صرف تم ہی نہیں ہو جس کادشمن سے مقابلہ ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات اسی طرح معاد و قیامت سے مربُوط مباحث کومختلف طریقوں سے بیان کررہی ہیں ۔
پہلے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دِل دار ی کے کے لیے فرماتاہے: صرف تو ہی نہیں ہے کہ اس کافرگروہ نے تیری تکذیب کی ہے ، ار تیر ی دعوت کے مطالب کوجھٹلا یاہے خصوصاًمعاد کے بارے میں ان سے پہلے قوم نوح اوراصحاب الرس اور قوم ثمود نے بھی اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی تھی (کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَ أَصْحابُ الرَّسِّ وَ ثَمُودُ ) ۔
قوم ثمود وہی خدا کے عظیم پیغمبرصالح کی قوم ہے ، جوحجاز کے شمال میں حجر کی سرزمین میں رہتی تھی، اور اصحاب الرسکے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ،بہت سوکانظر یہ ، یہ ہے کہ وہ ایک قبیلہ تھا ، جوسرزمین یمامہ میں رہتاہے تھا ،اوران کے پیغمبرکانام حنظلہ تھا ، انہوں نے اس کی تکذیب کی اور آخر کار اُسے کنویں میں پھینک دیا (اس بات پر توجہ رہے کہ رس کاایک معنی کنواں ہے )اوراس کادوسرا معنی وہ مختصر اثر ہے جوکسی چیزکاباقی رہ جائے ،کیونکہ اس قوم کے بہت کم اثرات تاریخ میں باقی رہ گئے ہیں) ۔
بعض دوسرے اُسے شعیب کی قوم سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے پانی کے بہت زیادہ کنویں تھے ، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ اصحاب لاایکہ جوبعد والی آیت میں آیا ہے وہ اس قوم شعیب کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا اس احتمال کی نفی ہوجاتی ہے ۔
بعض انہیں قومِ ثمود کے بقایا میں سے جانتے ہیں، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ زیر بحث آ یا ت میں ثموت جدا گارنہ طورپرآ یاہے ،لہٰذا یہ معنی بھی بعید نظر آ تاہے ۔اس بناء پر مناسب وہی پہلی تفسیر ہے ، جس کی مفسرین کے درمیان عام شہرت ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے:طائفہ عاد ، قوم فرعون اورلُوط کے بھائیوں نے بھی (وَ عاد وَ فِرْعَوْنُ وَ ِخْوانُ لُوطٍ ) ۔
لُوط کے بھائیوں سے مراد وہی قوم لُوط ہے، کیونکہ قرآن نے ان عظیم پیغمبروں کوبھائی کے عنوان سے یاد کیاہے ۔
اوراصحاب الایکہ اورقوم تبع نے بھی (وَ أَصْحابُ الْأَیْکَةِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ) ۔
ایکہ بہت زیادہ اور گھنے درختوں کے معنون میں ہے ۔ یادوسرے لفظوں میں جنگل کے مشابہ ہے، اور اصحاب الا یکہ قومِ شعیب کاایک گروہ ہے، جوشہر مدین کے علاوہ کسی اور جگہ رہتاتھا، کسی ایسے شہرمیں جس میں بہت زیادہ درخت تھے ( ١) ۔
اور قوم تبع سے مراد یمن کے لوگوں کاایک گروہ ہے تبع یمن کے بادشاہوں کا لقب ہے ، کیونکہ لوگ ان کی اتباع اور پیروی کیاکرتے تھے، اور یہاں پرقرآن کی ظاہری تعبیر اورایک اوردوسری آیت میں ( ٣٧،دخان) یمن کاایک خاص بادشاہ ہے جس کانام بعض روایات میں اسعد ابوکربذکر ہواہے، اورایک جماعت کانظریہ یہ ہے کہ وہ ایک مومن آدمی تھا، اور لوگوں کوانبیاء کی دعوت پیروی کی طرف بلاتاتھا، اگرچہ لوگوں نے اس کی مخالفت کی ( ٢) ۔
اس کے بعد ان آٹھوں اقوام کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہتاہے ان میں سے ہر ایک نے خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تکذیب کی اوران کے بارے میں خداکے عذاب کاوعدہ پورا ہوا کررہا(کُلّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعید) ۔
یہ کو کہتاہے: انہوں نےخدا کے رسولوں کی تکذیب کی ، حالانکہ ہرایک نے صرف اپنے پیغمبرکی تکذیب کی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو فعل ان سے سر زد ہوا وہ مجموعی طورپر تمام انبیاء کی تکذیب تھی، اگر چہ ہر ایک نے ایک ایک پیغمبرکی تکذیب کی تھی ۔
اور یا یہ اس وجہ سے ہے کہ ایک پیغمبرکی تکذیب بقیہ تکذیب بھی شما ہوتی ہے ،کیونکہ سب کی دعوت کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے ۔
بہرحال ان اقوام نے اپنے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی اور مسئلہ توحید و معاد کی بھی، اورانجام کاردرد ناک عذاب میں گرفتار ہوئے، بعض طوفان میں گرفتار ہوئے ،بعض سیلاب میں بعض دوسرے صاعقہ اور آسمانی بجلی میں ، بعض زلہ زلہ میں ، ان کے علاوہ دوسری چیزوں میں ، اورانجام کارانہوں نے تکذیب کاتلخ پھل چکھا ۔
لہٰذا تم مطمٔن رہو اگر یہ کافر قوم بھی جو تمہارے مقابلہ میں کھڑی ہے اسی حالت میں رہی توا ن کی سرنوشت بھی ان سے بہتر نہیں ہوگی ۔
اس کے بعد امکانِ قیامت کے دلائل میں سے ایک اورکوذکر کرتے ہُوئے کہتاہے:کیاہم پہلی خلقت سے تھک بار کر عاجز آگئے ہیں کہ اب دوسری خلقت اورقیامت پر قدرت حاصل نہ ہو (أَ فَعَیینا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ) (٣) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے: انہوں نے پہلی پیدائش کے بارے میں توکوئی شک نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کو ہی انسانوں کاخالق سمجھتے ہیں لیکن وہ ان واضح دلائل کے باوجود نئی پیدائش اورقیامت کے بارے میں شک میں پڑ ے ہُوئے ہیں(بَلْ ہُمْ فی لَبْسٍ مِنْ خَلْق جَدیدٍ) ۔
درحقیقت وہ خواہشات نفسانی، تعصب اورہٹ دھرمی کی بناء پر تناقض میں گرفتار ہیں، ایک طرف تو یہ سمجھتے ہیں کہ خدانے ہی انسانوں کوخلقکیاہے اورانہیں سب کو مٹی سے پیدا کیاہے ،لیکن دوسری طرف جب انسانوں کومٹی سے پید ا کیاہے ، لیکن دوسری طرف جب انسانوں کی مٹی سے جدید خلقت کے مسئلہ تک پہنچتے ہیں، تو اس کو عجیب وغریب اور با ورنہ ہو نے والا مسئلہ شمار کرتے ہیں، حالانکہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں وحکم الا مثال فی ما یجوزوفی مالا یجوز واحد۔
اس طرح سے ان آ یات میںگذ شتہ آ یات میں چار مختلف طریقوں سے مسئلہ معاد پر استدلال کرتاہے، علم خداکے طریقہ سے اس کی قدرت کے طریقے سے ،اُس کے بعد عام گیاہ میں معاد کے مناظر کی تکرار کے طریقہ سے اورانجام کار پہلی خلقت کی طرف توجہ کرنے کے طریقہ سے ۔
اور جب ہم معاد کے سلسلہ میں قرآن کی دوسری آ یات کی طرف توجہ کرتے ہیں، توہم دیکھتے ہیں کہ یہی دلائل دوسرے دلائل کے اضافہ کے ساتھ الگ الگ مختلف آیات میں آ ئے ہیں اورقرآن نے اپنی طاقتوں منطق اور پُر کشش ،سادہ ،آسان اورقاطع تعبیروں کے ساتھ منکرین کے سامنے معاد جسمانی کے مسئلہ کو بہترین طریقہ پرثابت کیاہے، کہ اگر وہ اپنے آپ کوپہلے سے کیے ہُوئے فیصلوں نغصب ، ہٹ دھرمی ، اوراندھی تقلید سے بچا لیتے تو وہ بہت جلداس واقعیت کو تسلیم کرلیتے ، اوریہ جان لیتے کہ قیامت ومعاد کی کوئی پیچیدہ چیز نہیں ہے ۔
١۔مزید وضاحت کے لیے جلد ٦اورجلد ٨ سورۂ حجر کی آیت ٧٨ اور سُورہ ٔ شعراء کی آیت ١٧٦کی طرف رجوع کریں ۔
٢۔قوم تبع کے بار ے میں مزید تشریح کیلئے،جلد ١٢(سورۂ دخان کی آیت ٣٧ کے ذیل میں ) مطالعہ کریں ۔
٣۔اوپر والے جملہ میں ایک محذوف ہے،اورتقدیر میں اس طرح ہے : افعیینابالخلق الاوّل حتی نعجزعن الشانی : کیاہم پہلی خلقت سے عاجز تھے کہ دوسری سے عاجز ہوں گے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma