تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
توحیدو وحی ومعراج اور آسمانوں میں خدائے یگانہ کی عظمت سے مربوط مباحث کے بیان کے بعد بتوں کے بارے میں مشرکین کے شرک اوربیہودہ عقائد کے بطلان کوپیش کرتاہے ۔
خداکی عظمت اوراس کی عظیم آ یات اورنشانیوں کوجان لینے کے بعد مجھے بتاؤ توسہی کیاپھر بھی لات و عزیٰ بت ہی ... (أَ فَرَأَیْتُمُ اللاَّتَ وَ الْعُزَّی) ۔
اوراسی طرح سے منات جوان کاتیسرابت ہے ،جسے ان کے بعد ذکر کرتے ہو، کیا یہ مورتیاں خداکی بیٹیاں ہین ،اور تمہیں کوئی فائدہ یانقصان پہنچاسکتے ہیں (وَ مَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْری)(١) ۔
کیاتمہاراحصہ توبیٹے ہیں اور اس کا حصہ بیٹیاں ؟(أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الْأُنْثی)حالانکہ تمہارے خیال میں بیٹیاں ،بیٹوں سے کم قدر وقیمت ہیں ، یہاں تک کہ جب تم یہ سنتے ہو کہ تمہاری بیوی نے بیٹی جنی ہے توتم غم واندوہ کی شدت اورغصہ سے سیاہ ہوجاتے ہو ۔
اگراسی طرح ہے تو پھر یہ تقسیم ایک غیر عادلانہ تقسیم ہے ۔جوتم نے خوداپنے اورخدا کے درمیان روارکھی ہے(تِلْکَ ِذاً قِسْمَة ضیزی)(٢) ۔
کیونکہ خداکے حصہ کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہو ۔
اس طرح قرآن ان کے گریہوئے اور بے ہودہ افکار کامذاق اڑاتاہے کہ تم ایک طرف تو بیٹیوںکوزندہ درگور کرتے ہو، انہیں ننگ وعیب سمجھتے ہواور دوسری طرف فرشتوں کوخداکی بیٹیاں سمجھتے ہو، تم نہ صرف خودان کی پرستش کرتے ہو،بلکہ ان کے بے روح مجسمے بھی بتوں کی صورت میں تمہاری نظر میں اتنے محترم ہیں کہ ان کے سامنے سمجدہ کرتے ہو، مشکلات میں ان سے پناہ مانگتے ہو، اور اپنی حاجتیں ان سے طلب کرتے ہو، حقیقتاً یہ ایک مذاق اور شرم والی بات ہے ۔
اسی سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کم ازکم پتھر اورلکڑی کے بہت سے بت جن کی عرب پرستش کیاکرتے تھے ،ان کے گمان میں فرشتوں کے مجسمے تھے ،وہ فرشتے جنہیں وہ رب النوع اورعالم ہستی کامدیرومدبر سمجھتے تھے ،اور خداسے ان کی نسبت بیٹی اور باپ کی نسبت خیال کرتے تھے ۔
جس وقت ان خرافات کاایک دوسری بیہودہ گی کے ساتھ ،جووہ بیٹیوں کے بارے میں سمجھتے تھے مقابلہ کیاجاتاہے توان کاعجیب وغریب تضاد،خودان کے مقائد وافکار کے بے بنیاد ہونے کاایک بہترین گواہ بن جاتاہے ،اور کتنی عمدہ بات ہے کہ یہ چند مختصر سے جملوں کے ساتھ قرآن ان سب پرخط بطلان کھینچتے ہوئے ان کے مذاق اورمسخرہ پن کوآشکار کردیتاہے ۔
اوراسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ قرآن کاہرگز منشا یہ نہیں ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں کے بیٹی اور بیٹے کے درمیان فرق کے بارے میںا عتقاد کوقبول کرلے ،بلکہ وہ اس طریقہ سے مدمقابل کے مسلمات کواس کے خلاف پیش کرناچاہتا ہے جسے منطق کی اصطلاح میں جدلکہتے ہیں، ورنہ اسلام کی منطق میں ، انسانی قدرومنزلت کے لحاظ سے ، نہ تو بیٹے اور بیٹیوں میں کوئی فرق ہے ،اور نہ ہی فرشتے بیٹی یابیٹا ہیں اور نہ اصلاً وہ خدا کی اولاد ہیں ،اور نہ ہی اصولاً خدااولاد رکھتاہے ، یہ بے بنیاد مفرد ہیں جن کی بنیاد دوسرے بے بنیاد ومفرد ضون پرہے ،لیکن یہ ان لغوبت پرستوں کے فکر ومنطق کے ضعف وکمزوری کوثابت کرنے کے لیے بہترین جواب ہے ۔
آخری زیر بحث آ یت میں قرآن قاطعیت کے ساتھ کہتاہے ، یہ توفقط نام ہی نام ہیں جوتم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے ان کے رکھے ہوئے ہیں،(ایسے نام جوبے معنی اور اسمائے بے مسمی ہیں) اور خدا نے ہرگز کوئی دلیل اورحجت اس پر نازل نہیں کی ہے (انْ ہِیَ ِلاَّ أَسْماء سَمَّیْتُمُوہا أَنْتُمْ وَ آباؤُکُمْ ما أَنْزَلَ اللَّہُ بِہا مِنْ سُلْطان)(٣)۔
نہ توا س پرتم کوئی عقلی دلیل رکھتے ہو، اور نہ ہی وحی کے طریق سے کوئی دلیل تمہارے پاس ہے ،اور یہ مٹھی بھراوہام و خرافات اورکھو کھلے الفاظ کے سوااور کچھ نہیںہے ۔
آخر میں مزید کہتاہے :وہ توصرف بے بنیاد گمانوں اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں اور یہ موہوم باتیں سب کی سب خیال اور ہوائے نفس کی پیدا وار ہیں(انْ یَتَّبِعُونَ ِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَہْوَی الْأَنْفُسُ)(٤) ۔
حالانکہ ان کے پروردگارکی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے (وَ لَقَدْ جاء َہُمْ مِنْ رَبِّہِمُ الْہُدی) ۔
لیکن وہ آنکھیں بند کرکے اس سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں اوران اوہام کی ظلمتوں میں ڈوب جاتے ہیں ۔
١۔ ان تینوں بتوں کے بارے میں ہم انشاء اللہ نکات کی بحث میں تفصیل سے گفتگو کریں گے ، جوچیز یہاں قابل توجہ ہے وہ "" ثالثة"""" تیسرا"" اور"" آخری "" (متأخر)کی تعبیر ہے ،جو منات بت کے بارے میں آئی ہے ،علماء نے ان دونوں تعبیروں کے لیے بہت زیادہ تفسیر یں بیان کی ہیں، جن میں سے اکثر بے بنیاد تکلفات ہیں، جوکچھ زیادہ مناسب نظر آتاہے ،وہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کے نزدیک ان بتوں کی اہمیت اسی ترتیب کے ساتھ ہے جوآ یت میں بتائی گئی ہے ۔ تواس بناپر ""منات"" تیسرے مرحلہ میں قرار پاتاہے، اور"" اخری"" کے ساتھ اس کی توصیف اس کے رتبہ ومقام کے تاخر کی بناپر ہے ۔
٢۔"" ضیرٰی"" ناقص ، ظالمانہ اور غیر معتدل کے معنی میں ہے ۔
٣۔"" سلطان"" تسلط اورغلبہ کے معنی میں ہے اور زندہ ویقینی دلائل کو"" سلطان"" کہاجاتاہے،کیونکہ وہ دشمن پرغلبہ کا سبب ہوتے ہیں ۔
٤۔""ماتھوی الانفس ""میں با""موصولہ "" ہے یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ مصدر یہ ہو البتہ نتیجہ کے لحاظ سے کچھ فرق نہیں ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma