وہ نعمتیں جو اصحاب ِ یمین کوحاصل ہوں گی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
اِن مادّی اورمعنوی نعمتوں کے بیان کے بعد (جومقربین بارگاہِ الہٰی کوحاصل ہوں گی)بات اصحاب الیمین تک جا پہنچی ہے ،وہ سعادت مند جماعت جن کانامۂ اعمال امتحانات الہٰی میں کامیابی کی علامت کے طورپر ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا ،یہاں پروردگار ِ عالماپنی نعمتوں میںسے چھ کی طرف اشارہ کرکے فرماتاہے: مقربین کے لیے جونعمتیں بیان ہوئیں وہ سات تھیں ، یہ چھ ہیں یعنی ایک نعمتکم ہے۔سب سے پہلے ان کے مرتبہ کی بلندی کوبیان کرتے ہوئے فر ماتاہے: اصحاب الیمین ،کیا کہنااصحاب الیمین (ِ وَ أَصْحابُ الْیَمینِ ما أَصْحابُ الْیَمین)(١) ۔
یہ افضل ترین تعریف ہے جوان کی ہوئی ہے کیونکہ ایسی تعبیر ان مواقع پرہوتی ہے ،جب کسِی کے اوصاف بیان سے باہر ہوں ،بہرکیف یہ تعبیر اصحاب الیمین کے بلند مرتبہ کوبیان کرتی ہے ، اس کے بعد کی آ یت اس گروہ کوحاصل ہونے والی پہلی نعمت کواس طرح بیان کرتی ہے کہ وہ ایسے بیر کے درخت کے نیچے جگہ پائیں گے جس میں کانٹے بالکل نہیں ہیں (فی سِدْرٍ مَخْضُودٍ)(٢) ۔
حقیقت میں یہ بہترین تعریف ہے جوجنّت کے درختوں کے لیے ہمارے دُنیا وی الفاظ کے قالب میں ڈھل سکتی ہے سدر بعض اربابِ لغت کے بقول ایک تنا وردرخت ہوتاہے جس کی بلندی بعض اوقات چالیس میٹرتک پہنچ جاتی ہے اور یہ کہا جاتاہے کہ اس کی عمر دوہزار سال تک ہوتی ہے (اس کاسایہ بہت گھنا اورپُرلطف ہوتاہے ) ۔اس درخت میں صرف ایک عیب ہے کہ اس میں کانٹے ہوتے ہیں لیکن مخضود کالفظ خضد کے مادّہ سے ہے ( بروزن مجد) اس کے معنی ہیں کانٹوں کاقطع کردینا۔اس لفظ کے استعمال کے بعد جنّت کے سدر نامی درخت کی یہ مشکل بھی حل ہوگئی ، ایک حدیث میں آیاہے کہ جس وقت قرآن کے بعض الفاظ اصحاب پیغمبرکے لیے مشکل ہوجاتے تووہ کہتے کہ بادیہ نشیں عربوں کے سوالات کی برکت سے پروردگارہم کوفائدہ پہنچاتاہے ۔مختصر یہ کہ ایک دن ایک صحرا نشیں عرب پیغمبرکی خدمت میں آیااورعرض کیااے خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدانے قرآن میں ایک تکلیف پہنچا نے والے درخت کانام لیاہے ،میں نہیں سوچ سکتاتھا کہ جنّت میں اس قسم کادرخت کیسے ہوگا ،فرمایا کونسادرخت ؟اس نے کہا سدر کاکیونکہ اس میں تو کانٹے ہوتے ہیں ۔
پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:کیاخدانے نہیں فرمایا؟ فی سِدْرٍ مَخْضُودٍ اس کامفہوم یہ ہے کہ ان کے کانٹے دُور کردیئے گئے ہیں اور ہرکانٹے کی جگہ پھل لگادیاگیاہے اورپھل بھی ایسا کہ جس میں بہتر قِسم کاغذائی مادّہ ہے جن میں سے ایک دوسرے سے مشابہت نہیں رکھتا (٣) ۔
دوسری نعمت یہ ہے کہ طلح متراکم کے درختوں کے زیرسایہ زندگی بسرکرتے ہیں (وَ طَلْحٍ مَنْضُود) طلح ایک سبز خوش رنگ اورخوشبو دار درخت ہے ،ایک گروہ کاقول ہے کہ وہ کیلے کادرخت ہے جس کے چوڑے سبز اورخُوبصورت پتّے ہوتے ہیں اور اس کاپھل خوش ذائقہ اور شیریں ہوتاہے منضود کامادّہ نضد ہے جس کے معنی تہہ بہ تہہ ہونے کے ہیں ،ممکن ہے کہ یہ تعبیر اس کے پتّوں یاپھلوں کے تہہ بہ تہہ ہونے کی وجہ سے ہو یادونوں کی وجہ سے بعض مفسّرین نے کہاہے کہ یہ درخت پھلوں سے اس طرح لدے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کاتنا اورٹہنیاں پھلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں ، بعض مفسّرین نے کہاہے ، کہ اس امر کے پیش ِنظر کہ ، سدر کے درخت کے پتّے کافی چھوٹے ہوتے ہیں اورکیلے کے پتّے بڑے ہوتے ہیں اور دودرختوں کاذکر جنّت کے تمام درختوں کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے جوان دونوں درختوں کے درمیان قرار پاتے ہیں (٤) ۔
تیسری بہشت کی نعمت کوپروردگارِ عالم اس طرح بیان فرماتاہے: اور طویل وعریض سایہ ( وَ ظِلٍّ مَمْدُود) ۔بعض مفسرین اس سائے کوبین الطلوعین (طلوع فجر سے لے کرطلوع ِآفتاب تک ) کی حالت سے مشابہ قرار دیتے ہیں جب سایہ ہر جگہ کااحاطہ کیے ہوئے ہوتاہے ،مذکورہ معانی ایک حدیث میں جوروضہ کافی میںہے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوئے ہیں (٥) ۔
مقصودکلام یہ ہے کہ سُورج کی گرمی اوراس کی تپش اہل بہشت کوکبھی پریشان نہیں کرے گی ،وہ ہمیشہ پسند یدہ ، محبُوب ،وسیع اوررُوح پرورسائے میں رہیں گے ۔
چوتھے مرحلہ میں جنّت کے پانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے: اہل بہشت آبشار کی مانند پانی (جوخوبصورت اور دلربامنظررکھتاہے)کے پاس رہتے ہیں (وَ ماء ٍ مَسْکُوب) ۔ مسکوب کا مادّہسکب (بروزن کبک ) ہے اس کے اصل معنی گرنے کے ہیں چونکہ آبشار کی صُورت میں پانی کااُوپر کی طرف سے نیچے کی طرف گرنابہترین منظر پیش کرتاہے اوراس کے زمزمے دل کے کانوں کونواز تے ہیں اور اس کامنظر آنکھوں کوفروغ اورروشنی بخشتاہے ۔اس لیے یہ امر جنّت کی ایک نعمت قرار دیاگیاہے اورچونکہ یہ درخت اور آب ِرواںہمیشہ اپنے ہمراہ انواع واقسام کے پھل لیے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے پانچویں نعمت کے بیان میں مزید فرماتاہے: اور فراواں پھل(وَ فاکِہَةٍ کَثیرَةٍ) ۔جونہ کبھی منقطع ہوتے ہیں نہ ممنوع ہوتے ہیں (لا مَقْطُوعَةٍ وَ لا مَمْنُوعَة) ۔جی ہاں وہ پھل اس جہان کے پھلوں کی مانند نہیں ہیں جوصرف اپنی فصل میں آتے ہوں اور سال بھر میں صِرف چند مہینے یاچند ہفتے درختوں پرلگتے ہوں اور یہ بھی نہیں کہ کانٹے ان کے حصول کی راہ میں حائل ہوں اور درخت کی بہت زیادہ بلندی ، جیسے کھجور کے درخت کی بلندی ، بھی ان کے حصول میں مانع نہیں ہے اورخودانسان کے وجود میں کوئی ایسا تقاضا موجود نہیں ہے کہ جوان کے ستعمال سے روکتا ہواور پھر جنّت کااصل میزبان خداوند منّان ہے وہ یااس کے مامور منتظمین نہ کسی قسم کابُخل رکھتے ہیں نہ ان پھلوں کے استعمال کومنع کرتے ہیں ۔ان تمام باتوں کے پیشِ نظر کوئی امر ایسانہیں ہے جوان پھلوں کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ ہو بلکہ صُورت ِ حال یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ بروقت موجود ہے اوراس کے حصُول کی راہ میں جورکاوٹ ہوسکتی ہے وہ ہروقت مفقود ہے ۔
اس کے بعد ایک اورنعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فر ماتاہے : وہ گراں قدر اورہمسربیویاں رکھتے ہیں (وَ فُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ)فرش جمع ہے فراش کی جس کے معنی ہروہ فرش ہے جوبچھا یاجاتاہے اوراسی مناسبت سے کبھی کبھی بطور کنایہ زوج کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے (خواہ مرد ہویاعورت ) ۔اسی بناپر ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقول ہے ۔ (الولد للفراش واللعاھر الحجر) ۔ وہ بچّہ جوشوہر دار عورت سے پیدا ہووہی اس کے گھرانے سے تعلق رکھتاہے اوراگر درمیان میں کوئی ساسق وزنا کارمرد ہو تواس کے حصّہ میں صرف پتھر ہے ۔( اوراس کے نطفہ سے فرزند کے انعقاد کااحتمال قابلِ قبول نہیں ہے ) ۔ بعض مفسّرین نے فرش کو تفسیراس کے حقیقی معنی کے اعتبار سے کی ہے ۔ ( کنائے کے طورپر جومعنی بنتے ہیں انہوں نے اس کو جنت کی حُوروں اوربیویوں کاتذکرہ ہے ۔اس کے بعد جنت کی بیویوں کی اورخصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے: ہم نے انہیں نئی خلقت وآفرینش بخشی ہے (ِنَّا أَنْشَأْناہُنَّ ِنْشاء ً) ۔اس جُملہ سے ممکن ہے اس دنیاکی مومن بیویوں کی طرف اشارہ مقصُود ہو جنہیں خدا قیامت میں نئی خلقت عطاکرے گا اوروہ سب انتہائی شباب کے عالم میں ظاہر وباطنی جمال کے ساتھ جنّت میں داخل ہوں گی اوراگر مُراد حوریں ہوں تو خداان کونئی خلقت عطا کرتے ہوئے اس طرح بنائے گاکہ ضعیفی وناتوانی کاگرد وغبار ان کے دامن ِ حیات کوہرگزنہیں چھُو سکے گا ، یہ بھی ممکن ہے کہ مومن بیویوں اور حُوروں دونوں کی طرف اشارہ ہو ہم نے ان سب کوباکرہ قراردیا ہے (فَجَعَلْناہُنَّ أَبْکاراً) ۔شاید یہ صفت ان کے لیے ہمیشہ باقی رہے جیساکہ بہت سے مفسّرین نے اس کی تصریح کی ہے نیز روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے مرد سے اختلاط کے باوجود ان کی جسمانی کیفیّت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ( ٦) ۔
ان بیویوں ہی کی خصوصیات کے بارے میںمزید فرماتاہے : وہ اپنے شوہروں سے محبت رکھتی ہیں اورخوش گفتار وفصیح ہیں ۔ (عرباً ) عرب کی جمع عروبة (بروزن اظہار ) آشکار اور ظاہر کرنے کے معنی میں ہے جواپنے مرد سے محبت کرتی ہے اورپاکدامن ہوتی ہے ۔ کیونکہ اعراب(بروزن اظہار )آشکار اورظاہر کرنے کے معنی میں ہے ۔ یہ لفظ فصیح اورخوش گفتار ہونے کے معنی میں بھی آ یاہے ۔اس بات کا امکان بھی ہے کہ آ یت میں دونوں معنی موجود ہوں، ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سن ہیں اورظاہری وباطنی خُوبی اورحُسن وجمال میں ایک دوسرے کے مانند ہیں اوران میں سے ہرایک دوسرے سے بہتر ہے (اتراباً ) اتراب جمع ہے ترب کی جو ذہن کے وزن پرہے اوراس کے معنی مثل ومانند کے ہیں ، بعض مفسّرین کے خیال کے مطابق یہ معنی ترائب سے لیے گئے ہیں جوسینے کی ہڈیوں کے پنجر ے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔سینے کی ہڈ یاں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ یہ مشابہت اور برابری ممکن ہے اس وجہ سے ہو کہ ان سب کاسن ِ وسال ان کے شوہروں سے مطابقت رکھتا ہو گا تاکہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کومکّمل طورپر سمجھ سکیں اور ان کی آپس کی زندگی زیادہ لذّت بخش ہوجائے ، اگرچہ بعض اوقات سنِ وسال کافرق ہوتے ہوئے بھی زندگی لذّت بخش ہوتی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات ایسانہیں ہوتا، یاپھر یہ کہ وہ خوبصورتی اورظاہری وباطنی حُسن وجمال میں ایک جیسے ہوں ،مشہور ومعروف تعبیر کے مطابق کہ وہ سب اچھے ہیں اورایک سے ایک بہترہے ۔
اس کے بعد مزید فر ماتاہے : یہ سب نعمتیں اصحاب الیمین کے لیے ہیں ( لِأَصْحابِ الْیَمینِ ) یہ مذ کورہ چھ نعمتوں کے ان کے ساتھ مخصوص ہونے پر دلالت کرتاہے ،مفسّرین کی طرف سے یہ احتمال بھی پیش کیاگیاہے کہ یہ جملہ ( انّا انشأ ناھن انشاء ً ) کے جملہ کی تکمیل ہے ( ٧) ۔
اِس گفتگو کے آخر میں فرماتاہے ان میں سے ایک گروہ پہلی ، اُمّتوں میں سے ہے (ثُلَّة مِنَ الْأَوَّلینَ) اورایک گروہ آخری اقوام میں سے ہے (وَ ثُلَّة مِنَ الْآخِرینَ)ثلة کے معنی پشم کاایک مجتمع ٹکڑا ،اس کے علاوہ یہ اس کثیر جماعت کے لیے بھی بو لاجاتاہے ،جو باہم مِلی جُلی ہو ۔تواس طرح اصحاب الیمین کے عظیم گروہ میں گزشتہ اُمّتوں کے افراد بھی شامل ہیں اوراس میں اُمّت ِاسلامی کے بھی بہت سے ( افراد شامل ہیں، کیونکہ اس اُمّت میں بہت سے صالحین ومومنین موجود ہیں ۔اگرچہ ملّت ِ اسلامی میں ایمان قبول کرنے کے سلسلہ میں سبقت کرنے والے افراد کی تعداد سابقہ اُمّتوں اوران کے انبیاکی کثرت کی وجہ سے ان کے سابقین کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے ،بعض مفسّرین نے کہاہے کہ اصحاب الیمین کے دونوں گروہ اُمّت ِاسلامی میں سے ہیں ، ایک گروہ ان کے اوّلین میں سے ہے اورایک گروہ ان کے آخرین میں سے ہے ،لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح ہے ۔
١۔اس جملہ کی ترکیب اس سورہ کی آ یت ٨ کے ذیل میں گزرچکی ہے ۔
٢۔جار مجرور مقدرعامل سے متعلق ہے اور مجموعہ مبتدائے محذوف کی خبرہے ، تقدیر عبارت اس طرح تھی ( ھم فی سدر مخضود) ۔
٣۔رُوح المعانی ،جلد ٢٧،صفحہ ١٢٠۔درالمنثور جلد ٢ ،صفحہ ١٥٦۔
٤۔فخررازی تفسیر کبیر میں در ذیل آ یہ زیربحث ،جلد ٢٩ صفحہ ١٦٢۔
٥۔روضہ کافی مطابق نقل نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ٢١٦۔
٦۔ رُوح المعانی ،جلد ٢٧ ،صفحہ ١٢٣۔ ضمناً توجہ کرنی چاہیئے کہ اس حالت کا "" فا"" ""تفریح ""کے ساتھ گزشتہ آ یت جو عطف ہواہے ۔
٧۔ پہلی صُورت میں اصحاب الیمین مبتدائے محذوف کی خبرہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے ( ھذہ کلھا لِأَصْحابِ الْیَمینِ ) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہے اور دُوسری صُورت میں جارومجرور انشأ ناھن کے ساتھ متعلق ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma