ھفتہ کاعظیم ترین عبادی سیاسی اجتماعی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گزشتہ آ یات میں توحید ،نبّوت ،معاد اور دُنیا پرست یہودیوں کی مذّمت کے بارے میں مختصر مباحث آ ئے تھے ، زیر بحث آ یات ایک اہم ترین اسلامی فریضہ کے بارے میں ہیں جوایمان کی بُنیاد وں کی تقویت کے لیے حَد سے زیادہ تاثیر رکھتاہے ، اورایک لحاظ سے سورة کاہدف اصلی یہی ہے ،یعنی نماجمعہ اور یہ آ یات اس کے احکام کوبیان کرتی ہیں ۔
سب سے پہلے تمام مسلمانوں کومُخاطب کرتے ہُوئے فرماتاہے : اے ایمان لانے والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان کہی جائے تو ذکرِ خدا (خطبہ ونماز)کی طرف جلدی سے آ ئو اور خرید وفروخت چھوڑ دو،یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگرتم جانتے ہو (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا ِذا نُودِیَ لِلصَّلاةِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا ِلی ذِکْرِ اللَّہِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ۔
نُودی نِداکے مادہ سے پکارنے کے معنی میں ہے ،اوریہاں اس سے مُراد اذان ہے ،کیونکہ اسلام میں نماز کے لیے اذان کے علاوہ اورکوئی ندانہیں ہے جیساکہ سورۂ مائدہ کی آ یت ٥٨ میں آ یاہے : وَ اِذا نادَیْتُمْ اِلَی الصَّلاةِ اتَّخَذُوہا ہُزُواً وَ لَعِباً ذلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْم لا یَعْقِلُونَ جب تم لوگوں کونماز کے لیی پکارتے ہو (اوراذان کہتے ہو)تووہ اس کا مذاق اڑاتے اوراسے کھیل تماشاسمجھتے ہیں .اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بے عقل قوم ہیں ۔
اِس طرح سے جس وقت نماجمعہ کی اذان کی آواز بلندہوتی ہے تولوگوں کافرض ہے کہ وہ کارو بار کوچھوڑ کرنماز کی طرف دوڑ کرآ ئیں جواہم ترین ذکرِخداہے ۔
ذلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِ کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس موقع پر کارو بار کوچھوڑ کرنمازجمعہ کوقائم کرنامُسلمانوں کے لیے بہت ہی نفع کی بات ہے ،بشرطیکہ وہ اس بارے میں ٹھیک طورپر غوروفکر کریں ، ورنہ خداتو سب سے بے نیاز اور سب پر مہر بان ہے ۔
یہ جملہ نمازِ جمعہ کے فلفسہ اور فوائد کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے ،اِس کے بارے میں ہم انشاء اللہ نکات کی بحث میں گفتگو کریں گے ۔
البتّہ خرید وفروش کوترک کرناایک وسیع مفہُوم رکھتاہے جوہرمزاحم کام کو شامل ہے ۔
باقی رہی یہ بات کہ جمعہ کے دن کوجمعہ کانام کیوں دیاگیاہے ؟ تواس کی وجہ اس دن لوگوں کانماز جمعہ کے لیے جمع اوراکھٹا ہوناہے ، ا،س مسئلہ کی ایک مختصر سی تاریخ ہے ، جونکات کی بحث میں آ ئے گی ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ بعض اِسلامی روایات میں روزانہ کی نماز کے بارے میں یہ آیا ہے :اذا اقیمت الصلوٰة فلا تأ توھا وانتم تسعون وأتوھاو انتم تمشون وعلیکم السکینة۔
جب نماز (یومیہ)کھڑی ہوجائے تونمازمیں شرکت کے لیے دوڑو نہیں اور آرام کے ساتھ قدم اٹھائو (۱) ۔
لیکن نمازِ جمعہ کے بارے میں اوپر والی آ یت یہ کہتی ہے : فاسعوا(دوڑکرآئو)یہ نماز جمعہ کی حد سے زیادہ اہمیت کی دلیل ہے ۔
ذکر اللہ سے مُراد پہلے تونماز ہی ہے . لیکن ہم جانتے ہیں کہ نمازِ کے خطبات بھی کہ جن میں خدا ہی کاذکرہوتاہے حقیقت میں نماز جمعہ کاایک حصّہ ہیں،اِس ب بناء پر ان خطبوں میں شرکت کے لیے بھی دوڑ کرآنا چاہیئے ۔
بعد والی آ یت میں مزید کہتاہے : جب نماز ختم ہو جائے توپھر تم آزاد ہو ،زمین میں چلوپھرو اور خدا کافضل تلاش کرو اور خدا کوبہت بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پائو (فَِذا قُضِیَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّہِ وَ اذْکُرُوا اللَّہَ کَثیراً لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون) ۔
اگرچہ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّہ (اللہ کافضل طلب کرو)کاجُملہ یاقرآن مجید میں اس مشابہ تعبیریں غالباً روزی طلب کرنے اورکسب وتجارت کے معنی میں آ ئی ہیں ،لیکن یہ فبات واضح ہے کہ اس جُملہ کامفہوم وسیع ہے اور کسب و کار اس کے مصادیق میں سے ایک ہے ،اِسی لیے بعض نے عیادت ِ مریض ،زیارت ِ مومن ، یاتحصیل ِ علم ودانش کے معنی میں اس کی تفسیر کی ہے ،اگرچہ یہ ان میں بھی مُنحصر نہیں ہے ۔
یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ زمین میں پھیل جانے اور روزی طلب کرنے کاامر امرِوجُوبی ہے ،بلکہ اصطلاح کے مُطابق یہ امربعد ازحظر ونہی ہے اورجواز کی دلیل ہے ،لیکن بعض نے اس تعبیر سے یہ مطلب لیا ہے کہ نمازِ جُمعہ کے بعد روزی کی تحصیل وطلب ایک مطلوبیّت اور برکت رکھتی ہے . اورایک حدیث میں آ یاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نمازِ جمعہ کے بعد بازار میں تشریف لے جاتے تھے ۔
وَ اذْکُرُوا اللَّہَ کَثیرا کاجُملہ ان تمام نعمتوں کے لیے جوخُدا نے انسان کودی ہیں ،خدا کویاد کرنے کی طرف اِشارہ ہے اور بعض نے یہاں ذکر کو فکر کے معنی میں سے تعبیر کیا ہے ،جیساکہ حدیث میں آ یاہے تفکر ساعة خیرمن عبادة سنة ایک ساعت غور وفکر کرناایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ( ۲) ۔
اوربعض نے اس کو بازاروں میں مُعاملات کے وقت ، خداکی طرف توجّہ اوراصُولِ حق وعدالت سے انحراف نہ کرنے سے بھی تعبیر کیاہے ۔
لیکن واضح ہے کہ آ یت ایک وسیع مفہُوم رکھتی ہے جوان تمام مطالب کواپنے دامن میں سموئے ہُوئے ہے . یہ بھی مُسلّم ہے کہ ذکر کی روح فکر ہے اور وہ ذکر جوفکرکے بغیر ہولقلقہ ٔ زبانی سے زیادہ نہیںاور جو بات فلاح ونجات کاسبب ہے وہ وہی ذکر ہے جوتمام حالات میں غور وفکر کے ساتھ ہو ۔
اصولی طورپر بار بار ذکر کرنے سے خُدا کی یاد انسان کی جان کی گہرائیوں میں راسخ ہوجاتی ہے ،اورغفلت اوربے خبری کی جڑ یں جل جاتی ہیں جوہرقسم کے گناہ کااصلی عامل ہوتی ہیں ، پس یوں انسان فلاح ونجات کے راستے پرچلنے لگتاہے اور لعلکم تفلحون کی حقیقت حاصِل ہوجاتی ہے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں ان لوگوں کوجنہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کونماز جمعہ کے وقت چھوڑ دیااور آ نے والے قافلہ سے مال خرید نے کے لیے بازار کے طرف بھاگ کھڑے ہُوئے تھے ،شدّت کے ساتھ ملامت کرتے ہُوئے کہتاہے : جب وہ کوئی تجارت یاکھیل تماشہ کی بات دیکھتے ہیں تو پراگندہ ہوجاتے ہیں اور آپ کو(نمازِجمعہ کاخطبہ پڑھنے کے دوران)کھڑا ہوا چھوڑ کرچل دیتے ہیں (وَ ِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَہْواً انْفَضُّوا ِلَیْہا وَ تَرَکُوکَ قائِماً) ۔
لیکن ان سے کہہ دیجئے کہ جوکچھ خُدا کے پاس ہے وہ لہوولعب اور تجارت سے بہتر ہے اورخدا بہترین روزی دینے والا ہے ( قُلْ ما عِنْدَ اللَّہِ خَیْر مِنَ اللَّہْوِ وَ مِنَ التِّجارَةِ وَ اللَّہُ خَیْرُ الرَّازِقینَ ) ۔
نماز جمعہ میں حاضر ہونے اور پیغمبر کے مواعظ ونصائح سُننے سے جوخدائی اجرو ثواب اور برکتیں اورمعنوی وروحانی تربیّت تمہیں حاصل ہوتی ہے ،ان سب بر کات کاکسِی دوسری چیز کے ساتھ مقابلہ نہیں ہوسکتا .اگرتم اس بات سے ڈرتے ہوکہ تمہاری روزی منقطع ہوجائے گی توتم غلطی پرہو ، خدابہترین روزی دینے والاہے ۔
لہو کی تعبیر ،طبل اوران تمام دُوسرے آلاتِ لہو کی طرف اشارہ ہے جووہ لوگ مدینہ میںکسی نئے قافلہ کے وارد ہونے کے وقت بجایا کرتے تھے ،یہ ایک طرح سے ان کے آ نے کی خبراور اعلان بھی ہوتاتھا اور مال ومتاع کوبیچنے کے لیے تشہیر بھی ،جیسا کہ وہ منڈ یاں اور بازار ، جو مغربی طرز کے ہیں ، ان میں بھی اِس کے نمونے دکھائی دیتے ہیں ۔
انفصواکی تعبیر ،پراگندہ ہونے ، نمازِ جُمعہ سے منصرف ہونے اورقافلہ کارُخ کے معنی میں ہے ،جیساکہ شانِ نزول میں بیان کیاگیاہے کہ جس وقت وحیہ کاقافلہ مدینہ میں وارد ہو ا( اس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیاتھا)تواس نے طبل اور دوسرے آلاتِ لہو کے ساتھ لوگوں کوبازار کی طرف بُلا یای، مدینہ کے لوگ ،یہاں تک کہ وہ مُسلمان بھی جو مسجد میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کاخُطبہ جمعہ سُن رہے تھے ،اس کی طرف بھاگ کھڑے ہُوئے اور مسجد میں صرف تیرہ مرد اور ایک روایت کے مُطابق اس سے بھی کم افراد باقی رہ گئے۔
الیھاکی ضمیر تجارت کی طرف لوٹتی ہے ،یعنی وہ مال تجارت کی طرف دوڑ گئے .اس کی وجہ یہ ہے کہ لہوو لعب ان کااصلی ہدف نہیں تھا بلکہ وہ تو قافلہ کے وارد ہونے کے اعلان کی ایک تمہید تھی ، یامال تجارت کے پرو پیگنڈہ میں روز پیدا کر نے کے لیے تھا ۔
قائما کی تعبیر بتاتی ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کھڑے ہو کر نمازجمعہ کاخُطبہ دے رہے تھے ،جیساکہ جابر بن سمرہ کی حدیث میں نقل ہُوا کہ وہ کہتاہے : میں نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوخطبہ کی حالت میں کھبی بھی بیٹھے ہُوئے نہیں دیکھا اورجوشخص یہ کہے کہ آپ بیٹھ کر خُطبہ پڑھتے تھے تواُسے جُھوٹا سمجھو(۳)
یہ روایت بھی آ ئی ہے : لوگوں نے عبداللہ بن مسعُود سے پوچھا: کیاپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کھڑے ہوکہ خطبہ دیا کرتے تھے ؟عبداللہ نے کہا: کیاتم نے نہیں سُنا کہ خدا فرماتاہے : وترکوک قائماً اوروہ تجھے کھڑاہُوا ہی چھوڑ کرچل دیئے ( ۴) ۔
تفسیر درّ المنثور میں آیاہے کہ سب سے پہلاشخص جِس نے نماز جمعہ کاخطبہ بیٹھ کردیا، وہ معاویہ تھا( ۵) ۔
۱۔ورح المعانی ،جلد٢٨،صفحہ ٩٠۔
۲۔مجمع البیان ،جلد١٠،صفحہ ٢٨٩۔
۳۔مجمع البیان جلد١٠،صفحہ ٢٨٦۔
۴۔مجمع البیان جلد١٠،صفحہ ٢٨٦۔
۵۔تفسیردرالمنثور جلد٦،صفحہ ٢٢٢.اس روایت کو دُوسرے مفسّرین مثلاً ""آلوسی "" نے "" رُوح المعانی ""میں اور "" قرطبی "" نے بھی اپنی تفسیرمیں نقل کیاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma