۵۳۔ ولایت تکوینی اور تشریعی سے کیا مراد ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۵۴۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟ ۵۲۔ واقعہ غدیر کیا ہے ؟

ہم جانتے ہیں کہ ولایت کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ ولایت تکوینی۔
۲۔ ولایت تشریعی۔
ولایت تشریعی سے مراد وہی اسلامی اور قانونی حاکمیت اور سرپرستی ہے، جو کبھی محدود پیمانہ پر ہوتی ہے جیسے چھوٹے بچہ پر باپ اور داد کی ولایت، اور کبھی وسیع پیمانہ پر ہوتی ہے جیسے حکومت اور اسلامی ملک کے نظم و ضبط میں حاکم شرعی کی ولایت ۔
لیکن تکوینی ولایت سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص خدا کے حکم اور اس کی اجازت سے اس عالم خلقت اور اس کائنات میں تصرف کرے، اور اس دنیا کے اسباب و وسائل کے برخلاف کوئی عجیب واقعہ کردکھائے، مثلاً لاعلاج بیمار کو خدا کے اذن سے اور اس کی عطا کردہ طاقت سے شفا دیدے، یا مردوں کو زندہ کردے، یا اسی طرح کے دوسرے امور کو انجام دے، نیز کائنات اور انسانوں پر غیر معمولی معنوی تصرف کرے۔
”ولایت تکوینی“ کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے بعض قابل قبول اور بعض نا قابل قبول ہیں:
۱۔ خلقت اور تخلیقِ کائنات میں ولایت :یعنی خداوندعالم اپنے کسی بندہ یا فرشتہ کو اتنی طاقت دیدے کہ دوسرے جہانوں کو پیدا کرے یا ان کو صفحہ ہستی سے مٹادے، تو یقینا یہ کوئی محال کام نہیں ہے، کیونکہ خداوندعالم ہر چیز پر قادر ہے،اور کسی کو بھی ایسی قدرت دے سکتا ہے، لیکن تمام قرآنی آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ نظام خلقت خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے، چاہے وہ زمین و آسمان کی خلقت ہو یا جن و انس ، فرشتوں کی خلقت ہویا نباتات وحیوانات، پہاڑ ہوں یا دریا ،سب کے سب خدا کی قدرت سے پیدا ہوئے ہیں،کوئی بندہ یا فرشتہ، خلقت میں شریک نہیں ہے اسی وجہ سے تمام مقامات پر خلقت کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے، اور کسی بھی جگہ یہ نسبت (وسیع پیمانہ پر) غیر خدا کی طرف نہیں دی گئی ، اس بنا پر زمین و آسمان اور حیوان و انسان کا خالق صرف اور صرف خداہے۔
۲۔ ولایت تکوینی”فیض پہنچانے میںواسطہ“کے معنی میں، یعنی خداوندعالم کی طرف سے اپنے بندوں یا دوسری مخلوقات تک پہنچنے والی امداد، رحمت ، برکت اور قدرت انھیں اولیاء اللہ اور خاص بندوں کے ذریعہ حاصل ہو ئی ہے، جیسے شہر میں پانی پہنچانے والا ایک ہی اصلی پائپ ہوتا ہے یہ اصلی پائپ کے مرکز سے پانی لیتا ہے اور اس کو سب جگہ پہنچادیتا ہے، اس کو ”واسطہ در فیض“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ معنی بھی عقلی لحاظ سے محال نہیں ہیں، جس کی مثال خود عالمِ صغیر یعنی انسان کا جسم ہے کیونکہ صرف دل کی شہ رگ ہی کے ذریعہ تمام رگوں تک خون پہنچتا ہے، تو پھر عالمِ کبیر (کائنات) میں بھی اس طرح ہونے میں کیا ممانعت ہے؟
لیکن اس کے اثبات کے لئے بے شک دلیل و برہان کی ضرورت ہے اور اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی خداوندعالم کے اذن سے ہے۔
۳۔ ولایت تکوینی ،معین حدود میں: جیسے مردوں کو زندہ کرنا یا لاعلاج بیماروں کو شفا دینا وغیرہ ۔
قرآن مجید میں اس ولایت کے نمونے بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ملتے ہیں، اور اسلامی روایات بھی اس پرشاہد اور گواہ ہیں،اس لحاظ سے ولایت تکوینی کی یہ قسم نہ صرف عقلی لحاظ سے ممکن ہے بلکہ بہت سے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں۔
۴۔ ولایت بمعنی دعا، یعنی اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرے اور اس سے طلب کرے کہ فلاں کام پورا ہوجائے، مثلاً پیغمبر اکرم (ص) یا امام معصوم دعا کریں اور خدا سے طلب کی ہوئی دعا قبول ہوجائے۔
ولایت کی اس قسم میں بھی کوئی عقلی اور نقلی مشکل نہیں ہے، قرآنی آیات، اور روایات میں اس طرح کے بہت سے نمونے موجود ہیں، بلکہ شاید ایک لحاظ سے اس قسم پر ولایت تکوینی کا اطلاق کرنا مشکل ہو کیونکہ دعا کا قبول کرنا خود خداوندعالم کا کام ہے ۔
بہت سی روایات میں ”اسم اعظم“ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام یا بعض اولیاء اللہ (انبیاء اور ائمہ کے علاوہ) کے پاس اسم اعظم کا علم تھا جس کی بنا پر وہ عالم تکوین میں تصرفات کرتے تھے۔اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ اسم اعظم کیا ہے، اس طرح کی روایات بھی ولایت تکوینی کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور مکمل طریقہ سے اس پر صادق آتی ہیں۔(1)


(1) اسلام میں دو طرح کے معاملات ہوتے ہیں ایک ایسا معاملہ جس کو فسخ کیا جاسکتا ہے، اس کو ”عقد جائز“ کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کو فسخ نہیں کیا جاسکتا، اس کو ”عقد لازم“ کہا جاتا ہے (مترجم)

 

۵۴۔ بیعت کی حقیقت کیا ہے؟ نیز انتخاب اور بیعت میں کیا فرق ہے؟ ۵۲۔ واقعہ غدیر کیا ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma