دوسرادیدار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات ،وحی اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خدا سے ارتباط، اوراس کے شہود باطنی کے مسئلہ کے بارے میں ،اسی طرح سے گزشتہ آیات کی بحث کوجاری رکھے ہوئے ہیں ۔
فرماتاہے: ایک مرتبہ پھر پیغمبر نے اس کامشاہدہ کیا (وَ لَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْری) ۔
اور یہ شہود وسدرہ المنتہیٰ کے پاس حاصل ہوا(عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہی ) ۔
وہی کہ جنت المادیٰ اور بہشت بریں اس کے پاس ہے (عِنْدَہا جَنَّةُ الْمَأْوی) ۔
اس وقت جب کہ کسی چیزنے سدرة المنتہیٰ کوگھیرا ہواتھا اورڈھانپ رکھاتھا (اذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ ما یَغْشی) ۔
یہ وہ واقعات وحقائق تھے جن کا پیغمبرنے مشاہدہ کیاتھا، اوراس کی آنکھ نے ہرگز انحراف نہیں کیاتھا، اور نہ ہی سرکشی کی تھی اور باطل تصوّرات کوحق کے لباس میں نہیں دیکھاتھا (ما زاغَ الْبَصَرُ وَ ما طَغی) ۔
اس نے وہاں اپنے پر وردگار کی عظیم اوربڑی آیات اور نشانیوں کامشاہد ہ کیاتھا (لَقَدْ رَأی مِنْ آیاتِ رَبِّہِ الْکُبْری) ۔
جیساکہ ہم دیکھتے ہیں وہی ابہام ،جس نے شروع شروع میں گزشتہ آیات کوگھیراہواتھا، اسی نے ان آیات پربھی جوانہیں مطالب کادوسراحصہ ہے سایہ ڈ الا ہواہے،لہذا ان آیات کے مفاد کوواضح کرنے کے لیے ہرچیزسے پہلے ہم مفردات کوبیان کریں گے ،اس کے بعد اس کے مجموعہ پر نظر ڈالیں گے ۔
نزلة ایک مرتبہ نازل ہونے کے معنی میںہے اس بناپر نزلة اخرٰییعنی ایک مرتبہ اورنازل ہونے ہیں (١) ۔
اس تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ نزول دومرتبہ ہواہے ،اور یہ ماجرا دوسرے نزول سے مربوط ہے ۔
سدرة (بروزن حرفة) مفسرین اورعلماء لغت کے عمومی قول کے مطابق، ایک درخت ہے جوگھنے پتوں والا اور سا یہ دارہوتاہے ،(بیری)اور سدرة المنتہیٰ کی تعبیر اس سایہ دار اور گھنے پتوں والے درخت کی طرف اشارہ ہے جوآسمان کی بلندی پرفرشتوں، ارواح شہدائ، علوم انبیاء ،اورانسانوں کے اعمال کے بلند ہونے کی انتہاپرواقع ہے ،وہ جگہ جس سے اوپرپروردگار کے فرشتے نہیں جاتے ،اورجبرئیل بھی سفر معراج میں جب اس جگہ پہنچے تورک گئے ۔
سدرة المنتہیٰ کے بارے میں اگرچہ قرآن مجید میں کوئی وضاحت نہیں آ ئی ہے ،لیکن اسلامی روایات واخبار میں اس کے بارے میں گوناں گوں توصیفات بیان کی گئی ہیں،اوروہ سب کی سب اس واقعیت اورحقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ اس تعبیر کاانتخاب ایک قسم کی تشبیہ کے عنوان سے ہے اور اس قسم کے بزرگ واقعات کے بیانات ہماری لغات اور زبانوں کی کوتاہی کی بناپرہیں ۔
ایک حدیث میں پیغمبراسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل ہواہے ،کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
رأیت علیٰ کل ورقة من اوراقھا ملکا قائماً یسبح اللہ تعالیٰ
میں نے اس کے ہر پتہ پرایک فرشتہ کودیکھا کہ وہ کھڑاہواتھا اورخداکی تسبیح کرتاتھا(٢) ۔

ایک دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
انتھیت الیٰ سدرة المنتھیٰ،واذ االورقة منھا تظل امة من الامم
میں سدرة المنتہیٰ تک پہنچا تودیکھا کہ اس کے ہر پتہ کے سایہ میں ایک امت قرار پائی ہے(٣) ۔
یہ تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جیسے درخت ہم زمین پر دیکھتے ہیں ان کے مشابہ درخت ہرگز مراد نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک عظیم سائبان کی طرف اشارہ ہے ، جورحمت حق کے قرب وجوار میں واقع ہے ،جس کے پتوں پرفرشتے تسبیح کرتے ہیں، اور مختلف امتوں کے نیک اورپاک لوگ اس کے سایے میں قرار رکھتے ہیں ۔
جنة المأ وی اس بہشت کے معنی میں ہے جوجائے سکونت ہے(٤)اوراس بارے میں کہ یہ کونسی بہشت ہے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ،بعض نے اسے وہی بہشت جاودانی جنة الخلد سمجھاہے ،جوتمام اہل ایمان اورپرہیزگاروں کے انتظار میں ہے ،اور وہ اس کی جگہ آسمان سمجھتے ہیں ،اور سورئہ سجدہ کی آ یت ١٩ کواس پرشاہد سمجھتے ہیں فَلَہُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوی نُزُلاً بِما کانُوا یَعْمَلُون صالح عمل والے مؤ منین کے لیے جنت کے باغات ہیں جن میں وہ قیام کریں گے ، اور یہ ان کے ان اعمال کے مقابلہ میں جنہیں وہ انجام دیاکرتے تھے ،پذیرائی کاایک ذریعہ ہے کیونکہ یہ آ یت بعد والی آیت کے قرینہ سے مسلمہ طورپر بہشت جاودانی کی بات کررہی ہے ۔
لیکن چونکہ ایک دوسری جگہ یہ بھی آ یاہے کہ وَ سارِعُوا ِلی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّماواتُ وَ الْأَرْض پروردگار کی مغفرت میں اوراس جنت کی طرف ،جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ،ایک دوسرے پرسبقت لے جاؤ (آل عمران۔ ١٣٣) لہٰذا بعض نے اس معنی کو بعید شمار کیاہے ،کیونکہ زیربحث آیات کاظاہر اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ جنة المأ ویٰ آسمان میں ہے اور یہ اس بہشت جاودانی کے علاوہ ہے جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔
لہٰذا کبھی اس کی بہشت کی ایک مخصوص جگہ کے ساتھ تفسیر کی ہے جو سدرة المنتہیٰ کے پاس ہے اور جوخواص اورمخلصین کی جگہ ہے ۔
اور بعض اوقات یہ کہاہے کہ وہ برزخی جنت کے معنی میں ہے ،جس میں شہداء اورمؤ منین کی ارواح وقتی طورپر جائے گی۔
آخری تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ،اوروہ امور جووضاحت کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتے ہیں یہ ہے کہ معراج کی بہت سی روایات میں آیاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس جنت میںایک گروہ کومتنعم دیکھا ، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی شخص قیامت کے دن سے پہلے بہشت جاوداں میں وارد نہیں ہوگا ، کیونکہ قرآنی آ یات بخوبی دلالت کرتی ہیں کہ پرہیزگار قیامت میںحساب کتاب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے نہ کہ موت کے بعد بلا فاصلہ ، اور ارواح شہداء بھی برزخی جنت میں ہی قرار رکھتے ہیں ، کیونکہ وہ بھی قیام قیامت سے پہلے بہشت جاوداں میں وارد نہیں ہوں گے ۔
ما زاغَ الْبَصَرُ وَ ما طَغی کی آ یہ اس معنی کی طرف اشارہ ہے ،کہ پیغمبر )(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی آنکھ اپنے مشاہدہ میں نہ تو دائیں بائیں ہوئی ، اورنہ ہی حد اورمقصد سے تجاوز کیا، اور جوکچھ دیکھاہے وہ عین واقعیت تھی ،(کیونکہ زاغ زیغ کے مادہ سے دائیںیابائیں انحراف کے معنی میں ہے اور طغیٰ طغیان کے مادہ سے حد سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے ۔
دوسرے لفظوں میںانسان کسی چیزکے مشاہدہ کے موقع پرجب خوداس چیز کی طرف توجہ نہیں کرتا، یادائیں بائیں یااس سے ہٹ کردیکھنے لگتاہے ،تواس وقت وہ غلطی میں پڑ جاتاہے(٥) ۔
ہم آیات کے مفردا ت کی تفسیر سے فارغ ہوچکے تواب آیات کی اجتماعی تفسیر پیش کرتے ہیں ۔
یہاں پھر وہی دونظر یے ، جوسابقہ آیات کی تفسیر میں تھے ، بیان ہوئے ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے آ یات کو، دوبارہ جبرئیل سے اس کی اصلی صورت میں ، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات کی طرف واضح سمجھاہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا نے معراج سے نزول کے وقت اسے سدرة المنتہیٰ کے پاس اس کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھا ، اور آپ کی آنکھ اس کے مشاہدہ سے کسی قسم کے اشتباہ اورغلطی میں گرفتار نہیں ہوئی ،پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں حق تعالیٰ کی بعض عظیم آ یات کامشاہدہ کیا،جس سے مراد یاتووہی جبرئیل کی صورت واقعی ہے ،یاآسمانوں کی عظمت کی آ یات اوران کے عجائبات ،یا یہ دونوں ۔
لیکن وہی اشکالات واعتراف جواس تفسیر کے لیے ہم پہلے بیان کرچکے ہیںوہ اسی طرح سے باقی ہیں ،بلکہ کچھ اور اعترافات کاان پرااور اضافہ ہوگیاہے ،منجملہ۔
نزلة اخریٰ(ایک دوسرے نزول میں) کی تعبیر اس تفسیر کے مطابق کوئی واضح مفہوم نہیں رکھتی ،لیکن دوسری تفسیر کے مطابق پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ایک دوسرے شہود باطنی میں آسمانوں کے اوپر معراج کے موقع پر خداکی ذات پاک کامشاہد کیا، اور دوسرے لفظوں میںخدانے ایک مرتبہ پھر ان کے پاک دل پر نزول فرمایا، (نزلة اخریٰ)اور شہود کامل حاصل ہوگیا، ایسے مقام پر جہاں بندوں کی طرف کو نور کے حجابوں نے ڈھانپ رکھاتھا ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دل کی نگاہ ،اس شہود میں ہرگز غیرحق پرنہیں پڑی ،اوراس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ،اوروہیں پرخدا کی عظمت کی نشانیاں آفاق وانفس میں بھی مشاہدہ کیں ۔
شہودباطنی کامسئلہ جیساکہ ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں ۔ایک قسم کاایسا ادراک اور دیکھنا ہے جو نہ تو ادراکاتِ عقلی سے مشابہت رکھتاہے ،اور نہ ہی ادراکات حسی کے ساتھ، کہ جنہیں انسان حواس ظاہر کے ذ ریعہ درک کرتاہے اور اسے کئی جہات سے انسان کے اپنے وجود اوراپنے افکار وتصورات کے علم کے مشابہ سمجھا جاسکتاہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ : ہم اپنے وجود کایقین رکھتے ہیں، اپنے افکار کاادراک کرتے ہیں، اور اپنے ارادہ خواہشات اوررجحانات سے باخبر ہیں،لیکن یہ آ گاہی نہ توطریق استدلال سے ہمیں حاصل ہوئی ہے ،اورنہ ہی مشاہدہ ظاہری کے طریق سے ، بلکہ یہ ہمارے لیے ایک قسم کاشہود باطنی ہے ، کہ ہم اس طریقہ سے اپنے وجود اوراپنی نفسیات سے واقف ہیں ۔
اسی علمی دلیل کی بناپر جوشہود باطنی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اس میں کسی قسم کی کوئی خطا واقع نہیں ہوتی ، کیونکہ وہ نہ تواستد لال کے طریقے سے ہے ، کہ جس کے مقدمات میں کوئی غلطی واقع ہوئی ہو، اورنہ ہی وہ حسی طریقہ سے ہے کہ حواس کے طریقہ سے اس میں کوئی خطا رونماہو ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہم اس شہود کی حقیقت کو، جوپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے معراج کی اس تاریخی رات میں خداکی نسبت پیداکی ،نہیں پاسکتے ،لیکن ہم نے ایک مناسب راہ سے نزدیک ہونے کے لیے ایک مثال دی ہے ، اور اسلامی روایات بھی ہمارے راستہ کی راہ کشائی کررہی ہیں ۔
١۔بعض ارباب لغت اور مفسرین نے "" نزلة"" کو""مرة " کے معنی میں تفسیر کیا ہے ،اس بناپر اس میں نزول کامعنی نہیں ہے ،اور"" نزلة اخرٰی"" صرف دوسری مرتبہ کے معنی میں ہے ، لیکن معلوم نہیں ہے کہ انہوںنے "" نزلة "" کے اصل مادہ کوکیوں چھوڑ دیاہے ،جب کہ دوسروں نے اسے محفوط رکھاہے ،اورہمارے بیان کے مطابق تفسیر کی ہے(غورکیجئے ) ۔
٢۔""مجمع البیان "" زیربحث آیات کے ذیل میں ۔
٣۔ نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ١٥٥۔
4۔" مادیٰ" اصل میں محل انفمام (ملنے)کے معنی میں ہے ،اور چونکہ مکان میں لوگوں کی سکونت ان کے ایک دوسرے سے انضمام اورملنے کاسبب ہے اس لیے یہ لفظ محل سکونت پربولا گیاہے۔
٥۔تفسیر "" المیزان""میں پہلا لفظ"" کسی چیز کے مشاہدہ کی کیفیت میں خطا کرنے "" کے معنی سے تفسیر ہواہے ،اور دوسرا لفظ"" اصل دیکھنے میں خطا کرنے"" کے معنی میں ، لیکن اس فرق کے لیے کوئی واضح دلیل بیان نہیں کی گئی ، بلکہ لغت میں جوکچھ آ یاہے ،وہ وہی تفسیر ہے جوہم نے اوپر بیان کی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma