مُؤ منین ایک دوسرے کے بھائی ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
قرآن یہاں ایک کلی اورعمو می قانون کے عنوان سے ہمیشہ اورہر مقام کے لیے کہتاہے: جس وقت مؤ منین کے دوگروہ آپس میں نزاع کریں اورلڑپڑیں توان کے درمیان صلح کرادو (وَ ِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُما)(١) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اقتتلوا قتال کے مادہ سے جنگ کے معنی میں ہے ،لیکن یہاں قرائن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ ہرقسم کے نزاع اورجھگڑے کوشامل ہے ،چاہے وہ جنگ اورلڑائی تک بھی نہ جاپپہنچے، بعض شانِ نزول جوآیت کے لیے نقل ہُوئے تھے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں ۔
بلکہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر لڑائی جھگڑے اورنزاع کے لیے زمین ہموار ہوجائے ،مثلاً لفظی تکرار اورکھینچاتانی جوخونین نزاعوں کاباعث بن جاتے ہیں،واقع ہوں تو وہاں بھی اصلاح کے لیے اقدام کرنااس آ یت کے مطابق ضروری ہے ،کیونکہ القاء خصوصیت کے طریقے سے اس معنی کواُوپر والی آ یت سے معلو م کیاجاسکتاہے ۔
بہرحال تمام مسلمانوں کے لیے ایک حتمی وظیفہ اورذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کوآپس میںلڑنے جھگڑنے ،نزاع اورخونریزی سے روکیں اورخود کواس سلسلے میں ذمہ دار سمجھیں ،نہ کہ بعض بے خبر لوگوں کی طرح تماشا ئیوں کی صُورت میں ، بے پرواہی کے ساتھ ،اِن مناظر کے قریب سے گزر جائیں ۔
ان مناظر کودیکھنے کے بعد مو منین کی یہ اوّلین ذمہ داری ہے ۔
اس کے بعد دوسری ذمہ داری کواس طرح بیان کرتاہے : اوراگران دونوں میں سے ایک گروہ دوسرے پرتجاوز اورظلم وستم کرے ،اورصلح کی تجویز کوتسلیم نہ کرے، توپھر تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ کہ تم باغی اورظالم گروہ کے ساتھ جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ حکم خداکی طرف پلٹ آئے اورسرتسلیم خم کرے( فَِنْ بَغَتْ ِحْداہُما عَلَی الْأُخْری فَقاتِلُوا الَّتی تَبْغی حَتَّی تَفیء َ ِلی أَمْرِ اللَّہ) ۔
واضح ہے کہ اگر باغی اورظالم گروہ کاخون اس دوران میں بہ جائے تووہ خوداسی کی گردن پرہے اوراصطلاح کے مطابق اسکاخون بد ر اوررایئگاں کیاہے .اگرچہ وہ مسلمان ہی ہوں کیونکہ نزاع دو مسلمان گروہوں کے درمیان پیداہوئی ہے ۔
اس طر ح سے اسلام نے ظلم وستم سے روکنے کو چاہے وہ ظالم کے ساتھ جنگ کرنے کی قیمت پرختم ہولازمی وضروری سمجھا ہے اور عدالت کے اجراکی قیمت کو مسلمانوں کے خون سے بھی بالاتر جاناہے،اور یہ بات اسی صورت میں ہے کہ جب مسئلہ صلح وصفائی کے طریقہ سے حل نہ ہو ۔
اس کے بعد تیسرے حکم کوبیان کرتے ہُوئے کہتاہے؟ اگرظالم لوگ خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرلیں اورصلح کے اسباب فراہم ہوجائیں ،توان دونوں کے درمیان عدالت کے اصول کے مطابق صلح کرادو (فَِنْ فاء َتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُما بِالْعَدْل) ۔
یعنی صرف ظالم گروہ کی قدرت کودرہم برہم کرنے پرقناعت نہ کرو، بلکہ یہ جنگ صلح کے لیے زمین ہموار کرنے اور نزاع اورلڑائی کے عوامل کوجڑ ے کاٹنے کے لیے ایک مقدمہ اورتمہید ہونی چاہیئے ،ورنہ تھوڑے سے بازیادہ زمانہ گز رنے کے ساتھ ، ظالم جب بھی اپنے اندر طاقت و قوت محسوس کرے گاتو لڑنے کے لیے دوبارہ کھڑا ہوجائے گااورنئے سرے سے جھگڑا اورنزاع شروع کردے گا ۔
بعض مفسرین نے بالعدل کی تعبیرسے یہ استفادہ کیاہے کہ اگران دونوں گروہوں کے درمیان کوئی حق پامال ہوا ہے ،یاکوئی خون گرایاگیاہے جولڑائی جھگڑے اورنزاع کے پیداہونے کاسبب بناہے، تواس کی بھی اصلاح ہونی چاہیئے ورنہ ، اصلاح بالعدل نہ ہوگی (٢) ۔
اورچونکہ گروہی میلانات بعض اوقات افراد کوفیصلہ کرتے وقت، دو متخاصم گروہوں میں سے ایک کی طرف مائل کردیتے ہیں اورفیصلہ کرنے والوں کے بے طرفی اورغیر جانب داری کوتوڑ دیتے ہیں ،اس لیے قرآن چوتھے ، اورآخری حکم میں مُسلمانوں کو تنبیہ کر رہاہے کہ، : عدل وانصاف سے کام لیں اورہرقسم کی جانب داری کی نفی کریں ،کیونکہ خداعدالت کرنے والے لوگوں کودوست رکھتاہے( وَ أَقْسِطُوا ِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطین)(٣) ۔
بعد والی آ یت میں اس امرکی تاکید اوراس کی علت بیان کرنے کے لیے مزید کہتاہے:
مو منین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اس لیے تم اپنے دوبھائیوں کے درمیان صلح کرادیاکرو)ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ) ۔
جس طرح تم اپنے دونسبی بھائیوں کے درمیان صلح کرانے میں سعی وکوشش کرتے ہو، اسی طرح دو متخاصم مؤ منین کے درمیان میںصلح کرانے کے لیے سنجیدہ گی اور دو ٹوک طریقہ سے وارد عمل ہواکرو ۔
کتنی پر کشش اورعمدہ تعبیر ہے کہ تمام مو منین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اوران کے درمیان جھگڑے اورنزاع کودو بھائیوں کے درمیان نزاع کانام دیا،جسے بہت جلدصلح وصفائی کواپنی جگہ دینی چاہیئے ۔
اورچونکہ اکثر اوقات روابط اس قسم کے مسائل میں ضوابط کے جانشین بن جاتے ہیں،لہذا دو بارہ خبردار کرتے ہُوئے آ یت کے آخرمیں مزید کہتاہے ، : خداکاتقویٰ اختیار کرو ،تاکہ اس کی رحمت میں شامل ہوجاؤ (وَ اتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون) ۔
اوراس طرح سے مسلمانوں کی ایک دوسرے کے لیے ایک اہم ترین اجتماعی ذمہ داری اجتماعی عدالت کے تمام پہلو ؤ ں کے ساتھ بوقت اجراء واضح ہوجائے ۔

١۔باوجود اس کے کہ طائفتان تثنیہ ہے ،لیکن اس کافعل اقتتلوا جمع کی صُورت میں آ یاہے،کیونکہ ہرگروہ ایک مجموعہ سے مرکب ہے ۔
٢۔ تفسیر المیزان جلد ١٨ صفحہ ٣٤٣۔
٣۔ مقسطین قسط کے مادہ سے ہے .اوروہ اصل میں عادلانہ حِصّہ کے معنی میں ہے ، اورجس وقت ثلاثی مجرد کے فعل کی صورت میں میں استعمال ہوتاہے،( قسط بروزن ضرب) تو ظلم کرنے اور دوسرے سے عادلانہ حصّہ لینے کے معنی میں ہوتاہے، لیکن جب ثلاثی مزید کی صورت استعمال ہواور اقسط کہاجائے توعدالت اورہرشخص کواس کاعادلانہ حصّہ دینے کے معنی میں ہے اس بارے میں کیاعدل وقسط کاایک ہی معنی ہے یایہ آ پس میں فرق رکھتے ہیں، ہم اس کی تشریح جلد ٦،(صورہ اعراف کی آ یت ٢٩ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma