وہ قراٰن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

یہ آیات بھی منافقین کے ابارے میں ہیں اوران کے مختلف اعتراضات بیان کررہی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : بیشک جولوگ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی اُلٹے پاؤں پھرگئے ہیں ، شیطان نے ان کے بُرے اعمال کو ان کی نگاہوں میں بناسجاکرپیش کیا ہے اورانہیں لمبی آ رزُووںپرفریفتہ کردیا ہے (إِنَّ الَّذینَ ارْتَدُّوا عَلی اٴَدْبارِہِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطانُ سَوَّلَ لَہُمْ وَ اٴَمْلی لَہُم) ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے خیال ظا ہر کیا ہے کہ یہ آیت ان بعض اہل ِ کتاب کافروں کے متعلق گفتگو کررہی ہے جوپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اپنی آسمانی کتابوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نشانیاں بیان کیاکرتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کے شدید منتظر تھے لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تشریف لے آ ئے اوروہ نشانیاں بھی ظا ہر ہوگئیں تواُلٹے پاؤں پھرگئے اور خوا ہشات نفسانی اورمادی فوائد ان کے ایمان کی را ہ میںرکاوٹ بن گئے ۔
لیکن گذشتہ اور آ یندہ آیات سے بخوبی سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت بھی منافقین کی بات کررہی ہے ، جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کونزدیک سے دیکھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت کے دلائل کابخوبی مشا ہدہ کیا اور سُنا،لیکن نفسانی خوا ہشات اور شیطانی پھندوں میں آکر پیٹھ پھیر دی ۔
” سوّل “ ” سوٴ ل “(بروزن ” قفل “) کے مادہ سے ہے ، جس کا معنی ایسی حاجت ہے جس کے پورا ہونے کے لیے نفس انسانی حریص ہوتا ہے ( ۱)” تسویل “ کامعنی ان امور کی بابت رغبت اور شوق دلانا ہے جن کی انسان کوحرص ہوتی ہے ، اس امر کی شیطانی کی طرف نسبت ان وسوسوں کی وجہ سے ہ جووہ انسان ک دل میں ڈالتا ہے اوراس کی ہدایت کے آگے رکاوٹ بنتا ہے ۔
” املیٰ لھم “” املاء “سے ہے جس کامعنی لمبی چوڑی اور دُور دراز کی امیدیں اور آ رز و ئیں باندھنا ہے جوانسان کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں اورحق سے باز رکھتی ہیں ۔
بعد کی آیت ان شیطانی تسویلات اور سجاوٹوں کی اس طرح تشریح کرتی ہے : یہ اس لیے کہ وہ ان لوگوں سے کہتے ہیں جوپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کوناپسند کرتے ہیں ،ہم بعض کاموں میں تمہاری بات مانیں گے (ذلِکَ بِاٴَنَّہُمْ قالُوا لِلَّذینَ کَرِہُوا ما نَزَّلَ اللَّہُ سَنُطیعُکُمْ فی بَعْضِ الْاٴَمْرِ) ۔
منافقین کاکام یہی ہوتا ہے کہ وہ غلط کا ر اور مخالف لوگوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں اوراگرتمام پہلووں کے لحاظ سے ان میں مشترک قدریں نہ پائیں جاتی ہوں تو جس حد تک بھی ان کی قدریوں آپس میں مشترک ہوتی ہیں ان سے تعاون بلکہ ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔
منافقین ِ مدینہ بھی بنی نضیر اور نبی قریظہ کے یہودیوں کے پاس آ ئے جوآنحضرت کی بعثت سے قبل اسلام کے مبلغ تھے ، لیکن جب آنحضرت اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت ہوگئی توحسد ، تکبّراور مفادات خطرے میںپڑجانے کی وجہ سے ظہور اسلام کو ناپسند کرنے لگے اور چونکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں منافقین اور یہود کے درمیان قدر مشترک تھیں لہذا ان سے با ہمی تعاون کاوعدہ کر لیا۔
” فی بعض الامر“کی تعبیر شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم صرف اس حد تک تمہارے ساتھ تعاون کریں گے ،لیکن تم چونکہ بُت پرستی کے مخالفت اور روز قیامت کے معتقد ہو لہٰذا ہم ان امور میں تمہار ے ساتھ نہیںہیں ( ۲) ۔
یہ بات سورہٴ حشر کی گیارہویں آیت سے ملتی جُلتی ہے ، جس میں کہاگیا ہے :
”اٴَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذینَ نافَقُوا یَقُولُونَ لِإِخْوانِہِمُ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ اٴَہْلِ الْکِتابِ لَئِنْ اٴُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَ لا نُطیعُ فیکُمْ اٴَحَداً اٴَبَداً وَ إِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُم “
” کیاتم نے منافقین کونہیں دیکھا جواپنے اہل کتاب کافربھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم ان شہروںسے کوچ کرو گے توہم بھی تمہار ے ساتھ آئیں گے اور تمہاری مخالفت میں کسِی بھی شخص کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگروہ تمہار ے ساتھ لڑ یں گے توہم تمہار ی مدد کریں گے “۔
آیت کے آخر میں انہیں مختصر سی عبار ت کے ساتھ تنبیہ کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے : خدا ان کی مخفی باتوں اور رازوںسے آگاہ ہے (وَ اللَّہُ یَعْلَمُ إِسْرارَہُم) ۔
ان کے باطنی کفر اور نفاق سے بھی آگاہ ہے اور یہودیوں کے تعاون سے یہ جوسازشیں تیار کرتے ہیں ان سے بھی آگاہ ہے اور وقت آنے پر انہیں سزادے گا ۔
نیز یہ بھی کہ یہود کی مخفی دُشمنی وعناد اورحسد سے بھی آگاہ ہے ،و ہ اپنی کتاب کی گواہی کے پیش نظر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم) کی نشا نیوں سے اس قدر آگاہ تھے کہ انہیں ویسے پہنچانتے تھے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اوریہ نشانیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے پہلے لوگوں کوکھلے بندوں بتاتے تھے ،لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کے بعد انہوں نے ان سب کوچھپا دیا ہے ، خدا اس مخفی کام سے آگاہ ہے ۔
امام محمد باقر اور امام جعفرصادق علیہما السلام سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ ” کر ھوا مانزل اللہ “ سے مراد ” بنی امیہ “ہیں جوحضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں فرمان الہٰی کے نزُول کوپسند نہیں کرتے تھے ( ۳) ۔

ظا ہر سی بات ہے کہ یہ تطابق اور بیان مصداق ہے کہ آیت کامفہوم اسی میں منحصر ہے ۔
بعد کی آیت اس تہدید کی وضاحت ہے ، جس میں کہاگیا ہے : اس وقت ان کا کیاحال ہوگاجب موت کے فرشتے ان کے چہروں اور پشت پر ماریں گے اوران کی رُوح قبض کریں گے (فَکَیْفَ إِذا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَ اٴَدْبارَہُمْ )(۴) ۔
جی ہاں یہ رشتے مامور ہیں کہ موت کے آغاز ہی میں انہیں سزادینا شرو ع کردیں تا کہ وہ کفر ونفاق اورہٹ دھرمی و عناد کامزہ چکھیں، ان کے چہروں پراس لیے ماریں گے کہ انہوں نے دشمنان ِخداکی طرف منہ کیا ہوگا اور پشت پراس لیے کہ خدا کی آیات اور پیغمبر کی طرف پشت کی ہوگی ۔
یہ بات سُورہ ٴ انفال کی ۵۰ ویں آیت سے مِلتی جُلتی ہے جوکفار ومنافقین کے بارے میں ہے ، اسی میں ہے ۔
” وَ لَوْ تَری إِذْ یَتَوَفَّی الَّذینَ کَفَرُوا الْمَلائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَ اٴَدْبارَہُمْ وَ ذُوقُوا عَذابَ الْحَریقِ“
” اورا گر تو کافروں کواس وقت دیکھے کہ جب موت کے فرشتے ان کی رُوح قبض کرتے ہیں اوران کے چہروں اور پشت پرمار تے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلاڈالنے والے عذاب کامزہ چکھو“۔
اِسی سِلسلے کی آخری آیت میں بھی بوقت وفات ان پرعذاب ِالہٰی کی علّت کو بیان کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے : یہ عذاب اور سزا اس لیے ہے کہ جس چیز سے خداناخوش ہے اس کی تو یہ لوگ پیروی کرتے ہیں اور جس میںخداکی خوشی ہے اس سے بیزار ہیں،لہذاخدانے ان کے سب اعمال کواکارت کردیا ہے (ذلِکَ بِاٴَنَّہُمُ اتَّبَعُوا ما اٴَسْخَطَ اللَّہَ وَ کَرِہُوا رِضْوانَہُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمالَہُمْ ) ۔
کیونکہ تمام اعمال کی قبولیت اورہرقسم کی سعی و کوشش منظور ہونے کی شرطِ اوّلین خداکی رضا ہے ، بنابریں فطری بات ہے کہ جولوگ خدا کوناراض کرنے پر تلے ہُوئے ہیں اوراس کی رضامندی کی مخالفت کرتے ہیں ان کے اعمال اکارت جائیں گے اور وہ گنا ہوں کابوجھ کا ندھوںپر اُٹھا ئے اِس عالم سے اس عالم کوسد ھاریں گے ۔
ان لوگوں کاحال موٴ منین کے حالات کے بالکل برعکس ہے کیونکہ موت کے فرشتے بوقت وفات ان کے استقبال کو آتے ہیں اور خندہ پیشانی کے ساتھ انہیں کہتے ہیں : تم پرسلام ہو، اب تم اپنے انجام دیئے ہُوئے اعمال کی وجہ سے بہشت میں چلے جاؤ ، قرآن کے الفاظ میں :
” الَّذینَ تَتَوَفَّا ہمُ الْمَلائِکَةُ طَیِّبینَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْکُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ “ ( نحل / ۳۲) ۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خدا کی ناراضی کے بارے میں جملہ فعلیہ ” ما اسخط اللہ “آیا ہے اوراس کی رضا مندی کے بارے میں جُملہ اسمیہ ” رضوانہ “ہے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ تعبیر کے اس فرق میں عجیب قسم کالطف ہے اور وہ یہ کہ خدا کی ناراضی کبھی کبھی ہوتی ہے اور اس کی رضا ورحمت دائمی اور ہمیشہ ہے ۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ خدا کے بارے میں ناراضی ،غضب اورغُص-ّے کا ذکر نفسانی تاثرات کے معنی میں نہیں ، جیساکہ اس کی رضا مندی رُوحانی خوشی کے معنی میں نہیں ہے ،بلکہ جیساکہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
” غضب اللہ عقابہ ورضا ہ ثوابہ “۔
” خدا کاغضب اس کاعذاب ہے اوراس کی رضا اس کا ثوا ب ہے “ ( ۵) ۔
۱۔لہٰذابعض مفسرین نے اس کی ” امید اور آ رزُو “کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ سُورہ طٰہٰ کی ۳۶ ویں آیت میں ہے ” قد اوتیت سوٴ لک یاموسیٰ“۔
۲۔اس آیت کی تفسیر میں کئی اورحتمالات کاذکر بھی کیاگیا ہے جوگذشتہ اور آ یندہ آیات سے ہم آہنگ نہیں ہیں لہٰذا انہیں ذکر کرنے کی ضر ورت نہیں ہے ۔
۳۔ مجمع البیان، جلد۹،صفحہ ۱۰۵۔
۴۔”کیف “ ایک مبتدا محذوف کی خبرہے جوتقدیری صورت میں یوں ہے ” فکیف حالھم“۔
۵۔تفسیر المیزان ، جلد۱۸،صفحہ ۲۶۶ بحوالہ توحید صدوق ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma