قسم ہے آسمان کی اوراس کی زیبا شکنوں کی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات بھی گزشتہ آ یات کی طرح قسم کے ساتھ شروع ہورہی ہیں، اورقیامت کے بارے میں کافروں کے اختلافات ، اور دوسرے مختلف مسائل منجملہ ان کے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی شخصیت اور مسئلہ توحید کے بارے میں گفتگو کررہی ہیں ۔
پہلے فرماتاہے:قسم ہے آسمان کی جوخوبصورت شکنوں والاہے (وَ السَّماء ِ ذاتِ الْحُبُک) ۔
حبک (بروز ن کتب)جمع جہاک(بروزن کتاب)کے لغت میں بہت سے معنی بتائے گئے ہیں،منجملہ اس کے : راستے ،بل اور شکن ہے جو بیابان کی ریت پرہواؤں کی وجہ سے یاپانی کی سطح پر یاآسمان کے بادلوں پرپیدا ہوتے ہیں ۔
مجعد(گھنگھریالے )بالوں کوبھی حبک کہاجاتاہے ۔
بعض اوقات مفسرین نے حبک کی زیبائی اور زینت میں بھی تفسیر کی ہے ۔
اور اسی طرح موزوں ومرتب شکل وصورت کے معنی میں بھی ۔
اوراس کااصلی ریشہ اورجڑ حبک (بروزن کہک )ہے جو باندھنے اورمحکم کرنے کے معنی میں ہے ۔
ایسانظر آتاہے کہ یہ سب معانی ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں اوروہ ایسے خوبصورت بل اور شکن ہیں، جوموجوں کے درمیان،آسمان کے بادلوں،بیابان کے ریت کے ٹیلوں اور سر کے بالوں میں پیداہوتے ہیں ۔
اب رہی اس معنی کی آسمانوں پر تطبیق تو یہ یا توفلکی صورتوں اورعام ستاروں کی مختلف شکلوں کی وجہ سے ہے ۔
(ثابت ستاروں کاوہ مجموعہ جو ایک خاص شکل بنالیتاہے صورت فلکی کہلاتاہے)۔
یاآسمانی بادلوں میں جوپُر کشش موجیں اور لہریں پیدا ہو جاتی ہیں ان کی وجہ سے ہے ، جوبعض اوقات اس قدر خوبصورت اور زیبا ہوتی ہیں کہ مدتوں تک انسان کی آنکھ کو اپنی طرف متوجہ کیے رہتی ہیں ۔
یا کہکشاؤں کاوہ عظیم انبیوہ ہے جو مجعد اورگھنگریالے بالوں کی طرح پیچ وخم کھاتی ہوئیں آسمان پرظاہر ہوتی ہیں خاص طورسے وہ عمدہ عکس ، جوماہرین نے دُور بینوں کے ذ ریعہ ان کہکشاؤں کے لیے دیکھے ہیں،کامل طورسے مجعد اور گھنگریالے پیچدہ بالوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔
اس معنی کی بناء پر، قرآن آسمان اوران عظیم کہکشاؤں کی جن پر اس زمانہ میں علم ودانش کی تیز آنکھ ابھی تک نہیں پڑی تھی قسم کھاتاہے( ١) ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے ، کہ یہ معانی ایک دوسرے سے کوئی منافات نہیں رکھتے، ممکن ہے کہ وہ سب ہی اس قسم میں جمع ہوں، سورئہ مؤ منون کی آ یت ١٧ میں بھی یہ آیاہے :ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق: ہم نے تمہارے اوپر سات راستے خلق کیے ہیں جو آسمانوں کے تنوع اور ان کی کثرت اور کرّوں اور کہکشاؤں اور مختلف عوالم کی طرف اشار ہ ہے ( ٢) ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حبکہکے رشیہ اصلی کاآسمانوں کے استحکام اور کرّوکے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط پیوند سے جیساکہ نظامِ شمسی کاسُورج کے ساتھ تعلق ہے ،اشارہ ہوسکتاہے ۔
بعد والی آ یت جواب قسم ، یعنی وہ مطلب جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے ، کوپیش کرتے ہُوئے مزید کہتی ہے:تم سب کے سب مختلف اورقسم قسم کی گفتگو میں پڑے ہوئے ہو(انَّکُمْ لَفی قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ) ۔
تم ہمیشہ ایک دوسرے کی ضد اور نقیض باتیں کرتے ہو، اور یہی تناقض تمہاری باتوں کے بے بنیاد ہونے کی دلیل ہے ۔
معاد وقیامت کے بارے میں کبھی تویہ کہتے ہو کہ :ہم اصلاً یہ بات باور نہیں کرتے کہ بوسیدہ ہڈیاں زندہ ہوجائیں اور کبھی یہ کہتے ہیں ہوکہ ہمیں اس بارے میں شک و تردد ہے ۔
اور کبھی اور بڑھا کرکہتے ہو کہ ہمارے آباؤاجداد اور بڑوں کو لے آؤتاکہ وہ گواہی دیں کہ موت کے بعد قیامت اور معاد ہے توپھر ہم قبول کریں گے ۔
اورپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بارے میں کبھی تو یہ کہتے ہو کہ وہ دیوانہ ہے ، کبھی یہ کہتے ہوکہ وہ شاعر ہے ، کبھی اُسے جادو گر بتاتے ہو اور کبھی یہ کہتے ہو کہ اس کاکوئی معلم و استاد ہے جوان باتوں کی اُسے تعلیم دیتاہے ۔
اسی طرح قرآن کے بارے میں کبھی تواُسے اسا طیر الاوّلین(گذ شتہ لوگوں کے افسانے اورخرافات)کانام دیتے ہو، کبھی اُسے شعرکہتے ہواور کبھی جادو، اور کبھی جُھوٹ ۔
قسم ہے آسمان کے شکنوں کی ، کہ تمہاری باتیں تناقص اورپیچ وخم سے پرہوں اگر تم اصل بنیاد رکھتے ہوتے ، تو کم از کم ایک مطلب پرتوٹھہرتے، اور ہروز کسی نئے مطلب کے پیچھے نہ جاتے ۔
یہ تعبیر حقیقت میں مخا لفین کے دعووں کے بطلان پرایک استد لال ہے ،جو وہ نوئید ، معاد، پیغمبر اورقرآن کے بارے میں کرتے ہیں ۔
ّ(اگر چہ اُن آ یات کے قرینہ سے جوبعد میں آ ئیں گی، اِن آ یات کااصلی تکیہ مسئلہ معاد پر ہے) ۔
اور ہم جانتے ہیں کہ جُھوٹے دعوید اروں کے جھُوٹ کاپول کھولنے میں، چاہے قضا ئی مسائل میں ہو یا دوسرے مسائل میں،ان کی ایک دوسری کے خلاف باتوں سے استنا د ہوتاہے ، قرآن بھی ٹھیک اسی مطلب پرتکیہ کرتاہے ۔
بعد والی آ یت میں حق سے اس انحراف کی علّت کو بیان کرتے ہُوئے فرماتاہے :قیامت پرایمان سے وہی لوگ منحرف ہوتے ہیں جوحق کے دلائل کوقبول کرنے اورمنطق کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روگردانی کرتے ہیں ورنہ موت کے بعد کی زندگی ، کے دلائل واضح وآشکار ہے (یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ أُفِکَ ) ۔
تو جہ رکھنی چاہیئے کہ آ یت کی تعبیر کلی اور سربستہ ہے ، جس کالفظی ترجمہ اس طرح ہے : لوٹائے جائیں گے اس سے وہ جس سے وہ لوٹائے گئے ہیں۔
کیونکہ افک اصل میں منصرف کرنے اور کسی چیزسے پھیرنے کے معنی میں ہے ، اسی لیے جھوٹکو جوانحرافی پہلو رکھتاہے، افک کہاجاتاہے، جیساکہ مختلف ہواؤں کو مؤ تفکات کہاجاتاہے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ گذ شتہ آ یات میں قیامت کے بارے میں گفتگو تھی، لہٰذا ظاہر ہے کہ اصلی مقصود اسی عقیدہ سے انحراف ہے ،اور چونکہ گزشتہ آ یت میں گفتگو کا فروں کی ایسی باتوں سے متعلق تھی،جوایک دوسرے کی ضد اور نقیض ہیں،لہٰذا معلوم ایساہوتاہے کہ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جوواضح منطق اور دلیل سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔
اس بناپرمجموع آ یت اس طرح معنی دیتی ہے : وہی لوگ قیامت پرایمان رکھنے سے منحرف ہوں گے ، جودلیل ِعقل کی راہ اورحق طلبی کی منطق سے منحرف ہوگئے ہیں ۔
البتہ کوئی مانع نہیں ہے کہ مراد ہرقسم کے حق سے انحراف ہو، چاہے وہ قرآن سے انحراف ہو یاتو حید ونبوتِ پیغمبرومعاد سے ہو، (اوران ہی میں سے آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کامسئلہ ہے ،جوبعض روایات میں واردہواہے)لیکن بہرحال مسئلہ قیامت جواصل موضوع ہے، یقینی طورپراس میں شامل ہے ۔
بعد والی آ یت میں جُھوٹ بولنے والوں اور اُسے بیان کرنے والوں کوشدّت کے ساتھ مذمّت اور تہدید کرتے ہوئے کہتاہے:قتل کیے جائیں جُھوٹ بولنے والے اوران کے لیے موت ہو ،(مُردہ باد)(قُتِلَ الْخَرَّاصُون) ۔
خراص مادہ خرص(بروزن درس)سے اصل میں ہراس بات کے معنی میں ہے ، جوگمان تخمینہ اورانداز لے کی بناء پر کہی جائے (اٹکل پچو) اور چونکہ اس قسم کی باتیں جھوٹ ہوتی ہیں، لہٰذا یہ لفظ جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے اس طرح سے خراصون وہ لوگ ہیں جو بے بنیاد اور بے سروپا باتیں کرتے ہیں، اور یہاں بعد والی آ یات کے قرینہ سے وہ لوگ مراد ہیں، جوقیامت کے بارے میں بے بنیاداور منطق سے دُور باتوں کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں ۔
لیکن بہر صورت یہ جُملہ ان پر نفرین کی صورت ہے ،ایسی نفرین جواس بات کی نشاندہی کرتے ہے کہ وہ ایسی موجودات ہیں ، جو موت اور نابودی کے لائق ہیں، اور وہ اس طرح ہیں جن کاعدم ان کے وجود سے بہترہے ۔
بعض نے قتل کی یہاں لعن وطرد اور رحمت ِ خدا سے محرو میّت کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔
اور یہاں سے اس حکم کلی کوبھی معلوم کیاجاسکتاہے، کہ اصولی طورپر وہ فیصلے جن کاواضح مدرک موجودنہ ہو اورانداز ے وتخمین اور بے بنیاد گمانوں پرقائم ہوں ، ایسے کام ہیں، جو گمراہ کرنے والے اور نفرین وعذاب کے مستحق ہیں ۔
اس کے بعد ان اٹکل پچو باتیں کرنے والے جھوٹے لوگوں کاتعارف کراتے ہُوئے مزید کہتاہے،:وہ ایسے لوگ ہیں جوجہالت ،غفلت اور بے خبری میں ڈوبے ہُوئے ہیں(الَّذینَ ہُمْ فی غَمْرَةٍ ساہُونَ ) ۔
غمرة اصل میں اس زیادہ پانی کے معنی میں ہے ،جوکسی جگہ کوڈھانپ لے ، اس کے بعدعمیق اور گہری جہالت ونادانی پر جو کسی کوڈھانپ لے ،اطلاق ہواہے ۔
ساھون سھرکے مادہ سے ہرقسم کی غفلت کے معنی میں ہے ، بعض نے یہ کہاہے کہ جہالت کاپہلا مرتبہ سہود اشتباہ ہے ، اس کے بعد غفلت اور پھر غمرہ ہوتاہے ۔
اس بناء پر وہ سہو کے مرحلہ سے شروع کرتے ہیں، اس کے بعد غفلت وبے خبری تک پہنچتے ہیں ، اوراس راہ کوجاری رکھتے ہُوئے مکمل طورپر جہالت میں ڈوب جاتے ہیں، اوران دونوں تعبیروں، سہو وغیرہ ، کے درمیان جمع کرنا، مُمکن ہے اوپروالی آ یت میں اس حرکت کے آغازوانجام کی طرف اشارہ ہو ۔
اس طرح کہ خراصونسے مراد وہ لوگ ہیں ، جواپنی جہالت ونادانی میں غرق ہیں اورحق سے فرار کرنے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی بہانہ ، اور بے بنیاد باتیں بناتے رہتے ہیں ۔
اوراسی لیے ہمیشہ سوال کرتے ہیں کہ روزِ جزا کس وقت ہوگا اورقیامت کب آئے گی (یَسْئَلُونَ أَیَّانَ یَوْمُ الدِّینِ) ۔
یسئلون کی تعبیرفعل مضارع کی صُورت میں اس بات کی دلیل ہے ، کہ وہ ہمیشہ یہی سوال کرتے رہتے ہیں، جبکہ اصولی طورپر ضروری ہے کہ قیامت کے برپا ہونے کاوقت مخفی اور پوشیدہ ہے ، تاکہ ہرشخص ہرزمانہ میں اس کے واقع ہونے کااحتمال دے اورقیامت پرایمان کاتربیتی اثر جو ہمیشہ کی آماد گی اور خودسازی ہے ، وہ حاصل ہو ۔
یہ گفتگو اس کے مانند ہے کہ بیمار ڈاکٹر سے بار بار سوال کرکے کہ میری عمر کااختتام کب ہوگا؟توہرشخص اس سوال کو بے بنیاد سمجھے گا اور کہے گا کہ اہم بات تویہ ہے کہ تو یہ جانے کہ موت حق ہے تاکہ تواپنا علاج کرے تاکہ کہیں جلدی آنے والی موت میں گرفتار نہ ہو جائے ۔
لیکن ان کاتوٹھٹھاکرنے اور بہانہ جوئی کے سوااور کوئی مقصد نہیں تھا، وہ واقعی طورپر قیامت کے برپا ہونے کی تاریخ معلوم کرنانہیں چاہتے تھے ۔
لیکن اس کے باوجود قرآن انہیں چھبتا ہواجواب دیتے ہُوئے کہتاہے : قیامت اس دن ہوگی جب انہیں آگ پر جلایا جائے گا (یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُونَ) ۔
اورانہیں کہاجائے گا: اپنے عذاب کو چکھو، یہ وہی چیزتو ہے ، جس کے لیے تم جلدی کیا کرتے تھے (ذُوقُوا فِتْنَتَکُمْ ہذَا الَّذی کُنْتُمْ بِہِ تَسْتَعْجِلُونَ ) ۔
فتنہ اصل میں سونے کوکٹھالی میں رکھنے کے معنی میں ہے ، تاکہ اچھا اورخالص سوناکھوٹے اور ناخالص سے پہچانا جائے،اوراسی مناسبت سے ہرقسم کی آزمائش اورامتحان کے لیے استعمال ہوتاہے ،اور انسان کے آگ میں داخل ہونے کے معنی میں بھی آ یاہے ، اور کبھی بلا و عذاب اور پریشانی کے معنی میں بھی آ یاہے ،جیساکہ زیربحث آ یت میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ۔
١۔"" لسان العرب"" اور "" مفردات راغب""میں مادئہ ""حبک"" کی طرف رجوع کریں ۔
٢۔اس آ یت کی تفسیر میں مبسُوط شرح تفسیر نمونہ جلد ٨ سورئہ مؤ منون آیت ١٧ کے ذیل میں آچکی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma