۴۴۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ہوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۴۵۔قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ہے؟ ۴۳۔ قرآن کے حروف مقطّعات سے کیا مراد ہے؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے پہلے سورے کا نام ”فاتحة الکتاب“ ہے ، ”فاتحة الکتاب“ یعنی کتاب (قرآن) کی ابتدااور پیغمبر اکرم (ص) سے منقول بہت سی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خود آنحضرت (ص) کے زمانہ میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔
یہیں سے ایک دریچہ اسلام کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ کی طرف وا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک گروہ کے درمیان یہ مشہور ہے کہ ( پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں قرآن پراکندہ تھا بعد میں حضرت ابوبکر یا عمر یا عثمان کے زمانہ میں مرتب ہوا ہے)، قرآن مجید خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اسی ترتیب سے موجود تھا جو آج ہمارے یہاں موجود ہے، اور جس کا سر آغاز یہی سورہ حمد تھا، ورنہ تو یہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونے والاسب سے پہلا سورہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی دوسری دلیل تھی جس کی بناپر اسے ”فاتحة الکتاب“ کے نام سے یاد کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اور بہت سے شواہد اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا۔
”علی بن ابراہیمۺ“ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: قرآن کریم حریر کے کپڑوں ،کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر متفرق ہے لہٰذا اس کو ایک جگہ جمع کرلو“ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس نشست سے اٹھے اور قرآن کو ایک زرد رنگ کے کپڑے پر جمع کیا اور اس پر مہر لگائی:
”وَانطلقَ عَلیَّ (ع)فَجمعہُ فِی ثوبٍ اٴصفرٍ ثُمَّ خَتَم علَیْہِ“(1)
ایک دوسرا گواہ: ”خوارزمی“ اہل سنت کے مشہور و معروف موٴلف اپنی کتاب ”مناقب“ میں ”علی بن ریاح“ سے نقل کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو حضرت علی بن ابی طالب اور ابیّ بن کعب نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ ہی میں جمع کردیا تھا۔
تیسرا گواہ: اہل سنت کے مشہور و معروف موٴلفحاکم نیشاپوری اپنی کتاب ”مستدرک“ میں زید بن ثابت سے نقل کرتے ہیں:
زید کہتے ہیں: ” ہم لوگ قرآن کے مختلف حصوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں جمع کرتے تھے اور آنحضرت (ص) کے فرمان کے مطابق اس کی مناسب جگہ قرار دیتے تھے، لیکن پھر بھی یہ لکھا ہوا قرآن متفرق تھا ،حضرت رسول خدا (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں ، اور ہمیں اس کی حفا ظت کے لئے تا کید کیاکرتے تھے“۔
عظیم الشان شیعہ عالم دینسید مرتضیٰ کہتے ہیں:قرآن مجید پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اسی موجودہ صورت میں مرتب ہوچکا تھا“(2)
طبرانی اور ابن عساکر دونوں ”شعبی“ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں انصار کے چھ افراد نے قرآن کو جمع کیا۔ (3) اور قتادہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے انس سے سوال کیا
کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ تو انھوں نے :ابیّ بن کعب، معاذ،زید بن ثابت اور ابوزید کا نام لیا جو سبھی انصار میںسے تھےاس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ہوجائے گی۔
بہر حال شیعہ اور سنی کتب میں نقل ہونے والی روایات جن میں سورہ حمد کو ”فا تحة الکتاب“ کا نام دیا جانا، اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
سوال:
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے جبکہ بہت سے علماکے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا ہے (حضرت علی کے ذریعہ یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ)
اس سوال کے جواب میںہم یہ کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام کا جمع کیا ہوا قرآن خالی قرآن نہیں تھا بلکہ قرآن مجید کے ساتھ سا تھ اس کی تفسیر اورشان نزول بھی تھی۔
البتہ کچھ ایسے قرائن وشواہد بھی پا ئے جا تے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرائت کے اختلاف کودور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا (چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نہیں تھا) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم یا حضرت عثمان کونصیب ہوا، تو یہ بات فضیلت سازی کا زیادہپہلو رکھتی ہے لہٰذا اصحاب کی فضیلت بڑھا نے کے لئے نسبت دیتے ہیں اورروایت نقل کرتے ہیں۔
بہر حال اس بات پرکس طرح یقین کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اتنے اہم کام پر کوئی توجہ نہ کریں جبکہ آنحضرت (ص) چھوٹے چھوٹے کاموں کو بہت اہمیت دیتے تھے،کیا قرآن کریم اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نہیں ہے؟! کیا قرآن کریم تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب نہیں ہے؟! کیا قرآن کریم اعتقادات نیز اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نہیں ہے؟! کیا پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں قرآن کریم کے جمع نہ کرنے سے یہ خطرہ درپیش نہ تھا کہ اس کا کچھ حصہ نابود ہوجائے گایا مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوجائے گا؟!
اس کے علاوہ مشہور و معروف حدیث ”ثقلین“ جس کو شیعہ اور سنی دونوں فر یقوں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں :ایک کتاب خدا (قرآن) اور دوسرے میری عترت (اہل بیت )“ اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا۔
اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ خود آنحضرت (ص) کی زیرنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا ، اوروہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ہیں تواس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، کیو نکہ ممکن ہے کہ ہر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندہی کرتی ہو۔(4)


(1) تاریخ القرآن ، ابو عبداللہ زنجانی صفحہ ۲۴
(2) مجمع البیان ، جلد اول، صفحہ ۱۵
(3) منتخب کنز العمال ، جلد ۲، صفحہ  ۵۲
(4) صحیح بخاری ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۲
۴۵۔قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ہے؟ ۴۳۔ قرآن کے حروف مقطّعات سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma