہے ۔
اسلام نے اس وجہ سے کہ کسی خطاکی دیّت کابارایک فرد پر نہ رہے . پورے خاندان کے افراد پر لازم کردیا کہ وہ سب باہم دگر ”دیّت خطا“ کے ضامن رہیں اوردیّت کی رقم کو آپس میں بانٹ لیں .ممکن ہے کہ آج ایک شخص خطاکامرتکب ہواورکل کودوسرا ۔
( ہم اس مسئلے کے بارے میں مزید بحث کو فقہ کی کتاب پرچھوڑ تے ہیں ) ۔
بہر حال ادائے دیّت کا یہ نظام باہمی مفاد کے لیے ایک قسم کاتعاون اور امداد باہمی ہے .اوراس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسرے آدمی کاگناہ اپنی گردن پر لے لے . با لخصوص قتل کا خون بہا حقیقت میں اس گناہ کا جرمانہ نہیں ہے بلکہ وہ ”تلافی ٴ نقصان“ہے (یہ امر مستحق غور ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma