۶۴۔ عالمِ برزخ کیا ہے اور وہاں کی زندگی کیسی ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۶۵۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے ؟ ۶۳۔ کیا سائنس تجسم اعمال کی تائید کرتا ہے

عالم برزخ کونسا عالم ہے ؟ اور کہاں ہے؟ اور دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے اس عالم کو ثابت کرنے کی کیا دلیل ہے؟
کیا برزخ سب کے لئے ہے یا خاص گروہ کے لئے ہے؟
اس سلسلہ میں یہ تمام سوالات موجود ہیں، قرآن مجید اور احادیث میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے ، اس کتاب کے لحاظ سے ہم ان کے جوابات پیش کرتے ہیں:
لفظ ”برزخ“ لغوی لحاظ سے دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہاجا تا ہے اس کے بعد ہر دو چیز کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”برزخ“ کہا جاتا ہے۔
اس عالم کو کبھی ”عالمِ قبر“ یا ”عالمِ ارواح“ بھی کہا جاتا ہے ، اس پر قرآن کریم کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض اس معنی میں ظاہر ہیں اور بعض واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
آیہٴ شریفہ: <وَمِن وَرَائِھِم بَرْزَخٌ إلیٰ یومَ یَبْعَثُون اس عالم کے بارے میں ظاہرہے، اگرچہ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یوں کئے ہیں کہ عالم آخرت سے دنیا میں نہیں پلٹا جاسکتا، کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے پیچھے ایک ایسا مانع ہے جو انسان کو دنیا میں لوٹنے سے روک دے گا، لیکن یہ معانی بہت ہی بعید نظر آتے ہیں کیونکہ ”إلیٰ یوم یبعثون“(روز قیامت تک) کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ برزخ دنیا اور آخرت کے درمیان موجود ہے نہ کہ انسان اور دنیا کے درمیان۔
جن آیات سے واضح طور پر عالم برزخ کا اثبات ہے وہ شہداء کی حیات کے بارے میں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:<وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ(1) ”اور خبر دار ! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں“۔
یہاں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہوا ہے لیکن سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۵۴/ میں تمام مومنین سے خطاب ہوا ہے:< وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ ” اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے “
نہ صرف یہ کہ بلند مرتبہ مومنین مثل شہداء ِراہ خدا کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ فرعون اور اس کے ساتھی جیسے سرکش کفار کے لئے بھی برزخ موجود ہے، جیسا کہ سورہ مومن میں ارشاد ہوتا ہے: <النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ(2) ”وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“
اس بنا پر عالم برزخ کے موجود ہونے پر تو کوئی بحث نہیں ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے ، اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں لیکن سب سے واضح اور روشن یہ ہے کہ انسان کی روح اس دنیاوی زندگی کے خاتمہ کے بعد لطیف جسم میں قرار پاتی ہے اوراس مادہ کے بہت سے عوارض سے آزاد ہوجاتی ہے، اور چونکہ ہمارے اس جسم کے مشابہ ہے تو اس کو ”قالب مثالی“ یا ”بدن مثالی“ کہا جاتا ہے، جو نہ بالکل مجرد ہے اور نہ صرف مادی، بلکہ ایک طرح سے ”تجرد برزخی“ ہے۔
بعض محققین نے روح کی اس حالت کو خواب سے تشبیہ دی ہے ، مثلاً اگر انسان خواب میں بہترین نعمتیں دیکھے تو واقعاً محظوظ ہوتا ہے اور ان سے لذت حاصل کرتا ہے، یا ہولناک مناظر کو دیکھ کر غمگین اور غم زدہ ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اس کے بدن پر بھی اس کا اثرظاہر ہوتا ہے اور خطرناک خواب دیکھ کر چیختا او رچلاتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے اور اس کا بدن پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے۔
یہاں تک کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عالم خواب میں انسان کی روح بدن مثالی کے ساتھ فعالیت کرتی ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی معتقد ہیں کہ طاقتور ارواح بیداری کی حالت میں یہی تجردِ برزخی حاصل کرلیتی ہیں یعنی جسم سے جدا ہوکر بدنِ مثالی میں اپنی مرضی کے مطابق یا مقناطیسی خواب کے ذریعہ دنیا کی سیر کرلیتی ہیں اور دنیا کے مختلف مسائل سے باخبر ہوجاتی ہیں۔(3)
بلکہ بعض حضرات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہر انسان کے بدن میں ایک مثالی بدن ہوتا ہے، لیکن موت کے وقت اور برزخی زندگی کے آغازمیں الگ ہوجاتا ہے اور کبھی اسی مادی
دنیا میں بھی جدا ہونے کا امکان ہوتا ہے ، (جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں)
اب اگر ہم مثالی بدن کی ان تمام خصوصیات کو قبول (بھی) نہ کریں تو اصل مطلب سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بہت سی روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور عقلی لحاظ سے بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ضمناً ہماری گزشتہ گفتگو سے اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے ، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں: بدن مثالی کا قائل ہونا گویا تناسخ کا قائل ہونا، کیونکہ تناسخ بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے کہ ایک روح مختلف بدن میں منتقل ہوتی رہے۔
اس اعتراض کاجواب شیخ بہائی علیہ الرحمہ نے واضح طور پر پیش کیا ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں: جس تناسخ کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی روح جسم سے نکلنے کے بعد اسی دنیا میں کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجائے، لیکن قیامت تک کے لئے عالم برزخ میں روح کا مثالی بدن میں بدل جانا جو پھر خدا کے حکم سے اسی پہلے بدن میں منتقل ہونا، اس کاتناسخ سے کوئی تعلق نہیںہے ،اور اگر ہم شدت کے ساتھ تناسخ کا انکار کرتے ہیں اور تناسخ کے قائل افراد کو کافر جانتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ ارواح کو ازلی مانتے ہیں اور قائل ہیں کہ یہی روح ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہوتی رہتی ہے ، جس کی بنا پر روز قیامت معادِ جسمانی کا انکار کرتے ہیں۔(4)جس طرح سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بدن مثالی اسی مادی بدن کے  اندر ہوتا ہے تو پھر تناسخ کا جواب روشن تر ہوجاتا ہے، کیونکہ روح اپنے بدن سے دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوئی ہے بلکہ بدن کے ایک حصہ سے جدا ہوکر دوسرے حصہ کے ساتھ عالم برزخ میں زندگی بسرکرتی ہے۔(5)
 


1)سورہٴ آل عمران ، آیت ۱۶۹
(2) سورہ مومن( غافر) ، آیت ۴۶
(3) علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار میں اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ متعدد روایات میںحالت برزخ کو عالم خواب سے مشابہ قراردیا گیا ہے،یہاں تک کہ بعض طاقتور نفوس ( ارواح) متعدد مثالی بدن رکھتے ہیں، اسی بنا پر جن روایات میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصوم ہر شخص کی موت کے وقت حاضر ہوتے ہیں، ان کی توجیہ اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہے، (بحار الانوار ، جلد ۶، صفحہ ۲۷۱)
(4) بحار الانوار ، جلد ۶، صفحہ ۲۷۷
(5) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۲۲
۶۵۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے ؟ ۶۳۔ کیا سائنس تجسم اعمال کی تائید کرتا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma