٢۔تقویٰ کی حقیقت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
جیساکہ ہم دیکھے چکے ہیں، قرآن نے تقویٰ کوعظیم امتیاز قرار دیاہے اور صرف اسی کوانسانوں کی قدرو منزلت کے ناپنے کامعیار سمجھاہے ۔
ایک دوسری جگہ تقویٰ کوبہترین زادراہ اور تو شہ شمار کیاہے اورکہتاہے وَ تَزَوَّدُوا فَِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوی ( بقرہ ۔١٩٧) ۔
ایک اور جگہ تقویٰ کے لباس کوانسان کے لیے بہترین شمارکر تاہے وَ لِباسُ التَّقْوی ذلِکَ خَیْر ( اعراف۔٢٦) ۔
متعد د آ یات میں ، انبیاء کی دعوت کے ابتدائی اصولوں میں سے ایک کو تقویٰ کہاہے اورآخر میں ایک اورجگہ اس موضوع کی اہمیت کواس حد تک اور پر ے کیاہے کہ خداکو اصل تقویٰ شمار کرتے ہُوئے کہتاہے : ہُوَ أَہْلُ التَّقْوی وَ أَہْلُ الْمَغْفِرَة (مدثر۔ ٥٦) ۔
قرآن تقویٰ کونورالہٰی سمجھتاہے کہ جہاں وہ راسخ ہوجائے علم و دانش کی تخلیق کرتاہے :وَ اتَّقُوا اللَّہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللَّہ (بقرہ ۔ ٢٨٢) ۔
اور نیکی و تقویٰ کوایک دوسرے کو قرین شمارکرتاہے: وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی (مائدہ ۔ ٢) ۔
اور عدالت کوتقویٰ کاقرین کہتاہے: اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوی ( مائدہ ۔ ٨) ۔
اب دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس عظیم معنوی سرمایے اور اس عظیم ترین انسانی افتخار یعنی تقویٰ کی ان تمام امتیاز ات کے ساتھ حقیقت کیاہے؟
قرآن نے کچھ ایسے اشارے بیان کیے ہیں جو تقویٰ کی حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہیں، متعد د آ یات میں تقویٰ کی جگہ قلب کوشمارکیا ہے، ان میں ایک جگہ کہتاہے:
أُولئِکَ الَّذینَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوی وہ لوگ جورسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے اپنی آواز یں دھیمی رکھتے ہیں اورادب کی رعایت کرتے ہیں ،وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں کاتقویٰ کے قبول کرنے کے لیے خدانے امتحان لے لیاہے ( حجرات۔٣) ۔
قرآن نے تقویٰ کو فجور کامقابل قرار دیاہے جیساکہ سورۂ شمس کی آ یہ ٨ میں بیان ہوا: (فَأَلْہَمَہا فُجُورَہا وَ تَقْواہا) خدانے انسان کوپیداکیاہے، اوراس کوفجور اور تقویٰ کی راہ دکھادی ۔
قرآن ہراس عمل کو،جس نے رُوح اخلاص وایمان یعنی نیک و پاکیز ہ نیت سے سرچشمہ حاصل کیاہو، تقویٰ کی بنیاد پرشمار کرتاہے، جیساکہ سورۂ توبہ کی آ یت ١٠٨ میں مسجد قبا کے بارے جس کے مقابلہ میں مسجد ضرار بنائی گئی تھی .فرماتاہے:
لَمَسْجِد أُسِّسَ عَلَی التَّقْوی مِنْ أَوَّلِ یَو م أَحَقُّ أَنْ تَقُو م فیہ وہ مسجد جوپہلے دن سے ہی تقویٰ کی بنیادپر بنی ہے ،ز یادہ حق رکھتی ہے کہ تو اسی میں نماز پڑھے ۔
ان آیا ت کے مجمُوعہ سے اچھی طرح معلو م ہوجاتاہے کہ تقویٰ وہی مسئولیت اورذمہ داری کااحساس ہے، جودل میں ایمان کے راسخ ہوجانے کے بعدا نسانی وجود پرحکو مت کرتاہے، اوراس کو فسق وفجور اور گناہ سے باز رکھتاہے اور نیکی و پاکی وعدالت کی طرف دعوت دیتاہے،انسان کے اعمال کوخالص اوراحن کی فکرونیت کوآلودگیوں سے صاف کرتاہے ۔
جب ہم اس لفظ کی لغوی اصل وبنیاد کی طرف لوٹتے ہیں، تو پھر بھی ہم اسی نتیجہ پرپہنچتے ہیں ،کیونکہ تقویٰ وقایة سے کسی چیزکی حفاظت و نگہداری میں کوشش کرنے کے معنی میں ہے اوراس قسم کے مواقع پرمراد ، روح وجان کی ہرقسم کی آلودگی سے حفاظت،اور ایسے امور میں جن میں خدا کی رضا ہو اپنی قدرتوں کو ایک مرکز پرلاناہے۔
بعض بزرگوں نے تقویٰ کے لیے تین مراحل بیان کیے ۔
١۔ صحیح اعتقادات کی تحصیل کے ذریعہ عذاب جاودانی سے نفس دکو محفوظ رکھنا ۔
٢۔ ہرقسم کے گناہ سے پرہیز کرنا چاہے وہ ترک واجب ہویافعل معصیّت۔
٣۔ اپنے آپ کو ہراس چیز سے بچانا جوانسان کے دل کواپنی طرف مشغول رکھتی ہے، اورحق سے منحرف کرتی ہے، اور یہ خواص بلکہ خاص الخاص لوگوں کاتقویٰ ہے ( ۱) ۔
امیر المو منین علی علیہ السلام نے (نہج البلاغہ )میں تقویٰ کے سلسلہ میں کئی منہ بولتی اورزندہ تعبیریں بیان فرمائی ہیں. اورتقویٰ ان مسائل میں سے ہے جس میں حضرت کے بہت سے خطبوں ، خطوط اورکلمات قصار میں تکیہ ہواہے ۔
ایک جگہ تقویٰ کاگناہ اورآلودگی سے موازنہ کرتے ہُوئے اس طرح فر ماتے ہیں ۔
الا وان الخطایاخیل شمس حمل علیھا اھلھا، وخلعت لجعھا، فتفحمت بھم فی النّار !الاوان التقوی مطایا ذلل حمل علیھا اھلھا، واعطوا از متھا فاورد تھم الجنة !:
جان لوکہ گناہ سرکش سواریوں کے مانند ہیں ، جن پر گنہگارسوار ہوتے ہیںاورجن کی لگا میں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں ۔اوروہ ان کوتعرجہنم میں لے جاکر سر کے بل ٹپک دیتی ہیں لیکن تقویٰ ایسی آرام وہ اورسبک رفتار سواری ہے جن کے مالک ان پر سوار ہوتے ہیں ، توان کی لگا میں ہاتھ میں لیے ہوتے ہیں، اور وہ انہیں بہشت کے وسط میں لے جاکر داخل کردیتی ہے (۲) ۔
اس لطیف تشبیہ کے مطابق ، تقویٰ وہی اپنے آپ کو بچائے ،نفس پرکنڑول کرنے ، اور شہوات پرتسلط کی حالت ہے درحالیکہ تقویٰ کا نہ ہونا، سرکش شہوات کے مقابلے میں سر تسلیم خم ہونا، اوران پر ہرقسم کے کنڑول کاختم ہوجاناہے۔
ایک اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:
اعلمواعباداللہ ان التقوی دار حصن عزیز، والفجور دار حصن ذلیل، لا یمنع اھلہ ، ولایحرزمن لجاًالیہ ، الا وبالتقوی تقطع حمة الخطایا:
اے بندگانِ خدا، جان لوکہ تقویٰ ایک مستحکم او شکست ناپذیر قلعہ ہے ، لیکن فسق وفجور اور گناہ ایک کمزور اور بے وفاع حصار ہے ، جواپنے اہل کوآفات وبلیات سے نجات نہیں دیتا، اورجوشخص اس کی پناہ لے گا وہ امان میں نہیں ہے، جان لو کہ انسان صرف تقویٰ کے ذریعہ ہی گناہ کی گزند سے بچ سکتاہے (۳) ۔
ایک اورمقام پرمزید فرماتے ہیں:
فا عتصموا بتقوی اللہ فان لھا ، حبلاً وثیقاً عروتہ و معقلامنیعاذ روتہ۔
تقویٰ الہٰی کو مضبُوطی کے ساتھ تھام لو کیونکہ وہ ایک محکم رشتہ اورعروة الوثقی ہے ،اورایک قابلِ اطمینان پناہ گاہ ہے ( ۴) ۔
ان تعبیرات کے مجموعہ سے تقویٰ کی حقیقت اوررُوح اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ۔
یہ نکتہ بھی یاد آوری کے لائق ہے کہ تقویٰ ایمان کے درخت کاپھل ہے، اوراسی بناء پراس عظیم سرمائے کوحاصل کرنے کے لیے ایمان کی بنیادوںکو محکم ب بنانا چاہیئے ۔
البتہ اطاعت پرعمل درآمد اور گناہ سے پرہیز ، اور اخلاقی پرو گراموں پرتوجہ ، تقویٰ کونفس میں راسخ کرتی ہے اوراس کانتیجہ انسان کی رُوح اور جان میں نور یقین اورایمانِ شہود ی کا پیداہونا ہے اور نور تقویٰجتنا بڑھتا جاتاہے، اتناہی نوریقین بھی زیادہ ہوتاجاتاہے، لہٰذاہم اسلامی روایات میں دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کو ایمان سے ایک درجہ بلند ، اور یقین سے ایک درجہ نیچے شمار کیاجاتاہے ۔
امام علی بن مُوسیٰ رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
الا یمان فوق ،ا لاسلام بدرجہ ، والتقوی فوق الایمان بد رجة ، والیقین فوق التقوی بدر جة، و ماقسم فی الناس شی ء اقل من الیقین :
ایمان اسلام سے ایک درجہ بلند ہے ، اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ اُونچا ہے اوریقین تقویٰ سے ایک درجہ اونچاہے اور لوگوں کے درمیان کوئی چیز یقین جتنی کم تقسیم نہیں ہوتی (۵) ۔
ہم اس بحث کو ان معروف اشعار کے ساتھ ، جوتقویٰ کی حقیقت کوایک مثال کے ضمن میں واضح کرتے ہیں، ختم کرتے ہیں ۔
خل الذ نوب صغیرھا و کبیرھا فھوا التقی
واصنع کماش فوق ار ض الشوک یحذ رمایری
لاتحقرن صغیرة ان الجبال من الحصی
تمام چھوٹے بڑے گناہوں کوچھوڑ دے، بس تقویٰ یہی ہے ۔
اور اس شخص کی مانند ہو جا، جو کسی خار زار زمین سے گزر رہاہے، اوراپنے لباس اور دامن کو اس طرح سمیٹتاہے کہ کہیں اس میں کانٹانہ چب جائے ، اور ہمیشہ اپنے اطراف پر نظر رکھتاہے۔
ہر گز کسی گناہ کوچھوٹانہ سمجھنا ، کیونکہ بڑ ے بڑے پہاڑ چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے مل کرہی بنتے ہیں۔
۱۔بحارالاانوار ،جلد ٧٠،صفحہ ١٣٦۔
۲۔نہج البلاغہ ،خطبہ ١٦۔
۳۔نہج البلاغہ ، خطبہ ١٥٧۔
۴۔نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٠۔
۵۔بحارالانوار ،جلد ٧٠صفحہ ١٣٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma