٣۔"" خود ستائی اورتز کیہ نفس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

اس کام کی برائی اس حد تک ہے کہ یہ مطلب ایک ضر المثل کی صورت اختیار کر گیاہے کہ:تز کیة المرء نفسہ قبیحہ خود ستائی قبیح اور ناپسند یدہ کام ہے۔
اس ناپسند عمل کا اصلی سرچشمہ اپنے اپ کوناپہچاننا ہے ، کیونکہ اگرانسان اپنے آپ کواچھی طرح پہچان لے، پروردگارکی عظمت کے مقابلہ میں اپنے چھوٹے پن کو، اوراپنے ذمہ سنگین ذمہ داریوں کے مقابلہ میں اپنے اعمال کے ناچیز ہونے کو، اور ان عظیم نعمتوں کوجوخدا نے اُسے بخشی ہیں جان لے ،توپھروہ ہرگز خودستائی کی راہ میں قدم نہیں رکھے گا ۔
غروروغفلت ،اورخود کوبڑا سمجھنا، اورزمانہ جاہلیت کے افکار بھی اس قبیح کام کے لیے دوسرے اسباب ومحرکات ہیں ۔
خودستائی چونکہ اپنے کامل ہونے کے عقیدہ کوبیان کرتی ہے ،لہٰذا پیچھے رہ جانے اور پسماندگی کا سبب بن جاتی ہے ،کیونکہ تکامل وارتقاء کارمزاپنی تقصیر وکوتاہی کا اعتراف، اورنقائص اورکمزوریوں کے وجود کوقبول کرناہے ۔
اسی بناپر اولیائے خداہمیشہ خدائی وظائف اورذمہ داریوں کے مقابلہ میں اپنی تقصیر وکو تاہی کے معترف رہتے تھے اورلوگوں کوخود ستائی اوراپنے اعمال کوبڑا سمجھنے سے منع کیا کرتے تھے ۔
ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے زیربحث آیت (فلا تز کواانفسکم) کی تفسیر میں آیاہے :
لایفتخرا حد کم بکثرة صلاتہ وصیامہ وزکوٰتہ ونسکہ لان اللہ عزوجل اعلم بمن اتقیٰ:
تم میں سے کوئی بھی شخص اپنی نماز وروزہ زکوٰة اورمناسک حج وعمرہ کے زیادہ ہونے پرفخر نہ کرے کیونکہ خداتم میں سے پرہیزگاروں کوسب سے بہتر جانتاہے(۱) ۔
امیر المؤ منین علیہ السلام ،معاویہ کے نام اپنے ایک خط میں،جس میں بہت ہی اہم مسائل تحریر کئے تھے ،فرماتے ہیں:
ولولا مانھی اللہ عنہ من تزکیة المرء نفسہ لذ کرز اکرفضائل جمة ،تعرفھا قلوب المؤ منین ، ولا تمجھااٰذان السامعین
اگر یہ بات نہ ہوتی کہ خدانے خود ستائی سے منع کیاہے،توبیان کرنے والا اپنے بہت سے ایسے فضائل کوشمار کرتاجن سے آگاہ مؤ منین کے دل آشنا ہیں اور سننے والوں کے کانوںکوان کے سننے سے انکار نہیں ہے ، (بیان کرنے والے سے مراد خودامام علیہ السلام ہیں)(۲) ۔
اس سلسلہ کی ایک تفصیلی بحث جلد ٣سورئہ نساء کی آ یت ٤٩ کے ذیل میں بھی آچکی ہے ۔
یہاں یہ بات واضح کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ بعض اوقات ضرور تیں اس بات کاتقاضا کرتی ہیں کہ انسان اپنے تمام امتیازات وخصوصیات کے ساتھ جواس میں پائی جاتی ہیں اپناتعارف کرائے کیونکہ اس کے بغیر مقدس اہداف ومقاصد پامال ہوجاتے ہیں اس قسم کی باتوں اورخودستائی اور تز کیہ نفس کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے ۔
اس بات کانمونہ امام سجاد علیہ السلام کامسجد (دمشق) کاوہ خطبہ ہے ،جبکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ اپنااوراپنے خاندان واہل بیت کا شام کے لوگوں میں تعارف کرائیں تاکہ شہدائے کربلا خارجی ہونے کے سلسلہ میں بنی امیہ کاسازشی منصوبہ ناکام ،اوران کے شیطانی منصوبے نقش برآب ہوجائیں ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہواہے کہ جب لوگوں نے آپ سے خودستائی اوراپنی تعریف آپ کرنے کے بارے میںسوال کیا توآپ علیہ السلام نے فرمایا:
بعض اوقات کچھ ضرورتوں کی وجہ سے لازمی ہوجاتی ہے ۔
اوراس کے بعد آپ علیہ السلام نے ابنیاء کے کلام سے دومواقع جوقرآن میں آ ئے ہیں، استد لال میں پیش کئے ۔
پہلے یوسف علیہ السلام جنہوں نے عزیز مصر کو یہ تجویز پیش کی ،کہ وہ انہیں ملک مصر کاخزانہ دار بنائے ،توانہوں نے کہا:
انی حفیظ علیم( یوسف۔ ٥٥) ۔
میں ایک آگاہ اورصاحب علم نگہبان ہوں۔
اور دوسراخدا کے عظیم پیغمبرھود کے بارے میں جنہوںنے اپنی قوم کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
انا لکم ناصح امین(اعراف،٦٨) ۔
میں تمہارے لیے امین خیر خواہ ہوں۔
۱۔ "" نوالثقلین""جلد٥،صفحہ ١٦٥۔
۲۔نہج البلاغہ خط ٢٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma