۸۰۔ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کیوں ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
110 سوال اور جواب
۸۱۔ فلسفہ متعہ کیا ہے؟ ۷۹۔ پردہ کا فلسفہ کیا ہے

اگرچہ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ہے ، لیکن اگر غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ہے! اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حمایت کی ہے۔
وضاحت: اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ایسی ذمہ داری رکھی ہے جس سے اس کی در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئی خرچ نہیں ہے،چنا نچہ ایک شوہر پر واجب ہے کہ اپنی زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسری چیزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھی اسی کی گردن پر ہے، جبکہ عورتوں پر کسی طرح کا کوئی خرچ نہیں ہے یہاں تک کہ اپنا ذاتی خرچ بھی اس کے ذمہ نہیں ہے، لہٰذا ایک عورت میراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بینک میں رکھ سکتی ہے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مرد کی آمدنی کا آدھا حصہ اہل و عیال پر خرچ ہوگا، اور آدھا اس کے لئے باقی رہے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسی طرح محفوظ رہے گا۔
یہ مسئلہ وا ضح ہو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کریں: فرض کریں کہ پوری دنیا کا مال و دولت ۳۰ / ارب روپیہ ہے، جو میراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوں میں تقسیم ہونا ہے، تو اس میں ۲۰/ ارب مردوں کا اور ۱۰/ ارب عورتوں کا حصہ ہوگا، لیکن عورتیں عام طور پر شادی کرتی ہیں اور ان کی زندگی کا خرچ مردوں کے ذمہ ہوتا ہے، تو اس صورت میں عورتیں اپنے ۱۰/ ارب کو بینک میں جمع کر سکتی ہیں، اور عملی طور پر مردوں کے حصہ میں شریک ہوتی ہیں، کیونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھی مرد ہی کا حصہ خرچ ہوگا۔ اس بنا پر حقیقت میں مردوں کا آدھا حصہ یعنی ۱۰/ ارب عورتوں پر خرچ ہوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ہے سب ملاکر ۲۰/ ارب (یعنی دو تہائی) عو رتوں کے اختیار میں ہوگا، جبکہ عملی طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ہی باقی رہے گا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کا حقیقی خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ہے، اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ ان کے یہاں کاروبار کرنے کی قدرت کم پائی جاتی ہے، اور یہ ایک طرح سے منطقی اور عادلانہ حمایت ہے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دی ہے، حقیقت میں ان کا حصہ زیادہ رکھا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ہے۔
اسلامی روایات کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سوال پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے لوگوں کے ذہن میں موجود تھا جس کی بنا پر دینی رہبروں سے یہ سوال ہوتا رہا ہے، اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ہے جن میں سے اکثر کا مضمون ایک ہی ہے، اور وہ جواب یہ ہے: ”خداوندعالم نے زندگی کا خرچ اور مہر مرد کے ذمہ رکھا ہے، اسی وجہ سے ان کا حصہ زیادہ قرار دیا ہے“۔
کتاب ”معانی الاخبار“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ عورت جب شادی کرتی ہے تو وہ مہر لیتی ہے اور مرد دیتا ہے، اس کے علاوہ بیوی کا خرچ شوہر پر ہے، جبکہ عورت خود اپنی اور شوہر کی زندگی کے خرچ کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی“۔(1)


(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۲۹۰
۸۱۔ فلسفہ متعہ کیا ہے؟ ۷۹۔ پردہ کا فلسفہ کیا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma