خود ستائی نہ کروہ تمہیں اچھی طرح پہچانتاہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

چونکہ گزشتہ آ یات میں گمراہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں کی نسبت علم خداکے بارے میں گفتگو تھی ،زیربحث میں اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتاہے ، جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے ،سب خدا کے لیے ہی ہے (وَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْأَرْضِ ) ۔
عالم ہستی میں مالکیت مطلقہ اسی کے لیے ہے ،اورحاکمیت مطلقہ بھی اسی کے لیے ہے ،اسی بناپرعالم ہستی کی تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور جب یہ بات ہے توپھر اس کے علاوہ اورکوئی عبودیت وشفاعت کے لائق نہیں ہے ۔
اس وسیع مخلوق کی خلقت سے اس کا سب سے بڑا ھدف اورمقصد یہ ہے کہ انسان یعنی عالمِ ہستی کے گل سرسبد کوتکوینی اور تشریعی پروگراموں اورانبیاء کی تعلیم وتربیت کے ذ ر یعہ تکامل وارتقاء کی راہ میں آ گے لے جائے ۔
لہٰذاآ یت کے آخرمیں اس مالکیت کے نتیجہ کے عنوان سے فرماتاہے : غرض ومقصدیہ ہے کہ بدکاروں کوان کے بُرے اعمال کی بناپر سزااور عذاب دے اور نیکو کاروں کوان کے اچھے اعمال کے لیے اجرو پاداش عطاکرے (لِیَجْزِیَ الَّذینَ أَساؤُا بِما عَمِلُوا وَ یَجْزِیَ الَّذینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی)(١) ۔
اس کے بعد نیکوکار وں کے اس گروہ کی توصیف وتعریف کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے ،: وہ وہی لوگ ہیں جو گناہانِ کبیرہ اور برے اعمال سے دوری اختیار کرتے ہیں، اوراگران سے کوئی گناہ ہوتابھی ہے تووہ صرف صغیرہ ہوتاہے (الَّذینَ یَجْتَنِبُونَ کَبائِرَ الِْثْمِ وَ الْفَواحِشَ ِلاَّ اللَّمَمَ) ۔
کبائر جمع ہے کبیرہ کی اور اثم اصل میں اس عمل کو کہتے ہیں جوانسان کوخیروثواب سے دور کردیتاہے ،لہٰذا عام طورپرگناہوں کے لیے بولا جاتاہے ۔
لمم(بروزن قلم)مفرداتمیں راغب کے قول کے مطابق ، گناہ سے قریب ہونے کے معنی میں ہے ،اورگناہانِ صغیرہ کوبھی لمم کہاجاتاہے ،اصل میں یہ لفظ المام کے مادہ سے لیاگیاہے ،جوکسی چیز کوانجام دیتے بغیراس کے قریب ہونے کے معنی میں ہے ، اور بعض اوقات قلیل اور کم اشیاء پربھی اس کااطلاق ہواہے ، (گناہ صغیرہ پراطلاق بھی اسی بناپر ہے ) ۔
مفسرین نے بھی لمم کے لیے تقریباً اسی قسم کی تفسیریں بیان کی ہیں، بعض نے اس کی گناہ صغیرہ کے ساتھ اوربعض نے اسے مصیب کی نیت اسے انجام دیئے بغیر، اوربعض نے کم اہمیت معاصی کے ساتھ اس کی تفسیر کی ہے ۔
بعض اوقات یہ بھی کہاگیاہے کہ لمم ہرقسم کے گناہ کوشامل ہے ،چاہے وہ چھوٹاہویابڑا ،لیکن اس کی عادت نہ پڑگئی ہو، اوروہ کبھی کبھار سرزد ہوجاتاہو، اورانسان متذ کرہو کراس سے توبہ کرلے ۔
اسلامی روایات میں بھی اس لفظ کے لیے گوناں گوں تفسیر یں آئی ہیں،ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہواہے کہ آپ علیہ السلام نے اس آ یت کی تفسیرمیں فرمایا:
ھوالذنب یلم بہ الرجل فیمکث ماشاء اللہ ،ثم یلم بہ بعد
اس سے مراد وہ گناہ ہے جسے انسان کوبیٹھتا ہے پھر ایک مدت تک اس سے رکارہتاہے،اورپھر دوبارہ اس سے آلودہ ہوجاتاہے ،(لیکن یہ اس کاہمیشہ کاعمل ہرگز نہیں ہے )(٢) ۔
ایک او ردوسری حدیث میں اُسی امام علیہ السلام سے یہ منقول ہواہے کہ :
اللمم الرجل یلم بہ الذنب فیستغفر اللہ منہ
لمم یہ ہے کہ انسان کوئی گناہ کربیٹھے اورپھراس سے استغفار کرے (٣) ۔
اور دوسری روایات بھی اسی مفہوم کی نقل ہوئی ہیں ۔
آ یت میں موجود قرائن بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ لمم ان گناہوں کے معنی میں ہے جوکبھی کبھار انسان سے سرزد ہوجاتے ہیں ،پھروہ متوجہ ہوکرانہیں چھوڑ دیتاہے ۔
کیونکہ کبائر سے لمم کااستثناء (اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے استثناء کاظاہر ،استثناء متصل ہے)اس معنی پرایک گواہ ہے ۔
علاوہ ازیں قرآن بعد والے جملہ میں کہتاہے ، تیرے پروردگارکی بخشش بہت وسیع ہے نَّ رَبَّکَ واسِعُ الْمَغْفِرَةِ) ۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہواہے جس کے لیے پروردگار کے غفران کی ضرورت ہے ،نہ کہ صرف قصد ونیت ، اور گناہ سے اس کامرتکب ہوئے بغیر قریب ہونا ۔
بہرحال مراد یہ ہے کہ ممکن ہے نیکو کاروں سے کوئی لغزش ہوگئی ہو ،گناہ ان کی طبیعت اور عادت کے برخلاف ہے ، ان کی روح اورقلب ہمیشہ پاک رہتے ہیں، اورآ لودگیاں عارضی قسم کی ہوتی ہیں ،لہٰذا گناہ کرتے ہی پشیمان ہوجاتے ہیں ،اور خداسے بخشش کی التجا کرتے ہیں، جیساکہ سورئہ اعراف کی آ یت ٢٠١ میں آ یاہے ۔:ِانَّ الَّذینَ اتَّقَوْا ِذا مَسَّہُمْ طائِف مِنَ الشَّیْطانِ تَذَکَّرُوا فَِذا ہُمْ مُبْصِرُون پرہیز گار جس وقت ان شیطانی وسوسوںمیں گرفتار ہوجاتے ہیں، جوان کے وجود کے گردگردش کررہے ہیں ،تووہ خدا کو یاد کرتے ہیں، اوربینا ہوجاتے ہیں(اور تو بہ کرلیتے ہیں)۔
اسی معنی کی نظیر سورئہ آل عمران کی آیت ١٣٥ میں بھی آ ئی ہے ،جہاں وہمتقین اورمحسینکی تعریف وتوصیف میں فر ماتاہے : وَ الَّذینَ ِذا فَعَلُوا فاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللَّہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ : وہ وہی لوگ توہیں کہ جس وقت وہ کسی برے کام کاارتکاب کر لیتے ہیں،یااپنے آپ پر کوئی ظلم کرلیتے ہیں ،تووہ خداکویاد کرتے ہیں،اوراپنے گناہوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
یہ سب باتیں اس تفسیر پرگواہ ہیں جولمم کے لیے بیان کی گئی ہیں ۔
یہاں ہم صادق علیہ السلام کی ایک دوسری حدیث کے ساتھ اس بحث کوختم کرتے ہیں، جوآپ نے زیربحث آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کے جواب میں فر مائی۔
اللمام العبد الذی یلم بالذنب بعد الذنب لیس ما سلیقتہ ، ای من طبیعتہ
لمم کوانجام دینے والا وہ بندہ ہے جس سے کبھی کبھارگناہ سرزد ہوجاتاہے لیکن اس کی طبیعت اورعادت ایسی نہیں ہوتی (٤) ۔
آیت کے آخرمیں اجروثواب اورسزا وعذاب کے مسئلہ میں عدالت پروردگار کی تاکید کے لیے،اس کے علم بے پایاں کے بارے میں ،جوتمام بندوں اوران کے اعمال کومحیط ہے گفتگو کرتاہے،اورفرماتاہے: وہ تمہاری نسبت سب سے زیادہ آگاہ ہے،اسی وقت سے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، اور جس وقت کہ تم جنینوںکی صورت میں اپنی ماؤں کے شکم میں تھے(ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ ِذْ أَنْشَأَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَ ِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّة فی بُطُونِ أُمَّہاتِکُمْ)(٥) ۔
انسا ن کی زمین سے خلقت یاتواس کی پہلی خلقت کیاعتبارسے ہے ،جوحضرت آدم کے طریقہ سے ہوئی کہ وہ مٹی سے پیدا ہوئے تھے ، یااس اعتبار سے ہے کہ انسانی وجود کے تشکیل دینے والے تمام مادے زمیں سے لئے گئے ہین، جوتغذیہ کے طریق سے نطفہ کی ترکیب بندی میں ،اوراس کے بعد جنیں کی پرورش کے مراحل میں بھی اثر رکھتے ہیں، اوربہرحال مقصد یہ ہے کہ خدا اسی وقت سے ،جب تمہارے وجود کے ذرات زمین کی مٹی کے درمیان تھے ،اوراسی دن سے ، جب کہ تم رحم مادر میں ،رحم کے تاریک ظلمانی پردوں کے اندر، ایک ناچیز نطفہ تھے ، تمہارے وجودکے تمام جزئیات سے آگاہ تھا، تو ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال سے بے خبر ہو؟
یہ تعبیر ضمنی طور سے بعد والی گفتگو کے لیے ایک مقدمہ ہے ،جس میں وہ فر ماتاہے : پس تم خود ستائی نہ کرواوراپنے پاک اورظاہر ہونے کے بارے میں باتیں نہ بناؤ ،کیونکہ وہ پرہیزگاروں کوسب سے بہترطورسے جانتاہے (فَلا تُزَکُّوا أَنْفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی) ۔
نہ تواسے تمہارتعارف کی ضرورت ہے ،اور نہ ہی تمہارے نیک اعمال کی تشریح وتفصیل کی ،وہ تمہارے اعمال سے بھی آگاہ ہے ،اورتمہاری نیت کے خلوص کی میزان سے بھی ، یہاں تک کہ وہ تمہیں خود تم سے بہترطورپر پہچانتاہے،اورتمہارے اندرونی صفات اوربیرونی اعمال سے بخوبی آگاہ ہے ۔
بعض مفسرین نے بیان کیاہے کہ یہ آ یت ایسے گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ،جونماز وروزہ کوانجام دینے کے بعداپنی تعریف کرنے لگتے تھے اورکہا کرتے تھے ،:ہماری نمازاس طرح کی تھی ،اورہمارا روزہ ایساتھا!تواوپر والی آ یت نازل ہوئی اورانہیں اس کام سے منع کیا(٦) ۔
١۔" "لیجزی""میں"" لام"" "" لام غایب"" ہے ، تواس بناپر جزا وسزا خلقت کی غایت ومقصد ہے اگرچہ بعض نے اسے گزشتہ آ یت کے لفظ"" اعلم"" کے متعلق سمجھاہے ،اور(لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْأَرْضِ )کے جملہ کوجملہ معترضہ جانتے ہیں ،لیکن یہ احتمال بعید نظر آتاہے ۔
٢۔"" کافی"" جلد ٢ کتاب الایمان والکفر باب اللمم(صفحہ ٣٢٠) ۔
٣۔"" کافی"" جلد ٢ کتاب الایمان والکفر باب اللمم(صفحہ ٣٢٠) ۔
٤۔ ""کافی "" جلد ١،باب لمم صفحہ ٣٢١۔
٥۔ ""اجنة "" جمع جنین، اس بچے کے معنی میں ہے جوشکم مادر میں ہے ۔
٦۔ "" روح المعانی"" جلد ٧،صفحہ٥٥۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma