دل میں خدا زبان پر بت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

آیات گزشتہ میں روئے سخن اب مش کین کی طرف تھا جنھوں نے حقانیت اسلام سمجھ تولیاتھا لیکن اس خوف سے کہ ان کی بسراوقات کے ذرائع منقطع ہو جائیں گے وہ ایمان کوقبول کرنے اورہجرت کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے . آیات زیر بحث میں روئے سخن بجانب پمبر السلام صلی اللہ علیہ و لہ وسلم اوردرحقیقت تمام مومنین کی طرف ہے . ان آیات میں دلائل توحید کو ” خلقت “ ربوبیت اور ” فطرت “ کی بنیاد پر تین مختلف طریقون سے بیان کیاگیاہے . ان دلائل کے ذریعے یہ بات ان کے دل نشین کی گئی ہے کہ ان کی تقدیر اس خدا کے ہاتھ ہے جس کی قدر کے آثار تم انفس و آفاق میں دیکھتے ہو ، نہ کہ بتوں کے اختیار میں کیونکہ اس معاملے میں ان کاکچھ دخل نہیں ہے ۔
سب سے پہلے خلقت زمین و آسمان کاذکر کیاگیاہے اور مشرکین کے باطنی اعتقاد ا ت کاحوالہ دیتے ہوئے فرمایاگیاہے : اگر تم ان سے یہ سوال کرو کہ آسمان اورزمین کوکس نے خلق کیاہے ؟ اورکس نے بندوں کے مفاد میں سورج اورچاند کو اپنے زیر فرمان مسخر کر رکھا ہے ، تو سب کے سب بیک زبان جواب دین گے ، ” اللہ “ نے : ( ولئن ساٴ لتھم من خلق السماوات والاض و سخر الشمس و القمرلیقولن اللہ ) ۔
کیونکہ یہ مسلّم ہے کہ بت پرست یاان کے علاوہ کوئی آدمی بھی یہ نہیں کہتا کہ خالق زمین و آسمان اورتسخیر کنندہٴ خور شیدو ماہ یہ حقیر سے پتھر اور لکڑی کے بت ہیں جنہیں انسانوں نے اپنے سے تراشاہے ۔
بہ الفاظ دیگر بت پرست بھی خدا کی توحید میں کوئی شک نہ کر تے تھے . البتہ وہ لوگ عبادت میں مشرک تھے . وہ کہتے تھے :
” ہم بتوں کو اس پوچتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے اورخداکے درمیان واسطہ ہیں . جیساکہ سورہ ٴ یونس کی آیت ۱۸ میں مذکورہے :
و یقولون ھئو لاء شفعاؤ ناعنداللہ
( ان کاقول تھا ) ہم اس لائق نہیں ہیں کہ براہ راست خداسے ارتباط حاصل کریں ۔
اس لیے ہمیں چاہیئے کہ بتوں کے ذریعہ سے رابط برقرار رکھیں :
مانعبدوھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی
ہم ان کی پرستش نہیں کرتے مگر اس وجہ سے تاکہ ہمیں ان کے وسیلہ سے خدا کی قربت حاصل ہوجائے ۔( زمر . ۳)
وہ لوگ اس حقیقت سے غافل تھے کہ خالق اورخلق کے درمیان کو ئی فاصلہ موجو د نہیں ہے اور وہ ہم سے رگ جاں سے بھی زیادہ نزدیک ہے . علاوہ ازیں چونکہ انسان موجودات ِ عالم کل سر سبد اور شاہکار ہے ، وہی اس قابل ہے کہ خدا سے بلا واسطہ رابط پید اکرسکے . کوئی اور مخلوق اس کے لیے واسط نہیں بن سکتی ۔
بہر حال ، اس روشن دلیل کے بعد ،آیت کے اخیر میں فرمایاگیاہے : جب حقیقت یہ ہے تو یہ کفّار خداکی عبادت سے منہ موڑ کے پتھر اور لکڑی سے تراشے ہوئے ناچیزبتوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں : ( فانی یئو فکون ) ۔
” یئوفکون“ مادہ افک (بروزن ” فکر “ ) سے بناہے . اس کے معنی ہیں کسی چیز کی واقعی اورحقیقی شکل کو بدل دینا . اسی مناسبت سے اس کا اطلاق دروغ اور بادمخالف پر بھی ہوتا ہے ۔
اس مقام پر ” یئو فکون “ صیغہٴ مجہول استعمال ہواہے . اس سے مراد ہے کہ مشرکین بحالت شعور استد لال عقلی کے ساتھ ایسا نہیں کرتے بلکہ بلاارادہ بت پرستی کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔
تسخیر شمس و ماہ سے مراد نظامت ہیں جو خدانے ان کے لیے مقر ر کردئے ہیں اور یہ نظامات بہ اعتبارنتائج اسانوں کے لیے منفعت بخش ہیں ۔
اس کے بعد اس مفہوم کی تاکید کے لیے خالق ورازق وہی ہے . یہ اضافہ کیاگیاہے : خدا اپنے بندوں میں س ے جس کے لیے چاہتا ہے روزی کوفراخ کردیتاہے ۔
اورجس کے لیے چاہتا ہے محدود اورتنگ کردیتا ہے : (اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ و یقدرلہ ) ۔
روزی کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے نہ کہ انسانوں اوربتوں کے ہاتھ میں۔
آیات ماقبل میں یہ جو کہاگیاہے کہ ”راست باز مومنین صرف اسی پر توکل کرتے ہیں “ اسی وجہ سے ہے کہ جب کہ ہر چیز کاکلی اختیار اسی کو حاصل ہے ، تووہ پھر اظہار ایمان سے کیوں ڈر یں اور یہ کیوں کہ ہماری زندگیاں دشمنوں کی طرف سے خطرہ میں ہیں ۔
اگرمومنین یہ تصور کریں کہ خدا قدرت تورکھتا ہے مگر ان کے حال سے آگاہ نہیں ہے تویہ بہت بڑی غلطی ہے .کیونکہ خداعالم کل ہے :( ان اللہ بکل شی ء علیم ) ۔
یہ بات ہرگز قابل تصور نہیں کہ خداخالق و مدبر عالم ہو اوراس کا فیض بہ تسلسل لمحات موجود ات کو پہنچ رہا ہو اور وہ ان کی حالت سے آگاہ نہ ہو ۔
دوسرے مرحلے میں خد اکی ربو بیت اوراس کی طرف رزق کے چشمے جاری ہونے کا ذکر ہے . چنانچہ خدافرماتا ہے : اگر ان مشرکین سے تم یہ سوال کرو کہ آسمان سے پانی کون برساتا ہے .اورزمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعداس کے وسیلہ سے کون زندہ کرتا ہے ؟ تووہ سب بیک زبان کہیں گے ، ” اللہ “ : ( ولئن ساٴلتھم من نزل من السماء ماء فاحیابہ الارض من بعد موتھا لیقولن اللہ ) ۔
بت پرستون کا یہ باطنی اعتقاد ہے . یہاں تک اکہ انھیں اس کی زبان سے اقرار کرنے سے بھی انکار نہ تھا . کیونکہ وہ بھی خدا ہی کو خالق اوررب سمجھتے تھے او راسی کو مدبر عالم سمجھتے تھے ۔
اس کے بعد فرمایاگیا ہے : کہو کہ حمد و وستائش صرف اللہ ہی کے لیے ہے : ( قل ا لحمد اللہ ) ۔
حمد و سپاس اس ذات کے لیے ہے جو تمام نعمتوں کابخشنے والاہے . کیونکہ پانی ( جو کہ اصل شرچشمہ ٴ حیات ہے اورسب جانداروں کے لیے باعث حیات ہے ) اس کی طرف سے نازل ہوتاہے . توظاہر ہے کہ ہر قسم کارزق بھی اسی کی طرف سے آتا ہے ۔
اس بناء پرحمد و ستائش بھی اسی کے لیے مخصوص ہونی چاہیئے .اور دوسر ے معبودوں کااس میں کچھ حصہ نہیں ہے ۔
تم خدا کاشکر کرو کہ مشرکین کوبھی ان حقائق کااعتراف ہے .نیز اس بات کا بھی شکر یہ ادا کرو کہ ہمارا استد لال اس قدر مستحکم اور ناطق ہے کہ کسی شخص میں بھی اس کے ابطال کی قدرت نہیں ہے ۔
اور چونکہ مشرکین کی گفتگو اور ان کے عمل میں تناقص تھااس لیے آیت کے آخیر میں ان کلمات کااضافہ کیاگیاہے : (بلاکثرھم لایعقلون ) . ان میں س ے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے ۔
وگرنہ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک عاقل وفہمید ہ انسان قدر پر اگندہ گوئی کرے کہ ایک طرف تووہ اس ذات کو خدا کہے جو خالق ورازق و مدبّر عالم ہے اوردوسری طرف بتوں کوسجد ہ کرے . جنہیں اس کے احوال حیات میں کوئی دخل ہی نہیں ہے ۔
ایک طرف تووہ ” خالق “ و ” رب “ کی توحید کو قائل ہو اوردوسری طرف عبادت میں شرک کرے ۔
یہ الفاظ لائق توجہ ہیں کہ یہ نہیں کہاکہ وہ عقل نہیں رکھتے . بلکہ یہ کہاہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے . یعنی عقل ہے تو سہی مگراس سے کام نہیں لیتے ۔
اور اس غرض سے کہ ان (مشرکین ) کے خیالات و افکار کواس محدود زندگی کے افق سے بلند کرے اوران کی عقول کے سامنے ایک واسیع ترین عالم کامنظر پیش کرے ، خدا اس کے بعد کی آیت میں اس دنیا کی زندگی کی کیفیت کو سرائے آخرت کی حیات جاودان کے مقابلے میں ایک بلیغ اورپر معنی عبارت میں اس طرح بیان کرتاہے : اس دنیاکی زندگی لہوو لعب کے سوا کچھ نہیں ہے .اس زندگی میں کھیل کود اور لایعنی مشاغل کے سوا اور کوئی مقصد نہیں : ( و ما ھذہ الحیوة الدنیا الا لھولعب ) ۔
حقیقی زندگی دار آخرت ہی کی ہے . کاش کہ وہ لوگ اس بات کوجانتے ؛ ( وان الدارا لاخرة لھی الحیوان لو کانوا یعلمون ) ۔
یہ الفاظ کتنے جاذب اورمئوثر ہیں . کیونکہ ” لھو“ کے معنی ایساہر مشغلہ اورایسا ہر کام ہے جو انسان کوزندگی کے بنیاد ی مسائل سے منحرف کردیتا ہے اور ” لعب “ خیالی مقصد کے لیے خیال پلاؤ پکانے کو کہتے ہیں . کھیل کوبھی لعب کہتے ہیں ۔
جب بچّے کو ئی کھیل کھیلتے ہیں توان میں س ے ایک بادشاہ بنتا ہے ،دوسراوزیر بنتا ہے ، تیسراسپہ سالا ر ِ فوج بنتا ہے .کوئی ان میں قافلہ سالار بنتا ہے اوکوئی راہ زن بنتا ہے . جنگ کے بعد جب کھیل ختم ہو جاتا ہے تویہ تمام عہدے خواب و خیال بن کررہ جاتے ہیں ۔
قرآن کہتاہے کہ دنیا کی زندگی ایک قسم کامش.علیہ السلام غلہ اور کھیل ہے .اس دنیا میں لوگ جمع ہوتے ہیں . اپنے اپنے تصور ات سے دل لگاتے ہیں ، چند روز کے بعد پراگندہ ہو جاتے ہیں .پھر زیرخاک پنہاں ہوجاتے ہیں .ا س کے بعدان کی زندگی اوران کے مشاغل کے متعلق لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔
لیکن حقیقی زندگی جس کو نہ فناہے ، نہ اس میں درد و رنج ہے ، نہ خوف و اضطراب ہے اور نہ تضاد وتزاھم ہے وہ حیات ِ آخرت ہی ہے . مگر ... کاش کہ انسان اس حقیقت کوجانے اور نظر دقیق اور تحقیق سے کام لے ۔
جو لوگ کہ اس دنیا سے دل لگاتے ہیں اوراس کی ظاہر ی سج دھج پرفریفتہ ہوجاتے ہیں وہ بچوں کی طرح ہیں . خواہ ان کی عمر کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو ۔
ضمنا یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کلمہ ” حیوان “ ( بروزن ” ضربان “ ) بہت سے مفسرین اوراہل لغت کے نزدیک بمعنی ” حیات “ کامفہوم رکھتاہے . ( معنی مصدری رکھتاہے (۱) ۔
آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ سرائے آخرت ہی عین حیات ہے .گویا اس میں ہرطرف سے زندگی کے چشمے پھوٹتے ہیں . وہاں بجز زندگی کچھ اورنہیں ہے ۔
یہ بد یہی ہے کہ قرآن کاہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ خداحیات ِ سرائے آخر ت کے ذکرسے ان نعمات کی قدر کم کرے جواس نے اپنے بندوں کو اس دنیا میں عنایب کی ہیں .بلکہ اس موازنہ سے مقصود صرف یہ ہے کہ خداانسان کے سامنے دو نوں جہان کی زندگیوں کی قدر وحیثیت کو پیش کرنا چاہتا ہے . علاوہ بریں یہ بھی پیش نظر ہے کہ وہ انسان کو متنبہ کرے کہ وہ ان نعمات دنیاوی کااسیر نہ ہو جائے بلکہ ان کاحاکم ہو اور اپنی شخصیت کے جواہر اصلی کوان کے عوض ضائع نہ کردے ۔
تیسرے مرحلے میں انسان کی فطر ت و سرشت کابیان ہے اور یہ فرمایاگیا ہے کہ بحرانی ترین حالات میں انسان کے دل میں نور توحید چمکنے لگتا ہے .اس حقیقت کو ایک نہایت ہی واضح مثال سے روشن کیاگیا اہے ۔
جس وقت وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں توخداکو اخلاص کامل سے یاد کرتے ہیں . اس وقت غیر خداان کے ذہن سے قطعی محو ہو جاتا ہے .لیکن جب خدا انہیںطوفان اور گرداب سے رہائی بخش دیتاہے .اور بسلامت خشکی پرپہنچا دیتا ہے تووہ پھر مشرک ہوجاتے ہیں : ( فاذا رکبوافی الفلک دعوااللہ مخلصین لہ الدین فلما نجاھم الی البراذاھم یشرکون ) ۔
یہ درست ہے کہ شدائد زندگی اورطوفان حوادث ہی میں انسان کی فطرت کے جوہر کھلتے ہیں . کیونکہ ہر انسان کی روح میں توحید کانور چھپاہوا ہے مگر معاشرت کے لایعنی آداب ورسوم ، غلط تربیت اورشرّ و فساد آگیں تعلیم اس پر پردہ ڈال دیتی ہے .مگر جب ہر طرف سے مصیبتوں کے طوفان اٹھتے ہیں اورانسان مشکلات کے گرداب میں پھنس جاتاہے تو پھر وہ تمام وسائل ظاہر ی سے دست کش ہوجاتا ہے . پھر اس کی فطرت اسے مادرائی عالم کی طرف متوجہ کرتی ہے . اس وقت اس کے دل سے شرک آلودہ خیالات محوہوجاتے ہیں اور وہ ان حوادث کی بھٹی میں تپ کر بہ مصداق ” مخلصین لہ الدین “ ہر کھوٹ سے صاف ہو جاتا ہے ۔
خلاصہٴ گفتگو یہ ہے کہ انسان کے قلب میں ایک نقط نورانی موجو د ہے . جس کاتعلق اس عالم سے ہے جو جہان مادیسے ماو راء ہے اورذات الہٰی سے اس کا نزدیک ترین ربط ہے ۔
غلط تعلیمات ،غفلت و غرور بالخصوص ہر جہت سے سلامتی اور فراوانی ٴ دولت کی حالت میں اس نقطہٴ نورانی پر پردے پڑجاتے ہیں مگر حوادث کے طوفان ان پر پردہ کو چاک کردیتے ہیں ، غفلت کی گرد جھڑ جاتی ہے اورنقطہ نورانی پھر چمکنے لگتا ہے ۔
عظیم ہادیان اسلام منکرین خداکو اسی طریقہ سے راہ راست پر لاتے تھے ۔
ہم سب نے اس شکی کی داستان سنی ہے جومعرفت الہٰی کے معاملہ میں سخت شک میں مبتلا تھا اور امام جعفرصادق علیہ السلام نے اسی لاشعور جذبے کے حوالے سے اس کو ہدایت فرمائی . اس آدمی نے امام کی خدمت میں عرض کی :
یابن رسول اللہ دلنی علی اللہ ماھو ؟ فقد اکثر علی المجادلون و حیرونی فقال لہ الامام (ع) : یا عبداللہ ! ھل رکبت سفینة قط ؟
قال : نعم
قال : فھل کسربک حیث لاسفینة تنجیک ولا سباحة تغنیک ؟
قال : نعم
قال : فھل تعلق قلبک ھنالک ان شیئامنالاشیاء فادرعلی ان یخلصک من ورطتک ؟
قال : نعم
قال الصادق (ع) : فذالک الشی ء ھواللہ القادر علی الانجاء حیث لامنبحی ،و علی الا غاثة حیث لا مغیت

اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آ پ میری رہنمائی فرمائیں کہ خداکون ہے ؟ کیونکہ مجھے ایک عظیم و سوسہ نے حیران کردیاہے ۔
امام ( ع) نے فرمایا : اے بندہٴ خدا ! کیاتوکبھی کشتی میں س وار ہواہے ؟
اس نے دعرض کیا : ہاں ۔
آ پ ( ع) نے فرمایا : کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تیری کشتی ایسی جگہ ٹوٹی ہو کہ وہاں تجھے بچانے کے لیے کوئی کشتی موجود نہ ہو اور توتیربھی نہ سکتا ہو ؟
اس نے عرض کیا : ہاں
آپ (ع) نے فرمایا : کیا اس حالت میں تیرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ کوئی ہستی ایسی ہے جو تجھے اس مصیبت سے بچاسکتی ہے ؟
اس نے عرض کیا : ہاں
امام (ع) نے فرمایا : وہ خدا ہی ہے جو اس حالت میں نجات دینے پر قدرت رکھتا ہے ۔
جب کوئی نجات وہندہ اور فریاد رس نہ ہو (۲) ۔
زیر بحث آیات میں سے آخری آیت میں خد اپرستی او ر توحید باری تعالیٰ پران تمام استد لال کے بعد مخالفین اسلام خستہ کن تہدید شدید کے بعد ،ارشاد خداوند ی ہے : وہ لوگ ہماری آیات کاانکا ر کرتے ہیں اور ہماری عطاکروہ نعمات کے ناشکر گزرار ہیں .وہ چند رو زان زود گز رلذات سے لطف اٹھالیں . لیکن وہ جلد سمجھ جائیں گے کہ کفر و شرک کا نجام کیاہوگا اور وہ انھین کن آفات میں مبتلاکردے گا : ( لیکفروا بمااتینا ھم ولیتمتعوا فسوف یعلمون ) ۔
اگر چہ اس آیت میں کفر او ر انکار آیات کاذکر ہے لیکن یہ بدیہی ہے کہ ان الفاظ کامقصد تہدید ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی جرائم پیشہ انسان سے کہاجائے کہ تم جوگناہ اور جرم بھی ہو سکتا ہے کر لو لیکن اپنے اعمال کانتیجہ جلدہی بھگتو گے ۔
اگر چہ عبارت میں صیغہٴ امر استعمال ہواہے . مگر اس سے کی شے کی طلب مراد نہیں بلکہ تہدید مراد ہے ۔
نیز یہ کہ ” فسوف یعلمون “ مطلق صورت میں آیا ہے اور یہ وضاحت نہیں ہے کہ وہ کیاجان لیں گے .صرف اتنا کہاہے کہ وہ جلد جان لیں گے ۔
یہ شیوہ ٴ کلام صرف اس لیے ہے کہ اس کامفہوم جتنا بھی زیادہ وسیع ہوگا ، سننے والے کا ذہن کسی حد میں محدود نہ رہے گا . بد اعمالیوں کانتیجہ عذاب الہٰی ، دونو ں جہان میں ر سوائی اور ہر قسم کی بدبختی ہے ۔
سختیوں میں فطرت انسان کے جوہر کھلتے ہیں :
ہم ان شاء اللہ سورہ ٴ روم کی آیت ۳۰ کے ذیل میں اصل توحید و خدا شناسی کے امر فطری ہونے کے متعلق تفصیل سے بحث کریں گے ۔
اس مقام پر جس بات کاذکر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں زندگی کی مشکلات اورسختیوں کاذکر اس عنوان سے کیاگیا ہے کہ وہ انسان کی اس فطرت کے ظہور کاوسیلہ بن جاتی ہیں ۔
ایک مقام پر فرمایاگیا ہے :
وما یکم من نعمة فمن اللہ ثم اذا مسکم الضرّ فالیہ تجرٴون ثم اذا کشف الضرعنکم اذ افریق منکم بر بھم یشرکون
تمہارے پاس جتنی بھی نعمات ہیں وہ سب خداکی عطاکردہ ہیں اورجب تم پر کوئی بلانازل ہوتی ہے توتم اس کی درگاہ میں فر یاد کرتے ہو .مگر جب خداوہ بلاتم سے ٹال دیتاہے توتم میں سے ایک گروہ پھر مشرک ہوجاتا ہے ( نحل . ۵۳ .۵۴) ۔
سورہ یونس میں یہ بات ایک اورطرح بیان ہوئی ہے :
واذا مس الانسان الضردعانالجنمبہ او قاعد ااو قائم. فلما کشفنا عنہ ضرہ مرکان لم یدعناالی ضرمسہ
جب انسان کومصیبت آلیتی ہے توسونے ،بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی حالت میں ہمیں پکارتا ہے .لیکن جب ہم وہ مشکل دور کردیتے ہیں تووہ اپنی پہلی غفلت میں جاپڑ تاہے ... گویاکہ اس نے اپنی مشکل کے حل کے لیے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ( یونس .۱۲) ۔
ہم نے آیات زیر بحث میں بھی یہ پڑھاہے کہ مشرکین کایہ گروہ جب ان کے دل نجاست کفرسے آلودہ ہوتے ہیں ، تو بتوں کے پاس جاتا ہے ،مگر جب یہ سمندر سفرپر روانہ ہوتے ہیں اور وہاں انھیں طوفان ،بھنور اور مخالف ہوائیں گھیر لیتی ہیں اوران کی کشتیاں سطح امواج پرگھاس کے تنکے کی طرح حرکت کرنے لگتی ہیں اوروہ ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں توان کے قلب میںنور توحید چمکنے لگتا ہے اور تمام خود ساختہ معبود غائب ہوجاتے ہیں .اس وقت ان کے دل میں ” خلوص کامل “ پیدا ہوتا ہے ( مگر یہ خلوص مجبور ا پیدا ہوتا ہے اوربے قدر ہوتاہے ) ۔
لیکن جیسے ہی طوفان ٹل جاتاہے اورحالات پھر معتدل ہوجاتے ہیں توان کے دل پر پھر پردے پڑ جاتے ہیں اور کل توحید کے اطراف میں شرک اور بت پرستی کے کانٹے اگ آتے ہیں ۔
ممکن ہے کہ کفار دکی اس قلبی کیفیت کے لیے عذر پیش کیاجائے کہ ان کی یہ حالت شعور میں ان تہہ نشین خیالات اوران اثر ات کی وجہ سے ہے ، جو انھوں نے اپنے معاشرے اورتہذیب سے حاصل کرلیے ہیں ۔
مگر یہ عذر اس صورت میں قابل قبول ہو سکتا ہے کہ یہ حالت صرف ان مذہبی لوگوں کی ہوتی جو مذہبی ماحول میں رہتے ہیں لیکن تجربہ یہ ہے کہ غیر مذہبی معاشرے میں س خت ترین منکرین خداکی بھی یہی حالت ہوتی ہے .اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ نور توحید کاراز کہیں اور مخفی ہے . یعنی وہ انسان کے لاشعور اوراس کی فطرت و سرشت میں داخل ہے
۱۔ یہ کلمہ دراصل ”حی “ سے ماخوذ ہے اور ” حییان “ تھا . حرف یا ” واؤ “ سے تبدیل ہو گیا اور ” حیوان “ ہو گیا ۔
۲ ۔ بحار الانوار جلد ۳ طبع جدید صفحہ ۴۱۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma