۶۔ خدا کے ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونے کا کیا مطلب ہے؟
تمام اسلامی علمااور دانشوروں نے خداوندعالم کو سمیع و بصیر ما ناہے، کیونکہ یہ دونوں صفات قرآن مجید میں بار ہا بیان ہوئی ہیں، البتہ اس سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے:
چنا نچہ محققین کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ خدا کے سمیع و بصیر ہونے کا مطلب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ خدا وندعالم ”آواز“ اور ”یعنی دکھائی دینے والی چیزوں“ کی نسبت علم و آگاہی رکھتا ہے، اگرچہ یہ دونوں الفاظ سننے اور دیکھنے کے معنی میں وضع ہوئے تھے، جن کے لئے ہمیشہ”کان“ اور ”آنکھ“ ضروری ہوتے ہیں، لیکن جب یہ الفاظ خدا کے بارے میں استعمال ہوں تو پھر جسمانی آلات و اعضا کے تصور سے خالی ہوتے ہیں، چونکہ ذات خدا جسم و جسمانیات سے پاک و پاکیزہ ہے۔
اور یہ معنی مجازی نہیں ہے، او راگر اس کو مجاز کہیں بھی تو یہ مجاز مافوق حقیقت ( یعنی معنی حقیقی سے بالاتر) ہے کیونکہ خداآواز اور مناظر پر اس طرح احاطہ رکھتا ہے اور یہ چیزیں اس کے پاس اس طرح حاضر ہیں کہ ہر آنکھ کان سے بالاتر ہے، لہٰذا دعاؤں میں خدا وندعالم کو ”اٴسمعُ السَّامِعِین“ (سب سے زیادہ سننے والا) اور ”اٴبصرَ الناظِرین“( سب سے زیادہ دیکھنے والے) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔(1)
لیکن بعض قدیم متکلمین کا عقیدہ تھا کہ خدا کے ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونے کا مطلب صفت ”علم“ کے علاوہ ہے، یہ لوگ مجبور ہیں کہ صفات ”سمیع“ اور ”بصیر“ کو زائد بر ذات مانیں، اور صفات ازلی متعدد ہوجائیں جو ایک طرح کا شرک ہے، وگرنہ خداوندعالم کا ”سمیع“ اور ”بصیر“ ہونا سنی جانے والی آوازوں اور مناظر کے علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔(2)
کتاب ”بحار الانوار“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے کہ ایک شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے محبوں میں سے ایک شخص کا کہنا ہے: خداوندعالم کان کے ذریعہ سمیع ہے اور آنکھوں کے ذریعہ بصیر ہے! اور علم کی وجہ سے عالم ہے! (یعنی خداکی صفات زائد بر ذات ہیں) اور قادر ہے اپنی قدرت کی وجہ سے (یعنی اس کے صفات زائد بر ذات ہیں)
امام علیہ السلام نے ناراض ہوتے ہوئے فرمایا: ”مَنْ قَال ذَلک و دَانَ بِہِ فَہوَ مشرکٌ، وَ لَیْسَ مِنْ ولایتنا علٰی شیءٍ ؛ إنَّ اللهَ تبارکَ و تعالیٰ ذات علامة سمیعة بصیرة قادرة“(3) (4)
”جو شخص یہ کہے اور اس پر عقیدہ رکھے تو ایسا شخص مشرک ہے، اور ہماری ولایت سے دور ہے، خداوندعالم کی ذات عین عالم ،عین سمیع، اور عین بصیر و قادر ہے (اور یہ صفات اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں)“۔