٤۔"" فلسفہ کی نظر سے خلقت کافلسفہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

ہم بیان کرچکے ہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے یہ سوال اپنے آپ سے یاد دوسروں سے نہ کیاہوگا،کہ ہماری خلقت کاھدف اورمقصد کیاہے؟کچھ لوگ پید ا ہوتے ہیں،کچھ اس جہان سے رخصت ہوجاتے ہیں، اورہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں، اس آمدورفت کامقصد کیاہے؟
واقعاً اگرہم انسان اس کرئہ خاکی پرزندگی نہ گذار تے ،تواس اس عالم میں کون سی خرابی آ جاتی ؟اورکیامشکل پڑجاتی ؟ کیاہمیں ی معلوم کرناچاہیئے کہ ہم کیوں آ ئے ہیں، اور کیوں چلے جاتے ہیں؟ اور اگرہم اس چیز سے آگاہ ہوناچاہیں تو کیاہم اس کی قدرت رکھتے ہیں، اوراس سوال کے پیچھے بہت سے دوسرے سوالات فکر انسانی کااحاطہ کرلیتے ہیں ۔
یہ سوال اگرمادہ پر ستوں کی طرف سے پیش ہوتو ظاہراً اس کاکوئی جواب نہیں ہے .کیونکہ مادہ اور طبیعت اصلاً کوئی عقل و شعور نہیں رکھتے، کہ ان کاکوئی ھدف ہو، اوراسی بناء پرانہوں نے اپنے آپ کواس لحاظ سے آسودہ کرلیاہے، اورانہوں نے یہ عقیدہ اپنا لیاہے کہ خلقت بے مقصد اورفضول ہے !اور کتنی قابل مذمت اورتکلیف دہ بات ہے یہ کہ انسان اپنی زندگی کے جز ئیات کے لیے چاہے وہ تحصیل علم ہو یاکسب کار کے لیے یابیماری وصحت ہویا ورزش کے لیے ، تو دقیق مقاصد واھداف اورمنظم پروگرام نظر میں رکھتاہے، لیکن مجموعہ زندگی کوفضول ، بے ھدف اور بے مقصد سمجھتاہے ۔
اس کے لیے تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ ان میں سے ایک گروہ جب ان مسائل میں غور وفکرکرتاہے تواس فضول اوربے مقصد زندگی سے سیر ہوجاتاہے،اور خودکشی پرتیار ہوجاتاہے ۔
لیکن یہی سوال جب ایک خداپرست اپنے آپ سے کرتاہے تووہ کسی قسم کی الجھن اورتنگی سے دوچارنہیں ہوتا،کیونکہ ایک طرف تووہ یہ جانتاہے کہ اس جہان کاخالق حکیم ہے،حتمی و یقینی طورپر اس کی خلقت میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے ، چاہے ہم اس حکمت سے بے خبرہوں ، اور دوسری طرف اپنے اعضاء کے ایک ایک جز پر نظر ڈالتاہے، تواسے ہرایک میں کوئی نہ کوئی مقصد اور فلسفہ نظر آتاہے، نہ صرف دل ودماغ اور عروق واعصاب جیسے اعضار کے لیے ، بلکہ ناخنوں ،پلکوں،انگلیوں کی لکیروں ،ہتھیلیوں اورپاؤوں کے تلوے کے نشیب میں سے ہرایک کے لیے کوئی نہ کوئی فلسفہ ہے ،جوموجودہ زمانے میں سب کے سب معلوم کرلیے گئے ہیں ۔
کس قدر کوتاہ فہمی کی بات ہے کہ ہم ان سب کے لیے توھدف اورمقصد کے قائل ہوں، لیکن مجموعی زندگی کو بے مقصد سمجھیں؟
یہ کیسی سادہ لوحی کافیصلہ ہے کہ ہم شہر کی ہرہر منزل و مکان کے لیے توفلسفہ کے قائل ہوں، لیکن مجموعہ شہر کے لیے کسی فلسفہ کے قائل نہ ہوں ؟
کیایہ ممکن ہے کہ کوئی انجینئرایک عظیم عمارت تعمیر کرے ،اور کمرے ،صحن ،کھٹرکیاں، دروازے ،حوض ، باغیچے اور آرائشیںتوہرایک حساب وکتاب اورخاص مقصد کے لیے بنائے ،لیکن اس نے اس عظیم عمارت کے مجموعہ کوبغیر کسی مقصد کے بنادیا ہو ۔
یہی باتیں ہیں جوایک خداپرست مومن انسان کواطمینان دلاتی ہیں،کہ اس کی خلقت ایک ہی عظیم مقصد رکھتی ہے،لہٰذا اس کوکوشش کرنی چاہیئے ،اورعقل وعلم کی قوت سے اسے اصل حقیقت معلوم کرناچاہیئے ۔
تعجب کی بات ہے کہ یہ خلقت کو فضول جاننے والے ، اوراس کے بے مقصد ہو نے کے طرفدار ، علوم طبیعی کے جس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں، تومختلف کوفضول جاننے والے ، اوراس کے بے مقصد ہونے اورھدف کی تلاش میںلگے رہتے ہیں، اور جب تک اس کا ھدف اورمقصد دریافت نہ کرلیں چین سے نہیں بیٹھتے ،یہاں تک کہ اس کے وجود کافلسفہ معلوم کرنے کے لیے سالہا سال مطالعہ اورآ ز مائش کرتے رہیں ۔لیکن جب وہ انسان کی صل آفرینش وخلقت پرپہنچتے ہیں تو صراحت کے ساتھ کہتے ہیں، کہ اس کاکوئی ھدف اورمقصد نہیں ہے ۔
کتنا حیرت انگیزاورتعجب خیز تناقض ہے؟
بہرحال ایک طرف خداکی حکمت پرایمان ، اور دوسری طرف انسان کے وجود کے اعضاء کامعنی خیز ہونا ، اس بات پر ہمارا ایمان بختہ کردیتاہے،کہ انسان کی آفر ینش وخلقت میں ایک عظیم مقصد ہے ۔
اب ہمیں اس ھدف اورمقصد کوتلاش کرناچاہیئے اورحتی المقدور اسے معلوم کرنے کی کوشش کرناچاہیئے ، اوراس راہ میں قدم اٹھانا چاہیئے ۔
چند مقدمات کی طرف توجہ ایسے چراغ اور روشنی ڈالنے والی چیزیں مہیا کرسکتی ہے جواس تاریک راستہ کوہمارے لیے روشن کردے گی ۔
١۔ ہم اپنے کاموں میں کوئی نہ کوئی ھدف رکھتے ہیں، اوریہ ھدف عام طورپر ہماری کسی کمی یاحاجتوں کودفع کرناہوتاہے یہاں تک کہ اگرہم کسی دوسرے کی خدمت کرتے ہیں، یاکسی مصیبت میں گرفتارشخص کی دست گیری کرتے ہیں، اور اسے مصیبت سے نجات دلاتے ہیں،یہاں تک کہ کوئی ایثار وقربانی بھی کرتے ہیں تو یہ بھی ہماری کسی معنوی کمی کودُور کرتاہے ، اورہمارامقدس حاجات وضروریات کو پورا کرتاہے ۔
اور چونکہ ہم صفات وافعال خداکے بارے میں اکثراپنے پرقیاس کرنے اور مواز نہ کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں،لہٰذا ہوسکتاہے کہ کبھی یہ تصور کرلیا جائے کہ خدامیںوہ کونسی کمی تھی جوہماری خلقت سے دور ہوتی تھی؟اوریااگرہم اوپر والی آیات میں یہ پڑھتے ہیں کہ انسان کی خلقت کاھدف عبادت ہے،تو ہم کہتے ہیں،اسے ہماری عبادت کی کیا حاجت اور ضرورت ہے ۔
حالانکہ یہ طرزفکرخالق ومخلوق اورواجب وممکن کی صفات میں قیاس اورموازنہ کی پیدا وارہے ۔
اس بناپرکہ ہمارا وجود محدود ہے ہم اپنی کمیوں اورنقائص کودور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورہمارا سب اعمال اسی سلسلہ میں ہوتے ہیں،لیکن ایک غیر محدود موجود کے بارے میں یہ معنی امکان پذیر نہیں ہے ،لہٰذا اس کے افعال کے ھدف کوہمیں اس کے وجود کے علاوہ دوسرے موجودات میں تلاش کرناچاہیئے ۔
وہ توایک فیض بخش چشمہ ہے اورایک نعمت آفرین مبدء ہے ،جوموجودات کواپنی حمایت کے سائے میں لے لیتاہے اوران کی پر ورش کرکے نقص سے کمال کی طرف لے جاتاہے، اورہماری عبودیت وبندگی کاحقیقی وواقعی ھدف یہی ہے ،اور ہماری عبادات اور بندگیوں کافلسفہ بھی یہی ہے ، جوسب کی سب ہمارے تکامل وارتقاء کے درجات ہیں ۔
اس طرح ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہماری آفرینش وخلقت کاھدف ومقصد ہماری ہستی کی پیش رفت اورتکامل و ارتقاء ہے ۔
بنیادی طورپر اصل آفرینش وخلقت ہی تکا مل کی طرف ایک عظیم قد م ہے. یعنی کسی چیز کوعدم سے وجود میں لانا اور نیست سے ہست کرنا اور صفر سے عدد کے مرحلے میں لانا ۔
اس عظیم تکاملی قدم کے بعد تکامل وارتقاء کے دوسرے مراحل شروع ہوتے ہیں، اورتمام دینی اورخدائی پروگرام اسی طریقہ سے وقوع میں آ تے ہیں ۔
٢۔ یہاں ایک سوال سامنے آ تاہے .کہ اگر خلقت کاھدف ومقصد بندوں پرسخاوت وبخشش کرناہے ، اوراس میں پیدا کرنے والے کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ سخاوت انسانوں کے ارتقاء کے طریقہ سے ہے ، تو پھراس جو ادو کریم خدا نے ابتداسے ہی بندوں کاکامل پیدا کیوں نہ کیا؟ تاکہ سب ہی اس کے جوار قرب میں جگہ حاصل کرتے ، اوراس کی پاک ذات اختیار ی افعال کے ساتھ اس کی بنیاد ڈالنی چاہیئے ۔
اگرکسی شخص سے ایک ہسپتال بنانے کے لیے بہت زیادہ رقم ،زبردستی ،جبری طورسے ، نوک نیزہ کے زور پر، وصول کرلی جائے ، توکیااس کے لیے اس عمل کا کوئی اثر اخلاقی وروحانی ارتقاء پر مرتب ہوگا؟یقینا نہیں ،لیکن اگروہ اپنے ارادہ اورخوشی سے ایک آنہ یاد س پیسے کے ساتھ بھی اس مقدس ھدف اومقصد کے لیے مدد کرے تواس نے نسبت سے اخلاقی کمال کی راہ طے کرلی ہے ۔
اس گفتگو سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں،کہ خدا کے لیے لازم ہے کہ وہ امر ونواہی اورتربیتی پرو گراموں کے ساتھ جو قوت عقل کے وسیلہ سے اوراس کے پیغمبروں کے ذریعہ پہنچائے جاتے ہیں... اس راہ کوہمارے لیے واضح و روشن کردے ، اور ہم اپنے ارادہ اوراختیار کے ساتھ اس راستے کوطے کریں ۔
٣۔ پھر یہاں ایک دوسرا سوال سامنے آتاہے ، کہ جس وقت بعض لوگ اوپروالی توضیحات کوسنتے ہیں تووہ یہ کہتے ہیں :بہت خوب، ماناکہ خلقت کاھدف اورمقصد توتکامل انسانی ہے ، یادوسرے لفظوں میں پر وردگار کاقرب ،اورایک ناقص وجود کی ایک لامتناہی کامل وجود کی طرف حرکت ہے ،لیکن اس تکامل وارتقاء کابذات خود ھدف کیاہے ؟
اس سوال کاجواب بھی اس جملہ کے ساتھ واضح ہوجاتاہے ،کہ تکامل وارتقاء ہی اصلی ھدف اورآخری مقصد ہے ،یادوسرے لفظوں میں غایة الغایات ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ :اگر ہم کسی طالب علم سے یہ سوال کریں کہ تم سبق کیوں پڑھتے ہو؟ تووہ کہے گا، تاکہ میں یونیورسٹی تک پہنچ سکوں ۔
اگرہم پھرسوال کریں کہ تم پونیورسٹی کیوں جانا چاہتے ہو؟تووہ جواب دے گا: اس لیے کہ مثلا ڈاکٹر یاایک لائق انجینئربنوں ۔
ہم اس سے پھر پوچھتے ہیں کہ تم ڈاکٹر اورانجینئرکاعلم کیوں حاصل کرناچاہتے ہو؟ تو وہ جواب دے گا: اس لیے کہ کچھ اچھے کام سرانجام دوں اوراچھی آمدنی پیداکروں ۔
ہم پھرکہتے ہیں :تم اچھی آمدنی کس لیے چاہتے ہو ؟ تو وہ جواب د ے گا : اس لیے کہ آ برومند انہ اورخوشحال زندگی بسر کرسکوں ۔
آخر میں ہم پوچھتے ہیں کہ تم خوشحال اور آبرو مندانہ زندگی کس لیے چاہتے ہو؟
اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی گفتگو کالب ولہجہ بدل جاتاہے ، اور کہتاہے: بس میں چاہتا ہوں کہ خوشحال اور آبرو مندانہ زندگی بسر کروں ، یعنی پھر اسی پہلے جواب کودہرا دیتاہے ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آخری جواب ، اوراصطلاح کے مطابق غایة الغایات تک پہنچ گیاہے جس کے بعد کوئی اور جواب نہیں ہے ،اوروہی اس کاآخری ھدف اورمقصد ، یہ بات تومادی زندگی کے مسائل میں سے ہے، معنوی زندگی میں بھی مطلب اسی طرح کاہے جب یہ کہاجاتاہے ،کہ انبیاء کاآنا،آسمانی کتابوں کانازل ہونا، اور اوامرونواہی کی ذمہ داریاں اور سارے تربیتی پروگرام کس لیے ہیں؟توہم کہتے ہیں: انسانی تکامل وارتقا ء اورقرب خداکے لیے ۔
اوراگر یہ سوال کیاجائے کہ تکامل وارتقااورقرب خدا کے لیے ۔
اور اگر یہ سوال کیاجائے کہ تکامل وارتقاء اورقرب پروردگارکس مقصد کے لیے ہے ، توہم دیں گے کہ قرب پروردگار کے لیے ! یعنی یہ اصلی اورآخری مقصد ہے ، اور دوسرے لفظوں میں ہم ہر چیزتوتکامل اورقربِ خدا کے لیے چاہتے ہیں، لیکن قرب خداکو خود اسی کے لیے چاہتے ہیں( یعنی قرب پروردگار کے لیے ) ۔
٤۔ یہاں پھر ایک سوال پیداہوتاہے جیساکہ ایک حدیث میں آ یاہے ،خداوند فرماتاہے: کنزً مخفیّاً فاحببت ان اعرف وخلقت الخق لکی اعرف میں ایک مخفی خزانہ تھامیں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں،تومیں نے مخلوق کوپیدا کیا، تاکہ میں پہچاناجاؤں۔
تم نے جوکچھ بیان کیاہے اس سے یہ حدیث کیامناسبت رکھتی ہے ۔
ہم جواب میں کہتے ہیں!قطع نظراس سے کہ یہ حدیث ایک خبر واحد ہے،اور اعتقادی مسائل میںخبرواحد کام نہیں دیتی ،حدیث کامفہوم یہ ہے،مخلوق کے لیے خدا کی پہچان ان کے تکامل کاذریعہ ہے ،یعنی میں نے یہ چاہا کہ میری رحمت کافیض ہرجگہ کوگھیرلے ، پس اسی بناء پر میں نے مخلوق کوپیداکیا، اوران کی سیر کمال کے لیے اپنی معرفت کے راہ و رسم اسے سکھائے ،کیونکہ میری معرفت وشناخت ہی ان کے تکامل کی رمز ہے ۔
ہاں !بندوں کوچاہیے کہ وہ خدا وندتعالیٰ کی ذات کو ، جوتمام کمالات کامنبع ہے،پہچانیں ، اپنے آپ کواس کے کمالات کے مطابق ڈ ھالیں اوراس کاسایہ اپنے وجود پرڈالیں(اس کے رنگ میں خود فروازں کورنگ لیں)تاکہ ان صفات کمال وجمال کا نوران کے وجودمیں ہو، کیونکہ تکامل وارتقااورقرب خدا ، اس کے اخلاق کواپنائے بغیر ممکن نہیں ہے ،اور اس کے اخلاق کواپنانا اس کی معرفت وشناخت کی فرع ہے ۔(غور کیجئے )
٥۔ جوکچھ ہم نے اوپر بیان کیاہے ، اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے ہم آ خری نتیجہ سے قرب ہوتے جارہے ہیں، اورکہتے ہیں کہ خدا کی عبادت اور عبو دیت یعنی اس کی مشیت کی راہ میں قدم اٹھانا ، اورروح اورجان کواس کے سپردکردینا ، اور اس کے عشق کواپنے دل میں جگہ دینا، اوراپنے آپ کواس کے اخلاق سے آراستہ کرنا ۔
اوراگر اوپروالی آ یات میںعبادت کوخلقت کاآخری ھدف اورمقصد بیان کیاگیاہے،تواس کامفہوم یہی ہے کہ اس کو دوسرے لفظوں میں تکامل انسانی کے عنوان سے یاد کیاجائے ۔
ہاں !انسان کامل ہی خدا کاسچابندہ ہے ۔
٥۔انسان کی خلقت کے فلسفہ کے سلسلہ میں اسلامی روایات پرایک نظر
ہم نے اوپر دو طریقوں سے انسان کی خلقت کے ھدف کاتعاقب کیاہے، ایک آیات قرآنی کی تفسیر کے طریقہ سے اوردوسرے فلسفہ کے طریقہ سے اور دونوں نے ہمیں ایک ہی نقطہ تک پہنچایاہے ۔
اب تیسری راہ سے ، یعنی اسلامی روایات کے طریقہ سے ،اس نصیب ساز مسئلہ کوبیان کرنے کی باری ہے ۔
ذیل کی روایات میں غور وفکر جوان روایات کاحصہ ہے ،اس مسئلہ میں ایک زیادہ عمیق اورگہری بصیرت عطاکرتاہے ایک حدیث میں امام موسیٰ بن جعفرعلیہ السلام سے آیاہے کہ آنحضرت سے لوگوں نے سوال کیاکہ پیغمبرکے اس ارشاد کاکیا مطلب ہے:
اعملوا فکل میسرلما خلق لہ
جہاں تک ہوسکے عمل کروکیونکہ تمام انسان جس مقصد کے لیے خلق کے گئے ہیں اس کے لیے آمادگی رکھتے ہیں؟
امام علیہ السلا م نے فرمایا:
ان اللہ عزو جل خلق الجن والانس لیعبدو ہ ، ولم یخلقھم لیعصوہ وذالک قولہ عزو جل وما خلقت الجن والانس الّا لیعبدون فیسرکلا لماخلق لہ، فویل لمن استحب العمی علی الھدی
خداوند تعالیٰ نے جنوں اورانسانوں کواس لیے پیدا کیاہے کہ وہ اس کی عبادت اوراطاعت کریں، اس لیے پیدا نہیں کیاکہ وہ اس کی نافرمانی کریں، اور یہ وہی چیز ہے جوفر ماتاہے :
وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الِْنْسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُون اور چونکہ انہیں اطاعت کے لیے پیداکیاہے ، لہٰذا اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ان کے لیے راستہ کوآسان اور ہموار کردیا ہے،پس وائے ہے اس شخص کے لیے جوآنکھ بند کرکے اندھے پن کوہدایت پرترجیح دے ( ١) ۔
یہ حدیث اس حقیقت کی طرف ایک پرمعنی اشارہ ہے کہ چونکہ خدانے انسانوں کوتکامل وارتقاء کے مقصد کے لیے پیدا کیاہے ، لہٰذا اس نے تکوین وتشریع کے لحاظ سے اس کے وسائل و ذرائع فراہم کئے ہیں اوراس کے اختیار میں دے دیئے ہیں ۔
ایک دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے سامنے آئے اوراس طرح فر مایا:
ان اللہ عزو جل ماخلق العباد الا لیعرفوہ ،فاذ اعرفوہ عبدوہ ، فاذاعبدوہ استغنوابعبادتہ عن عبادة من سواہ َ
خدائے عزو جل نے بندوں کونہیں پیداکیامگر اس لیے کہ وہ اس کو پہچانیں ، جب اس کوپہچان لیں تو اس کی عبادت کریں، اور جب وہ اس کی عبادت کریں گے تواس کے غیر کی عبادت و بندگی سے بے نیاز ہوجائیںگے (٢)
١۔توحید صدوق(مطابق نقل المیزان ،جلد١٨ صفحہ ٤٢٣) ۔
٢۔ "" علل الشرائع"" صدوق (مطابق نقل مدرک اول)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma