کیا قرآن بطور معجزہ کافی نہیں ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
جولوگ اپنی ہٹ دھرمی اورباطل پراصرار کی وجہ سے اس بات پرآمادہ نہیں تھے کہ قرآن کے استد لال اور منطقی بیان کو بہ اطاعت قبول کرلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقانیت کی اس جہت سے پذیرائی کریں کہ وہ تحصیل علم نہ کرنے کے بعد باوجود ایسی کتاب لا ئے . انھوں نے ایک نیا بہانہ تلاش کرلیا . چنانچہ قرآن کی زیر بحث میں سے پہلی آیت میں اس کاذکر ہے کہ :
انھوں نے بطور تمسخر کہاکہ اس پر (موسٰی اورعیسٰی کی طرح ) خداکی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوئے : ( وقالو الو انزل علیہ ایات من ربہ ) ۔
اس کے پاس عصائے موسٰی ،یدبیضا اوردم مسیحا جیسے معجزات معجزا ت کیوں نہیں ہیں ؟
وہ اپنے دشمنوں کو اپنے عظیم معجزات کے ذریعے نابود کردیت. جس طرح کہ موسٰی علیہ السلام ،شعیب علیہ السلام ، ہود علیہ السلام ،اورنوح علیہ السلام و ثمود نے نابود کردیاتھا ۔
یاجس طرح کہ سورئہ بنی اسرائیل میں اس گروہ کاقول پایاجاتااہے کہ ( انھوں نے کہا )پیمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ کے خشک بیابان میں پانی کے چشمے کیوں جاری نہیں کردیتا ، اس کے پاس سونے کامحل کیوںنہیں ہے .وہ آسمان پرکیوں چڑھ نہیں جاتا اور ان کے لیے خدا کی طرف سے آسمان سے ایک خط کیوں نہیں لاتا ؟ (۱) ۔
تواریخ میں بصراحت یہ واقعات موجود ہیں کہ پیمبرالسلام قرآن کے علاوہ اوربھی معجزات رکھتے تھے .مگرکفار ان باتوں سے درحقیقت طلب گار معجزہ نہ تھے . بلکہ ان بہانہ ساز یوں سے ایک طرف تواعجاز قرآن سے صرنظر کرناچاہتے تھے . دوسری طرف وہ منہ مانگے معجزے کے خواہش مند تھے . من پسند معجزات کاتو مطلب یہ ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرشخص کی خواہش کے مطابق ،وہ جس قسم کے بھی معجزے کا طلب گا رہو .کردیکھائیں مثلا : ا ن میں س ے ایک آدمی کہے کہ ”آ پ شیریں کاچشمہ جاری کردیجئے ۔
دوسرا کہے کہ مجھے تویہ معجزہ پسند نہیں ، آپ مکہ کے پہاڑوں کوسونے کابنادیجئے .تیسرا کہے کہ یہ معجزات کافی نہیں ہیں ، آپ ہمارے سامنے ہی آسمان پر چڑھ جائیں ۔
اس صورت سے یہ لوگ معجزات کو بے قدر باز یچہ اطفال بنا دیں .اورپھر انجام یہ ہو کہ معجزات دیکھنے کے بعد بھی کہیں کہ تو جادو گرہے ۔
لہذا قرآن میں س ورہ ٴ انعام کی آیت ۱۱۱ میں بیان کیاگیا ہے :
ولو اننا نزلنا الیھم المکئکة و کلمھم الموتی وحشر ناعلیھم کل شی ء قبلا ماکانو ا لیئو منوا
اگر ہم ان کی طرف فرشتوں کوبھیجتے اورمردے ان سے باتیں کرتے اورتمام چیزوں کوان کے سامنے موجو د کردیتے تووہ پھر بھی ایمان نہ لاتے ۔
بہر حال قرآن میں ان ہت دھرم بہانہ ساز لوگوں کو دوطرح سے جواب دیاگیا ہے ۔
اوّل یہ کہ اے رسول ان سے کہدو کہ معجزہ میرا کام نہیں جو تمہاری خواہش کے مطابق صادر ہوتارہے بلکہ تمام معجزات خداکے اختیار میںہیں : ( قل انما الایات عند اللہ ) ۔
خداہی اس مصلحت کو بہتر جانتا ہے . کہ کس قوم کے لیے ، کس وقت اورکونسا معجزہ مناسب ہے .وہی جانتا ہے کہ کون لو گ جو یائے حق اورذوق تحقیق رکھتے ہیں . تو وہ معجزہ بھی ان ہی کودیکھاتاہے نیز وہ جانتا ہے کہ کون سے لوگ بہانہ ساز اورپنی خواہشات نفس کے غلام ہیں ۔
اوران سے کہ دو کہ میں فقط ڈرانے والا اور خبردار کرنے والاہوں : ( و انما انانذ یر مبین ) ۔
میرافرض تو صرف ڈرانا ، تبلیغ کرنا اور تمہیں کلام خداسنانا ہے .رہا معجزات اورخوارق عادات کادکھا نا ، سو یہ خدا کے اختیار میں ہے ۔
دوسراجواب یہ ہے کہ کیاان کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تجھ پر یہ کتاب آسمانی نازل کی ہے جو ہمیشہ انھیں پڑھ کرسنائی جاتی ہے :
( اولم یکفھم اناانزلناعلیک الکتاب یتلی علیھم ) ۔
یہ لوگ مادی معجزات کاتقاضاکرتے ہیں ، درآن حالیکہ قرآن برترین روحانی معجزہ ہے ۔
یہ لوگ زود گزر معجزہکاتقاضاکرتے ہیں جبکہ قرآن جاودانی معجزہ ہے اوررات دن اس کی آیات انھیں پڑھ کرسنائی جاتی ہیں ۔
کیایہ ممکن ہے کہ ایک ناخواندہ انسان (اور اگر بالفرض اس نے پڑھا بھی ہو ) ایسی کتاب پیش کرے جس کے مشمولات اورمضامین ایسے عجیب ہیں اورجس کی فصاحت میں ایسا جذبہ ہے جو انسان کی طاقت سے بالاہے . اوروہ جملہ اہل عالم کو مقابلہ کاچیلنچ کردے . اورسب لوگ اس کتاب کا جواب پیش کرنے سے عاجز اوردر ماندہ رہ جائیں ۔
اگر ... وہ واقعامعجزے کے طلب گار ہیں توہم قرآن نازل کرکے ان کے مطالبے سے بھی بڑا معجزہ ان کے سامنے پیش کردیاہے .مگر نہیں... وہ لوگ حق طلب نہیں ہیں بلکہ بہانہ ساز ہیں ۔
یہ امر مدّ نظر رہے کہ جملہٴ ” اولم یکفھم “ (کیاان کے لیے کافی نہیں ہے ) معمولا ایسے موقع پر بولا جاتاہے کہ جب انسان کوئی کام ایسا کرے جو طرف مقابل کی تو قع اورامید سے کہیں بالاہو اور مدّ مقابل اس کی قدر و وقعت سے غافل ہو یا تجاہل عارفانہ سے کام لے . مثلا مدّ مقابل یہ اعتراض کرے کہ تونے میری فلاں خدمت کیوںنہیں کی ؟ اور ہم اس کی خواہش سے بھی عظیم ترخدمت کی نشان دہی کردیں ( جیسے اس نے نظر انداز کررکھا ہو ) اورکہیں کہ کیا یہ کافی نہیں کہ ہم نے تیری انتی بڑی خدمت کی ہے ؟
ان سب باتوں سے قطع نظر معجزہ کو پیغمبرکی دعوت کی کیفیت اورزمان و مکان کی شرائط سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے . اس لیے جس پیمبرکی شریعت جاو دانی ہے ، اس کامعجزہ بھی جاو دانی ہی ہونا چاہیئے ۔
جس پیغمبر کی دعوت جہاں گیر ہے اورآئندہ زمانوں پر بھی حاوی ہو اس کامعجزہ بھی روحانی اورعقلی اسلوب کاہوناچاہیئے . جو تمام اہل فکر اوراہل خرد کے لیے موجب جذب و کشش ہو . یقینا قرآن ہی اس مقصد کو پورا کرتا ہے .نہ کہ عصائے موسٰی اورید بیضا ۔
آیت کے آخر میں مزید توضیح و تاکید کے لیے کہاگیا ہے : اس آسمانی کتاب میں ایمان لانے والوں کے لیے عظیم رحمت اورنصیحت موجود ہے : ( ان فی ذالک وذکری لقوم یئو منون ) ۔
واقعا قرآن رحمت بھی اورپندو نصیحت حاصل کا وسیلہ بھی ہے لیکن صرف اہل ایمان کے لیے ، صرف ان لوگوں کے جنھوں نے حقیقت کو خوش آمدیدکہنے کے لیے اپنے دلوں کے دروازے کھول دئے ہیں ،صرف ان لوگوں کے لیے جوطالب نورہیں اور راہ مستقیم کے جو یاہیں .ایسے لوگ اس رحمت کااپنی پوری شخصیت کے ساتھ ادارک کرتے ہیں . اوراس کے سائے میں راحت پاتے ہیں .یہ لوگ آیاتِ قرآنی کو جتنی مرتبہ بھی پڑ ھتے ہیں ان کے قلوب پر ان کے نئے معانی روشن ہو جاتے ہیں ۔
ممکن ہے کہ ” رحمت “ اور” ذکر ی “ میں یہ فرق ہو کہ قرآن صرف ایک معجزہ اوردفتر نصیحت ہی نہیں ہے بلکہ ان باتوں کے علاوہ ، وہ حیاتی ہے . نیز یہ کہ اس میں انسان کے لیے ایسے قوانین اواصل عمل سےء پر ہے جن کی اتباع انسان کے لیے باعث نزول رحمت ہوتی ہے . نیز یہ کہ اس میں انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت اورتکمیل انسانیت کے قواعداورنصائح موجود ہیں
اس کے موازنہ میںعصائے موسی ایک معجزہ توتھا مگر لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں تو اس کاکچھ اثر نہ تھا ۔
برخلاف اس کے قرآن اپنے اسلوب کے لحاظ سے معجزہ تو ہے ہی مگراس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے مکمل پرو گرام بھی ہے اور باعث رحمت الہٰی ہے ۔
چونکہ ہر مدّعی کو اپنے اثبات دعو یٰ کے لیے شاہد گواہ کی ضرورت ہے ، اس لیے آیہ ٴ مابعد میں فرمایاگیاہے :
اے رسول ان سے کہہ دو کہ یہی کافی ہے کہ : میرے اورتمہارے درمیان خدا گواہ ہے : ( قل کفی باللہ بینی و بینکم شھیدا )۔
یہ امر واضح ہے کہ کوئی گواہ جس قدر بھی حقیقت قضیہ سے زیادہ باخبرہوگا، اس کی گواہی کی قدر اسی نسبت سے زیادہ ہوگی . لہذا جملہ مابعد میں یہ اضافہ کیاگیا ہے : وہ خدا جو میراگواہ ہے آسمان اورزمین میں چو کچھ ہے اس سب کو جانتا ہے :
(یعلم مافی السماوات والارض ) ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت پرکس طرح گواہی دی ہے ۔
ممکن ہے کہ صداقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ گواہی عمل ہو . جب خدا نے قرآن جیسا عظیم معجزہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوعطاکیاتوگو یاعملا ان کی حقانیت کی سند بھی جاری کردی کیونکہ کیایہ ممکن ہے کہ خدائے حکیم وعادل جیسا معجزہ ( العیاذ باللہ ) کسی دروغ گوکو عطاکردیے ؟
اس بناء پر کسی کو ایسا معجزہ عطاکرنا ہی اس کی بنوت کی صداقت پر خداکی بہترین گواہی ہے ۔
مذکورہ ٴ بالاعملی گواہی کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں خدا کی قولی شہادت بھی موجو د ہے . چنانچہ سورہ احزاب کی آیت ۴۰ میں مذکورہ ہے :
ماکان محمد اباالحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین
محمد (ص) تمہارے مردوں میں س ے کسی کے باپ نہیں وہ تو اللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں ۔
اور سورہ فتح کی آیت ۲۹ میں ہے :
محمد رسو ل اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم
محمد (ص) رسول خداہیں اورجولوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلہ می ں س خت ہیں اورباہم ایک دوسرے پررحیم اور مہر بان ہیں ۔
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت مدینہ کے بعض اشراف یہود کے جواب میں نازل ہوئی ہے جیسے کعب ابن اشرف اوراس کے متبعین تھے . انھوں نے کہاتھا کہ اے محمد صلی للہ علیہ و آلہ و سلم کیاکوئی شخص اس بات کاگواہ ہے کہ تم خداکے رسول ہو ؟
اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اورکہا کہ یہ گواہی خدا دیتا ہے ۔
اس کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہادت خداسے مرادیہ ہے کہ سابق آسمانی کتابوں میں یہ شہادت موجود ہے جیسے اہل کتاب کے علماء اچھی طرح جانتے ہیں . بہرکیف ان تینوں تفاسیر میں کوئی تضاد نہیں ہے . اور ممکن ہے کہ اس آیت میں یہ تمام مفاہیم جمع ہوں ۔
آیت کے آخیر میں بطور تہدید و تنبیہ فرمایاگیاہے : جولوگ باطل ایمان لائے اور انہوں نے خدا کاانکار کیا ، وہ درحقیقت خسارے میں ہیں : ( والذین امنوا بالبا طل و کفرو ا باللہ او لئک ھم الخاسرون ) ۔
اس سے بڑا اورکون ساخسارہ ہوگاکہ انسان اپنی شخصیت کے تمام کو کسی ناچیز اور بے قدر شے کے لیے گنوادے . جیسا کہ مشرکین کاعمل تھاکہ انھوں نے اپنادل و جان بتوں کے حوالے کردیا تھا اور نھوں نے اپنی تمام جمسانی قوتیں اورجملہ انفرادی اور اجتماعی و سائل کو آئیں بت پرستی کی ترویج و تبلیغ اور نام خداکو محو کردینے میں صرف کردیاتھا .مگر انھیں خسران و زیادہ کے علاوہ ا س کاکچھ بھی پھل نہ ملا۔
غالباآیات فرآنی میں اسی عظیم خسران کی طرف اشارہ کیاگیا ہے .کبھی کلمہ ” اخسر “ کہہ کربھی اس حقیقت کی نشان دہی کی گئی ہے . یعنی اس سے بڑا اوکوئی نقصان نہیں ہے ۔ ( ہود . ۲۲، نمل.۵، کھف .۱۰۳)
یہ بات بھی اہم ہے کہ انسان کوکسی تجارت میں نقصان ہوجاتا ہے اوروہ اپنا سرمایہ گنوابیٹھتا ہے اور اس کادیوالیہ نکل جاتا ہے مگر کبھی اس سے بھی زیادہ نقصان ہوتا ہے کہ اس کے تاجر کے شانوں پرقرض کا بار رہ جاتا ہے اوردیوالیہ ہونے کی بد ترین شکل ہے .مشرکین کاباکلی یہی حال حاتھا . بلکہ دوسروں کی گمراہی اورایمان کے دیوالیہ پن کا باعث ہوتے تھے (۲) ۔
گزشتہ آیات میں جنا ب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت الی الحق کے مقابلے میں کفارکی دوبہانہ ترزشیوں اوران کے جوابات کاذکر ہواتھا ۔
اوّل یہ کہ وہ کہتے تھے کہ پیغمبرکوئی معجزہ کیوںنہیں دیکھاتا ؟
قرآن میں اس کایہ جواب دیاگیا تھا کہ یہ تکاب آسمانی خود برترین معجزہ ہے ۔
دوسرے یہ کہ اس پیغمبر کی حقانیت کاگواہ کون ہے ؟
قرآن میں یہ جواب دیاگیا کہ وہ خدا گواہ ہے جوعالم کل ہے ۔
زیر بحث آیت میں کفار کی ایک تیسری بہانہ سازکاذکر ہے کہ : یہ لوگ عذاب الہٰی کے بارے میں عجلت کرتے ہیں. اور اسے تجھ سے بہت جلدی چاہتے ہیں : ( ویستعجلونک بالعذاب ) ۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرعذاب الہٰی حق ہے اوروہ کفار پر نازل ہوتاہے تووہ ہم پر کیوں نازل نہیں ہوتا ؟
قرآن میں اس سوال کے تین جواب دئے گئے ہیں :
اوّل یہ کہ : اگر وقت مقرر کیاگیا ہے کہ منشائے الہٰی یہ ہے کہ اول تو یہ خواب کفر سے بیدار ہوں اوراگر ایسانہ ہوتو مہلت ِ وقت سے ان پراتمام حجت ہوجائے .کیونکہ خدااپنے کاموں میں بخلاف حکمت جلدبازی نہیں کرتا ۔
دوسرے یہ کہ : جولوگ یہ بات کہتے ہیں ، انھیں اس کا کیا اطمینان ہے کہ ان کے طلب کرتے ہی ان پر عذاب نازل ہوجائے گا ؟ کیونکہ یہ عذاب تو اس حالت میں کہ وہ بے خبرہوں گے ان پر ناگہاں اوربدون آثار نازل ہو جائے گا : ( ولیاٴ تینھم بغتة وھم لا یشعرون) (۳) ۔
اگر چہ عذاب کاوقت موعود ، معتین ومقر ر ہے . مگر اس کی تاخیر میں مصلحت یہ ہے کہ کفار اس سے آگاہ نہ ہوں اور وہ ابتدائی آثار کے بغیر انھیں آپکڑے . کیونکہ اگراس وقت کااعلان کردیاجاتاتو گنہگار وں کی جراٴ ت و جسارت اور بھی بڑھ جاتی . و ہ وقت موعود کے آخر ی لحظے تک اپنے گناہ و کفر کوجاری رکھتے اورجب دیکھتے کہ وقت موعود کے مطابق عذاب کی گھڑیاں نزدیک ہیں تو آخر ی لمحات میں س ب توبہ کرلیتے اور خدا کی طرف رجوع کرتے ۔
قوموں کی تربیت اخلاقی میں اس قسم کی سزاؤں کاتقاضہ یہ ہے کہ ان کاوقت مقررہ نامعلوم رہے . تاکہ ان کاخوف اورڈر انھیں گناہوں سے باز رکھنے کاایک مئو ثر عامل ثابت ہو اورہر گھڑی اپنااثر دکھاتا رہے ۔
ہم نے نزول عذاب کی جس حکمت تاخیر کا ذکر کیاہے ، اس سے ثابت ہے کہ جملہ ”وھم لایشعرون “ سے یہ مراد نہیں ہے کہ انھیں اصلا وجود عذاب ہی کا ادراک نہ ہوگا اگرایسا ہوتا توعذاب میں کوئی حکمت ہی باقی نہ رہتی. بلکہ اس جملے کامقصودیہ ہے کہ انھیں وقوع عذاب کے وقت اوراس کے آثار نزول کے مطلق خبردار نہ ہوگا .بالفاظ دیگر ،ان پرعذابحالب ِ غفلت بجلی کا مانند ٹوٹ پڑے گا ۔
قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بہانہ جو ئی صرف کفار مکہ ہی تک منحصر نہ تھی بلکہ قبل از آن دوسری قومیں بھی تعمیل عذاب پراصرار کرتی رہی تھیں۔
تیسرا جواب قرآن کی آیت مابعد میں دیاگیاہے .وہ یہ کہ : اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ کفار تم سے عذاب الہٰی میں تعمیل کا تقاضا کرتے ہیں جب کہ جہنم نے ان کافروں کااحاطہ کیاہوا ہے : ( یستعجلو نک بالعذاب وان جھنم لمحیطة بالکافرین ) ۔
مراد یہ ہے کہاگرعذاب دینامیںخیر ہوجائے تو عذاب آخرت توان کے لیے سو فیصد قطعی اوریقینی ہے او ر ایسا مسلم ہے کہ قرآن میں اس کاذکر ایک امر و قوع کے طور پر کیاگیا ہے .باین الفاظ کوجہنم گویا اب بھی ان کااحاطہ کیے ہوئے ہے ۔
اس آیت کی ایک دقیق ترتفسیربھی ہے او روہ یہ ہے کہ بہ معنی حقیقی دو جہتوں سے جہنم اب بھی انھیں گھیرے ہوئے ہے ۔
اوّل تو دنیا وہی جہنم ہے . وہ یہ کہ یہ لوگ شرک اور گناہوں کی جہن میں مبتلا ہیں جو انھوں نے اپنے جلنے کے لیے خودفراہیم کی ہے .وہ جنگ و خوں ریزی ،نزاع و اختلاف باہمی ، بدامنی اور عدم سکون و بیداد گری اورہوا و ہوس اورسرکشی کی جہنم میںگھرے ہوئے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ آیات قرآنی کے ظاہری مفہوم کے مطابق ان کفار کے لیے جہنم اب بھی موجو دہے اورجیساکہ ہم نے سطور ماقبل میں تشریح کی ہے اسی دنیا کے باطن میں ہے . اور اس نے درحقیقت کفار کو گھیر رکھاہے .چنانچہ سورہ تکاثر کی آیات ،۵، ۶، ۷،میں اس کا ذکر موجود ہے ۔
کلا لوتعلمون علم یقین لترون الجحیم ثم لتر ونھا عین الیقین
ایسانہیں ہے اگر تمہیں علم الیقین ہوتا تو جہنم کامشاہدہ کرتے اورپھر اس کو عین الیقین سے دیکھتے (۴) ۔
۴اس کے بعد فرمایاگیا ہے : وہ روز بڑا سخت اوردر ناک ہوگا . جب عذاب الہٰی انھیں سرکے اوپر اورپاؤ ں کے نیچے سے گھیرلے گا اوران سے کہاجائے گا کہ جو کچھ تم کرتے تھے آج اس کامزہ چکھو : ( یوم یغشاھم العذاب من فوقھم ومن تحت ارجلھم و یقول ذو قوا ماکنتم تعملون) (۵)۔
یہ آیت ممکن ہے بروز قیامت کفار کے لیے احاطہٴ عذاب جہنم کے لیے ہو ۔
نیز ممکن ہے کہ اس درد ناک عذاب کابیان ہو جس نے ان کے اعمال کی وجہ سے انھیں آج گھیرا ہوا اورکل کو ظاہر و آشکار ہوگا ۔
بہر حال قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ عذاب ان کے سرکے اوپر اور پاؤں کے نیچے سے آئے گا اوربقیہ اطراف و جوانب کاذکر نہیں کیاگیا ہے . یہ بیا ن اس مطلب پرحادی ہے کہ جب آگ کے شعلے پاؤں کے پنجے سے بلندہوں گے اورسرکے اوپر سے نازل ہوں گے تووہ کفار کے تمام اطراف و جوانب کو گھیر لیں گے ۔
اصولا فارسی اورعربی دونوں زبانوں میں یہ کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص سرسے پاؤ ں تک بے عفتی کی دلدل میں ڈو باہوا ہے .یعنی اس کا تمام وجود اس گناہ میں غرق ہوگیاہے ۔
اس طرح سے بعض مفسرین کو جویہ مشکل پیش آئی کہ انھوں نے یہ غور کیا کہ قرآن میں بالا و پائیں کاذکر تو ہوا ہے باقی چار اطراف کو کیوں چھوڑ دیا ہے ، وہ حل ہوجاتی ہے
یہ واضح ہے کہ جملہ” ذو قو اما کنتم تعملون “ کا کہنے والاخدا ہے ۔
علاوہ برایں ، یہ اس قسم کے لوگوں کے لیے ایک نفسیاتی سزا ہے .اس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ آخر ت کی زندگی میں عذاب الہٰی انسان کی دنیاوی بد اعمالیون کے رد عمل ، انعکاس اورتجسم کے سوا اورکچھ نہیں ہے ۔
۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ، ۹۰ تا ۹۳ ۔
۲ ۔ اس موضوع پرتفصیلی بحث جلد ۱۲ میں س ورہ کھف کی آیت ۱۰۳کے تحت درج کی جاچکی ہے ۔
۳۔ ” بغتة “ کا مادہ ”بغتة “ (بروزن ” وقت “ ہے اس کا معنی ہے کسی حادثہ کا ناگہاں اوربلاانتظار ہونا ۔
۴ ۔ اس موضوع کی توضیح کے لیے تفسیر نمونہ کی جلد سوم میں آل عمران کی آیت ۱۳۳ کی تفسیر دیکھئے ۔
۵ ۔ بعض مفسرین نے ” یوم “ کوفعل مقدر کا ظرف سمجھا ہے .اور بعض نے ” محیطة “ سے متعلق جاناہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma