۶۵۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۶۶۔ نامہٴ اعمال کیا ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ۶۴۔ عالمِ برزخ کیا ہے اور وہاں کی زندگی کیسی ہے؟

قرآن مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی اپنے مادی امکانات کے ساتھ تعریف و تمجید کی گئی ہے: بعض آیات میں مال کو ”خیر“ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے: < کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ (1)

مہارے اوپر بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی (خیر) مال چھوڑا ہے تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبان تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے“۔
بہت سی آیات میں مادی نعمتوں کو فضل خدا کا عنوان دیا گیا ہے، <وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللهِ(2)

 ”اور فضل خدا کو تلاش کرو۔“۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ”روئے زمین کی تمام نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں، <خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا (سورہٴ بقرہ ، آیت ۲۹)
بہت سی آیات میں ان تمام چیزوں کے لئے کہا گیا ہے: <سَخَّرَ لَکُم (یہ سب تمہارے لئے مسخر کردی گئی ہیں) ، اور اگر تمام ان آیات کو ایک جگہ جمع کیا جائے کہ جن میں مادی امکانات کو محترم شمار کیا گیا ہے توان کی کثیر تعداد ہو جائے گی۔
لیکن مادی نعمتوں کی اس قدر اہمیت ہونے کے بعد بھی قرآن مجید میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن میں ان مادی چیزوں کو تحقیر اور ذلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
ایک جگہ متاع فانی اور عرض شمار کیا گیا ہے: <تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا(سورہٴ نساء ، آیت ۹۴)
ایک دوسری جگہ اس کو غرور اور غفلت کا سبب شمار کیا گیاہے: <وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور(سورہٴ حدید ، آیت ۲۰)
ایک دوسرے مقام پر دنیا کو لہو و لعب اور کھیل کود سے تعبیر کیا گیا ہے: <وَمَا ہَذِہِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَہْوٌ وَلَعِبٌ(سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۴)
ایک دوسری جگہ یاد خدا سے غفلت کا سبب قرار دیا گیا ہے: <رِجَالٌ لاَتُلْہِیہِمْ تِجَارَةٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ الله (سورہ نور ، آیت ۳۷)
اسی طرح یہ مختلف نظریہ روایات میں بھی بیان ہوا ہے:
ایک طرف تو دنیا کو آخرت کی کھیتی، نیک اور صالح افراد کے لئے تجارت گاہ ،دوستان حق کے لئے مسجد، وحی الٰہی کے نزول کی جگہ، اور وعظ و نصیحت کا مقام شمار کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: ”مَسجدُ اٴحباء الله و مُصَلّٰی ملائکة الله و مھّبط وحیّ الله و متّجر اٴولیاء الله“(3)
دوسری طرف اسی دنیاکی مذمت کی گئی ہے اور اس کو غفلت و بے خبری اور یاد خدا سے غافل ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
کیا اس طرح کی تمام آیات و روایات میں تضاد ہے ؟
اس سوال کا جواب بھی خود قرآن مجید سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا اور اس کی نعمتوں کی مذمت اس جگہ کی گئی ہے جہاں ان لوگوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے کہ جن کا ہدف اور مقصد صرف یہی دنیاوی زندگی ہے، جیسا کہ سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے: <وَلَمْ یَرِدْ إلاَّ الحیٰوة الدُّنْیَا (سورہٴ نجم ، آیت ۲۹) ”اور زندگی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے“۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالتے ہیں اور دنیاوی مادیات تک پہنچنے کے لئے کسی بھی ظلم و ستم اور خلاف ورزی کی پرواہ نہیں کرتے۔
سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: <اٴ رَضِیتُمْ بِالحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الاٴَخِرَةِ (سورہٴ توبہ ، آیت ۳۸)کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو؟“۔
محل بحث آیات خود اس بات پر شاہد ہیں جیسا کہ ارشاد ہے: <من کان یرید العاجلة (یعنی صرف ان کا ہدف اور مقصد یہی جلد ہی ختم ہوجانے والی مادی زندگیہے۔)
اصولاً ”کھیتی“ یا ”تجارت گاہ“ وغیرہ جیسے الفاظ اس سلسلہ میں زندہ گواہ ہیں۔
مختصر یہ کہ مادی نعمتیں سب خداوندعالم کی طرف سے ہیں اور نظام خلقت میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا اور اگر انسان ان کے ذریعہ معنوی کمال اور سعادت تک پہنچنے میں مدد حاصل کرے تو ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔
لیکن اگر صرف دنیا ہی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کو آخرت کا وسیلہ نہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں یہی مادی نعمتیں ، غفلت و غرو ر، طغیان و سرکشی اور ظلم و ستم کا عنوان حاصل کرلیں گی، جس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جائے گی۔
واقعاً حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مختصر اور پُر معنی کلام میں کیا بہترین ارشادفرمایا”مَنْ اٴبصَرَ بھَا بصّرتہ وَمَنْ اٴبصَرَ إلَیھَا اٴعمتہ“(4) (جس نے اس دنیا کو چشم بصیرت کے ساتھ دیکھا (اور اس کو بینائی کا وسیلہ قرار دیا) تو دنیا اس کو بصیرت اور آگاہی عطا کرتی ہے، اور اگر کسی نے خود دنیا کو دیکھا تودنیا اس کو نابینا کردیتی ہے۔)
در اصل مذموم اور ممدوح دنیامیں یہیفرق ہے کہ اگر اس کو ہدف قرار دیا جائے تو مذموم ہے اور اگر اس کو ذریعہ اور وسیلہ قرار دیا جائے تو ممدوح ہے۔(5)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”نِعمَ العَون الدُّنْیَا عَلَی طَلَبِ الآخرة“(6)( آخرت تک پہنچنے کے لئے دنیا بہترین مددگار ہے۔)
سورہ قصص کی آیات میں مالدار اور مغرور ”قارون“ کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے، جو اس موضوع کے لئے بہترین شاہد ہے ، لیکن اسلام اس مال و دولت کو پسند کرتا ہے جو ”آخرت کے لئے کام آئے“، جس کے ذریعہ آخرت حاصل کی جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے علماقارون سے کہتے تھے: ”وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ الله الدَّار الآخرة“ ( خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے ذریعہ آخرت حاصل کرنے کی فکر کر)۔
اسلام اس مال کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ سب کے ساتھ نیکی کی جائے: ”اٴحْسَنَ کَمَا اٴحسنَ الله إلیک“
اسلام اس مال و دولت کی مدح و ثنا کرتا ہے جس میں انسان دنیا سے صرف اپنے حق کو نہ بھولے: ”لَاتَنْسِ نَصِیبکَ مِنَ الدُّنْیَا“
خلاصہ اسلام ایسے مال و دلت کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ ظلم و فساد برپا نہ کیا جائے، انسانی اقدار کی پائمالی نہ ہو، اور مال زیادہ کرنے کے جنون میں مبتلا نہ ہو، نیز مال ”خود پسندی“ اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے کا باعث نہ ہو یہاں تک کہ انسان مال و دولت کے نشہ میں خدا و رسول کے مقابلہ میں نہ آجائے۔
اس مال کے ذریعہ سب کی مشکلات دور کرناچاہئے، یہ مال اگر غریبوں کے زخم کا مرہم بن جائے، محتاج لوگوں کے درد کی دوا بن جائے تو واقعاً اسلام اس مال کوپسند کرتا ہے۔
ان مقاصد کے تحت مال و دولت حاصل کرنا دنیا کی محبت نہیں ہے، بلکہ یہ آخرت کی لگن ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: حضرت امام صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے شکایت کی کہ ہم دنیا سے محبت کرتے ہیں اور اس کی آرزو کرتے ہیں (لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا پرست نہ ہوجاؤں!!)
امام علیہ السلام (اس شخص کے تقویٰ اور پاکیزگی سے باخبر تھے، آپ)نے فرمایا: تم مال و دولت سے کیا کیا کام انجام دیتے ہو؟ اس نے عرض کی: اپنے او ر اپنے اہل و عیال کا خرچ پورا کرتا ہوں، اپنے رشتہ داروں کی مدد کرتا ہوں، راہ خدا میں خرچ کرتا ہوں اور حج و عمرہ بجالاتا ہوں، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لَیسَ ھَذا طَلَبُ الدُّنیَا ھَذَا طَلَبُ الآخِرةِ“(7)(یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی نہیں ہے ، بلکہ یہ آخرت کا سوداہے)اور یہیں سے ان دو گروہوں کے نظریہ کاباطل ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے : پہلا گروہ ایسے مسلمانوں کا ہے جن کو تعلیمات اسلامی کی کوئی خبر نہیں ہے اور اسلام کو مستکبرین کا حامی قرار دیتے ہیں، اور دوسرا گروہ ان دشمنوں کا ہے جو اسلام کی صورت بگاڑ کر پیش کرتے ہیں، اور اسلام کو مال و
دولت کا مخالف اور فقر و غربت کا طرفدار قرار دیتے ہیں۔
اصولی طور پر کوئی غریب قوم آزادی اور سربلند ی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔
فقر و غربت وابستگی کا وسیلہ ہے۔
فقر و غربت دنیا و آخرت کی ذلت کا نام ہے۔
فقر و غربت انسان کو گناہ اور آلودگی کی دعوت دیتے ہیں۔
جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے”غَنیٌّ یحجزُکَ عَن الظُّلْمِ خَیرٌ مِن فَقْرٍ یَحمَلُکَ عَلَی الاٴ ثمِ“(8) ( ایسی بے نیازی جو دوسروں پر ظلم کرنے سے روک لے، اس فقر و غربت سے بہتر ہے جو تجھے گناہوں کی دعوت دے)۔
تمام ملت اسلام کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ غنی بنیں اور دوسروں سے بے نیاز ہو جائیں، خود کفائی کی منزل تک پہنچیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، اور اپنی عزت و شرافت اور استقلال کو فقر و غربت اور دوسرے سے وابستگی پر قربان نہ کریں، یہی اسلام کا اصلی راستہ ہے۔(9)


(1) سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۱۸۰
(2) سورہٴ جمعہ ، آیت ۱۰
(3) نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،جملہ ۱۳۱
(4) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۸۲ (5) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۶۷
(6) ”وسائل الشیعہ “، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷، (حدیث ۵ ،باب ۱۶،ابواب مقدمات تجارت)
(7) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۹، (حدیث ۳، باب ۷،ابواب مقدمات التجارة)
(8) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷ (حدیث ۷باب ۶، ابواب مقدمات التجارة)
(9) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۶، صفحہ ۱۷۴
۶۶۔ نامہٴ اعمال کیا ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ۶۴۔ عالمِ برزخ کیا ہے اور وہاں کی زندگی کیسی ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma