پیچھے رہ جانے والے آ مادہ ٔ طلب!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

اکثر مفسر ین کا نظر یہ یہ ہے کہ یہ آ یات فتح خیبر کے بارے میں ہیں ،جوصلح حدیبیہ کے بعد اورہجرت کے ساتویں سال کے شروع میں واقع ہوئی ۔
اس کی وضاحت اس طر ح ہے کہ : روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر حدیبیہ سے پلٹ رہے تھے تو حکمِ خداسے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو فتح خیبر کی بشارت دی ،اورتصریح فرمائی کہ اس جنگ میںصرف وہی شرکت کریں گے ،اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انہیں کے ساتھ مخصوص ہوگا ،تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا ۔
لیکن جو نہی ان ڈ رپوک دُنیا پرستوں نے قرآن سے یہ سمجھ لیاکہ پیغمبر اس جنگ میں جوانہیں درپیش ہے یقینی طورپر کامیاب ہوں گے اور سپاہ اسلام کوبہت سامالِ غنیمت ہاتھ آ ئے گا ، تو وقت سے فائدہ اُٹھا تے ہُوئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہُوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاہی اور شاید اس عذر کوبھی ساتھ لیا کہ ہم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنی ، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ہلکاکرنے ، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام وقرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لیے یہ چاہتے ہیں کہ ہم میدان جہاد میں آپ کے ساتھ شر کت کریں ! وہ اس بات سے غافل تھے کہ قرآنی آ یات پہلے ہی نازل ہوچکی تھی اوران کے راز کوفاش کرچکی تھی ،جیساکہ پہلی زیر بحث آ یت میں بیان ہواہے ۔
جس وقت تم کچُھ غنیمت حاصل کرنے کے لیے چلوگے تو اس وقت پیچھے رہ جانے والے کہیں گے : ہمیں بھی اپنے ہاتھ چلنے کی اجازت دیں اور جہاد میں شرکت کرنے کاشرف بخشیں ! (سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ ِذَا انْطَلَقْتُمْ ِلی مَغانِمَ لِتَأْخُذُوہا ذَرُونا نَتَّبِعْکُم) ۔
نہ صرف اسی موقع پر بلکہ دوسرے موقعوں پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ : یہ تن پردر ،لالچی ، کم تکلیف اٹھانے والے ، ترلقموں کے پیچھے توجاتے ،لیکن سخت خطرناک او ر دور دراز کے میدانوں سے گریز کرتے تھے ، جیساکہ سورۂ توبہ کی آ یت ٢ ٤ میں بیان ہوا ہے ، جس وقت کوئی غنیمت نزدیک اور سفرسہل اور آسان ہوتواس وقت تو یہ تیری پیروی کرتے ہیں ، لیکن ( اب جبکہ میدان تبوک کے لیے ) راستہ دُور اور پُر مشقت ہے تو رو گردانی کررہے ہیں اور عنقریب وہ قسم کھاکر کہیں گے : کہ اگرہم میں تاب و تواں ہوتی توہم بھی تمہارے ساتھ چلتے :(لَوْ کانَ عَرَضاً قَریباً وَ سَفَراً قاصِداً لاَتَّبَعُوکَ وَ لکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّةُ وَ سَیَحْلِفُونَ بِاللَّہِ لَوِ اسْتَطَعْنا لَخَرَجْنا مَعَکُم) ۔
بہرحال قرآن زیر بحث آ یات میں اس منفعت جواور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتاہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے کلام کوبدل دیں (یُریدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا کَلامَ اللَّہِ) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : ان سے کہہ دے : تم ہر گز ہمارے پیچھے نہ آ نا تمہیں اس میدان میں شرکت کرنے کاحق نہیں ہے : (قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونا ) ۔
یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو میں اپنی طرف سے کہہ رہاہوں . یہ تو وہ بات ہے جو خدا نے پہلے سے ہی کہہ دی ہے اورہمیں تمہارے مستقبل ( کے بارے میں ) باخبر کردیاہے ،(کَذلِکُمْ قالَ اللَّہُ مِنْ قَبْلُ ) ۔
خدا نے حکم دیاہے کہ غنائم خیبر اہل حدیبیہ کے لیے مخصوص ہیں ، اور اس چیزمیں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے ،لیکن یہ بے شرم اور پُرادعا پیچھے رہ جانے والے پھر بھی میدان سے نہیں ہٹتے اور تمہیں حسد کے ساتھ متیہم کرتے ہیں، اور عنقریب وہ یہ کہیں گے : کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ تم ہم سے حسد کررہے ہو (فَسَیَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنا) ۔
اوراس طرح سے وہ ضمنی طورپر پیغمبر کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور جنگ خیبر میں انہیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کوشمار کرتے ہیں ۔
قرآن آخری جملہ میں کہتاہے : لیکن وہ کچھ بھی تو نہیں سمجھتے مگر تھوڑا ( بَلْ کانُوا لا یَفْقَہُونَ ِلاَّ قَلیلاً ) ۔
ہاں ! ان کی تمام بدبختیوں اور شخصی منافع کے سلسلے میں باہوش ، دقیق اور باریک بین تھے ،لیکن اس سے بڑھ کرجہالت اور کہا ہوگی کہ انسان تھوڑ ی سی دولت کے لیے اپنی تمام چیزوں کو بدلے میں دے ڈالے ؟ !
آخر کار پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ، تواریخ کی نقل کے مطابق ، غنائم خیبر صرف اہل حدیبیہ پر تقسیم کیے ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگِ خیبر میں شریک نہ ہوسکے ان کے لیے بھی ایک حِصّہ قرار دیا، البتہ ایساآدمی صرف ایک ہی تھا ، اور وہ جابر بن عبداللہ تھا (١) ۔
اسی بحث کوجاری رکھتے ہُوئے حدیبیہ میں پیچھے رہ جانے والوں سے گفتگو میں ، بعد والی آ یت میں ایک پیش نہاد کرتاہے اوران سامنے بازگشت کی راہ کواس طرح سے کھلی رکھتے ہوئے فرماتاہے : با دیہ نشین اعراب میں سے پیچھے رہ جانے والوں سے کہہ دو: عنقریب تمہیں ایک جنگجو اور طا قتور قوم سے مقابلہ کے لیے نکلنے اوران سے جنگ کرنے کی دعوت دی جائے گی یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں (قُلْ لِلْمُخَلَّفینَ مِنَ الْأَعْرابِ سَتُدْعَوْنَ ِلی قَوْمٍ أُولی بَأْسٍ شَدیدٍ تُقاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُون) ۔
اگرتم اطاعت کرو گے تو خداتمہیں نیک اجر دے گا ، اور اگرتم نے رو گر دانی کی ، جس طرح سے پہلے تم نے رو گردانی کی تھی ، توخدا تمہیں درد ناک عذاب دے گا :( فَِنْ تُطیعُوا یُؤْتِکُمُ اللَّہُ أَجْراً حَسَناً وَ ِنْ تَتَوَلَّوْا کَما تَوَلَّیْتُمْ مِنْ قَبْلُ یُعَذِّبْکُمْ عَذاباً أَلیماً) ۔
اگرتم واقعاً اپنے پہلے عمل سے پشیمان ہوگئے ہو اورراحت طلبی اور دُنیا پرستی سے ہاتھ اُٹھا لیاہے توپھر اپنی صداقت کاامتحان ایک دوسرے سخت اور خوف ناک میدان میں دو ، ورنہ سخت میدانوں سے اجتناب کرنا ،اور راحت وآرام اورصرف غنیمت کے لیے لڑائی کے میدانوں میں شرکت کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے . اور یہ چیز تمہارے نفاق ، ضعف ِ ایمان ، بُز دلی ،اور خوف پر ایک دلیل ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے ان آ یات میں بار بارپیچھے رہ جانے والوں ( مخلّفین ) کاتذ کرہ کیاہے اوراصطلاح کے مطابق ضمیر کے بجائے اسم ظاہر کواستعمال کرتاہے ۔
یہ تعبیر خصوصیت کے ساتھ صیغہ اسم مفعول کی صُورت میں آ ئی ہے ،یعنی پیچھے چھوڑ ے ہوئے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس وقت صاحبِ ایمان مسلمانوں نے اس گروہ کی سُستی اور بہانہ جوئیوں کامشاہد ہ کیا توانہیں پیچھے چھوڑ تے ہُوئے اوران کی حالت وکیفیت کی پر واہ کیے بغیر میدان ِ جہاد کی طرف چل پڑے ۔
لیکن اس بارے میں کہ یہ جوجنگ جُو اورطاقت ور قوم جس کی طرف اس آ یت میں اشارہ ہوا ہے ،کونسی جمعیّت تھی ؟ مفسرین کے درمیان اخلاف ہے ۔
تُقاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُون ( ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں )کاجُملہ اس با ت کی دلیل ہے کہ وہ اہل کتاب نہیں تھے ،کیونکہ انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ، بلکہ انہیں اس بات کااختیار دیاجاتاہے کہ یاتو وہ اسلام لے آ ئیں یااہلِ ذمہ کی شرائط قبول کرتے ہُوئے مسلمانوں کے ساتھ صحیح طریقہ سے زندگی گزاریںاور جز یہ دیتے رہیں ،صرف مشرکین اور بُت پرستی ترک کرنے کے لیئے مجبور کرناجائز ہے ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زمانہ ٔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)میں واقعہ حدیبیہ اور فتح خیبر کے بعد مشرکین کے ساتھ اہم جنگ سوائے فتح مکہ اور جنگ حنین کے اور کوئی نہیں تھی ۔
لہٰذا اوپر والی آ یت انہیں کی طرف اشارہ ہوسکتی ہے ،خصوصاً جنگ حنین جس میںقبیلہ ہوازن اور بنی سعد کی سخت کوشش اورجنگ جُوقوم کے لوگ شریک تھے ۔
لیکن بعض نے جو یہ احتمال دیاہے کہ یہ عزوہ ٔ موتہ کی طرف اشارہ ہے جو رومیوں کے ساتھ انجام پائی تھی ،تو یہ بات بعید نظر آ تی ہے کیونکہ وہ تواہل کتاب تھے ۔
اور یہ احتمال کہ اس سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بعد کی جنگیںمراد ہیں ،جن میں سے اہل فارس و یمامہ کی جنگیں ہیں ، تویہ بات بہت ہی زیادہ بعید ہے ،کیونکہ آ یات کالب ولہجہ یہ بتا تاہے ، کہ یہ مسئلہ زمانہ پیغمبر کے ساتھ مربوط ہے ، اورہمارے لیے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اسے زمانہ پیغمبر سے بعد کی جنگوں پر منطبق کریں ۔
ظاہر ایساہوتاہے کہ بعض مفسرین کی فکر ونظر میں کُچھ سیاسی اسباب تھے جن کی وجہ سے انہوں نے اس مسئلہ پر زور دیاہے ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ان سے وعدہ نہیں کرتے کہ تمہاری آ ئندہ کی جنگوں میں تمہیں کچھ مال غنیمت ملے گا ، کیونکہ جہادکامقصد غنیمت کاحصول نہیں ہے ، بلکہ وہ صرف یہ بتانا ہی کافی سمجھتاہے کہ خدا تمہیں اچھا اجر دے گااور عام طورپر یہ تعبیر آخرت کے اجر کے بارے میں ہے ۔
یہاں پرایک سوال سامنے آ تاہے اور وہ یہ ہے کہ سورۂ توبہ کی آ یہ ٨٣ میں ان نامحروموں کو کلی طورپر رد کرتے ہُوئے کہتاہے :فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِیَ أَبَداً وَ لَنْ تُقاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّا ِنَّکُمْ رَضیتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفین تم ہرگز کسی جنگ میں بھی میرے ساتھ باہر نہیں نکلوگے اور تم میرے ساتھ رہ کر دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے مجاز نہیں ہو، کیونکہ تم پہلی مرتبہ بھی جنگ سے کنارہ کشی پر راضی ہوگئے تھے ،اب بھی تم پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو ۔
در حالیکہ زیر بحث آ یت انہیں ایک اور سخت اور خطرناک میدان میں جنگ کی دعوت دے رہی ہے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ سُورہ ٔ تو بہ کی آ یت تو جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ میربوط ہے ، کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم )اُن سے قطع امید کرچکے تھے اور زیر بحث آ یت حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میںگفتگو کررہی ہے کہ ابھی تک ان کی طرف سے امید منقطع نہیں ہو ئی تھی، .اس سوال کاجواب واضح ہوجاتاہے :
اور چونکہ پیچھے رہ جانے والوں کے درمیان ایسے افراد بھی تھے جوکسی عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی بناء پر واقعاً جہاد میں شرکت کی قدرت نہیں رکھتے تھے ، لہٰذا ان کاحق یہاںنظر انداز نہیں ہوناچاہیئے ، اس لیے آخری زیر بحث آ یت میں ان کے معذ ور ہونے کوواضح کرتاہے ۔
خاص طورپر یہ بات جوبعض مفسرین نے نقل کی ہے کہ گذ شتہ آ یت کے نزول اور پیچھے رہ جانے والوں کو عذاب ِ الیم کی دھکمی دینے کے بعد معذ وروںاور بیماروں کی ایک جماعت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا: اے خداکے رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اس حالت میں ہماری ذمہ داری کیاہے ؟ اس موقع پر یہ آ یت نازل ہوئی ،اوران کے لیے اس طرح حکم بیان کیا: نابینا ،لنگڑ ے اوربیمار پرکوئی گناہ نہیں ہے ، اگروہ میدان جہاد میں شرکت نہ کریں (لَیْسَ عَلَی الْأَعْمی حَرَج وَ لا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَج وَ لا عَلَی الْمَریضِ حَرَج ) ۔
صرف جہاد ہی نہیں ہے کہ جو قدرت و توانائی کے ساتھ مشروط ہے بلکہ تمام شرعی ذمہ داریاں عمومی شرائط کے ایک سلسلہ کے ساتھ مشروط ہیں،جن میں سے ایک توانائی اورقدرت ہے اور آ یات ِ قرآن میں بار ہا اس معنی کی طرف اشارہ ہواہے ، سورۂ بقرہ کی آ یت ٢٨٦ میں ایک کُلیہ کی صورت میں اس طرح بیان ہواہے : (لا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْساً ِلاَّ وُسْعَہا) خدا کسی شخص کواس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔
یہ شرط منقول دلیلوں سے بھی ثابت ہے اورعقلی دلیلوںسے بھی ۔
لیکن یہ گروہ اگرچہ میدانِ جہاد میں شرکت سے معاف رکھاگیاہے ،مگر انہیں بھی اپنے مقدور بھر قوائے اسلام کو طاقت پہنچانے اور اہداف الہٰی کوآگے بڑ ھانے کے لیے کوشش کرنی چاہیئے،جیساکہ سورۂ توبہ کی آ یت ٩١ میں بیان ہواہے:(لَیْسَ عَلَی الضُّعَفاء ِ وَ لا عَلَی الْمَرْضی وَ لا عَلَی الَّذینَ لا یَجِدُونَ ما یُنْفِقُونَ حَرَج ِذا نَصَحُوا لِلَّہِ وَ رَسُولِہِ ) کمزوروں، بیماروں اور ان لوگوں پر جو (جہاد کے لیے )کچھ خرچ کرنے کابھی ذ ریعہ نہیں رکھتے ، کوئی گناہ نہیں ہے،( کہ وہ میدان میں حاضر نہ ہوں )مگر شرط یہ ہے کہ وہ خدااور اس کے رسول سے خیر خواہی کریں ۔
یعنی اگروہ ہاتھ سے کوئی کام انجام دینے پرقادر نہیں ہیں ، تو حسب مقدو ر زبان سے تو گریز نہ کریں ، اور یہ ایک عمدہ تعبیر ہے جواس ب ات کی نشاندہی کرتی ہے ، کہ جوشخص توانائی رکھتاہے ، اتنی فرو گذاشت نہ کرے ،ددوسروں لفظوں میں اگر کوئی محاذِجنگ میں شرکت نہیں کرسکتا توکم ازکم محاذ کی پشت کوہی مظبُوط کرے ۔
اور شاید زیر بحث آ یت کاآخری جُملہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہو ، جس میں فرماتاہے : جوشخص خداا وراس کے رسُول کی اطاعت کرے گا وہ اس کوبہشت کے اُن باغات میں داخل کرے گا،جس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں،اور جوشخص رو گرانی کرے گا وہ اُسے درد ناک عذاب میں گرفتار کرے گا (وَ مَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ وَ مَنْ یَتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذاباً أَلیماً ) ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ جن مواقع پرکسی حکم میں کوئی استثنا ء ہوتاہے توکچھ لوگ غلط فائدہ اٹھاتے ہُوئے اپنے آپ کو معذ و روم کی صف میں کھڑاکرلیتے ہیں ،توقرآن انہیں خبر دار کرتے ہوئے کہتاہے کہ اگروہ واقعاًوہ معذور نہ ہُوئے تووہ درد ناک عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔
یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ معذ ور ہونے ،نابینا ، لنگڑ ے اور سخت بیماروں کامسئلہ جبار ہی کے لیے مخصوص ہے لیکن دفاع کے مسئلہ میں ہر شخص کومقدور بھر کیان اسلام ، وطنِ اسلامی اورجان کادفاع کرناچاہیئے اوراس سلسلہ میں کوئی استثناء نہیں ہے ۔
 ١۔ سیرت ابن ہشام ،جلد ٣،صفحہ ٣٦٤۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma