عقل وخرد کی اونچی قدر وقیمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قرآن ِ مجید عقل وخِرد کی حد سے زیادہ قدر وقیمت کی طرف اشارہ کررہاہے . نیز دوزخیوں کابنیاد ی گناہ اوران کی بدبختی کااصلی عامل اس خُدائی قوّت سے کام نہ لینے کو شمارکرتا ہے .بلکہ جوشخص قرآن سے آشنائی رکھتا ہے .وہ جانتا ہے کہ اُس نے مختلف مناسبتوں سے اس موضوع کی اہمیّت کوآشکار کیاہے اس نے ان لوگوں کی دوزخ با فیوں کے برخلاف ،جومذہب کو ماغوں کے مست اور سُست کرنے کاذ ریعہ اورعقل وخِرد کی پروانہ کرنے والا شمارکرتے ہیں ،اِسلام خُدا شناسی اور سعادت ونجات کی اساس وبُنیاد عقل وخرد پررکھتا ہے ، بلکہ جگہ جگہ اس کارُوئے سخن اولو الالباب(صاحبان ِ عقل ) اور او لوالا بصار(صاحبانِ بصیرت ) غور وفکِرکرنے والے عقلاء کی طرف ہے ۔
اسلامی منابع میں اس سلسلہ میں اس قدر روایات وارد ہُوئی ہیں جوحساب وشمار سے با ہر ہیں ، قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ مشہور کتاب کافی جومنابع حدیث میں سب سے زیادہ قابلِاعتبار ہے وہ مختلف کتابوں پرمشتمل ہے اوراس کی پہلی کتاب کانام کتابِ عقل وجہل ہے . جوشخص ان روایات کوملاحظہ کرے جواس ضمن میں اس کتاب میں نقل ہُوئی ہیں ،وہ اس سلسلہ میں اسلام کی نظر کی گہرائی کوپالے گا.ہم یہاں صرف دو روایات کے ذکر پرقناعت کریں گے۔
(اسی کتاب میں ) امر المومنین امام علیہ السلام سے روایت آ ئی ہے کہ جبرئیل آدم علیہ السلام پرنازل ہُوئے اوران سے کہا مجھے حکم ہُوا ہے کہ میں آپ کوان تین نعمتوں میں سے کسِی ایک کواپنانے کااختیار دوں ، آپ ان میں سے کسِی ایک کاانتخاب کرلیں اورباقی دو کو چھوڑ دیں ۔
آدم نے کہا: وہ کون سی نعمتیں ہیں ؟
جبرئیل نے جواب دیا: عقل ، حیا اور دین ۔
آدم نے کہا: میں نے عقل کا انتخاب کیاہے جبرئیل نے حیا اور دین سے کہا: اسے چھوڑ دو ،اور اپناکام کرو ۔
انہوں نے کہا: ہم مامور ہیں کہ ہرجگہ عقل کے ساتھ رہے اوراس سے جُدا نہ ہوں ۔
جبرئیل نے کہا: اب جبکہ یہ بات ہے کہ تو پھر اپنی مامُو ریّت پرعمل کرو اور اس کے بعد وہ آسمان کی طرف صعُود کرگئے ( 1) ۔
یہ ایک ایسی لطیف ترین تعبیر ہے جوعقل وخرد اور حیاء ودین سے اس کی نسبت کے بارے میں کی جاسکتی ہے .کیونکہ اگرعقل ،دین سے جُدا ہوجائے تووہ ذراسی بات میں برباد ہوجائے گایا انحراف کاشکار ہوجائے گا . با قی رہی حیاء کہ جوانسان کو بُرائیاں اور گناہوں کے ارتکاب سے روکتی ہے تووہ بھی معرفت اورعقل وخِرد کانتیجہ ہوتی ہے ۔
یہ چیز اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آدم علیہ السلام عقل کے ایک قابلِ ملاحظہ حصّہ کے مالک تھے جنہوں نے ان تین چیزوں کے درمیان اختیار کے موقع پر عقل کے بالا ترمرحلہ کوانتخاب کیااوراس کے سائے میں دین کوبھی ساتھ رکھّا اور حیاء کوبھی ۔
ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام سے آیاہے :
من کان عاقلاً کان لہ دین ، ومن لہ دین دخل الجنّة۔
جوعقلمند ہوگا وہ دیندار بھی ہوگا ،اورجو دیندار ہوگا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔
(اسی بناء پر جنّت عقلمند وں کی جگہ ہے ( 2) ۔
البتّہ عقل یہاں سچی معرفت کے معنی میں ہے نہ کہ شیاطین کی وہ شیطنت جودنیا کے جابر اورظالم سیاستمداروںمیں نظر آ تی ہے کہ جوامام صادق علیہ السلام کے قول کے مطابق :
عقل کے مشابہ ہے لیکن وہ عقل نہیں ہے ( 3) ۔
1۔ اصول کافی بمابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٨٢۔
2۔ اصول کافی بمابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٨٢۔
3۔ اصول کافی بمابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٨٢۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma