۲۱. انفاق کی قبولیت کے دوسرے موانع

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
روایات اسلامی میں انفاق کی قبولیت کے شرائط ۲۰. موانع قبول

<اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَاْلَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَاْ یُتْبِعُوْنَ مَآ اٴَنْفَقُوْامَنًّا وَّلَاْ اَذَیً لَّھُمْ اَجْرُہُمْ عَنْدَ رَبِّہِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاْ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورئہ بقرہ/آیت/۲۶۲)
جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان نہیں جتاتے اور اذیت بھی نہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر بھی ہے اور نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔
وضاحت
انمول اور قابل قبول انفاق کیا ہے؟
اس سوال کا جواب مذکورہ آیت میںدیا گیا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے: راہ خدا میںکیا گیا انفاق اسی وقت اس کی بارگاہ میں قبول ہوسکتا ہے جب اس کے ساتھ احسان جتا نے اور حاجت مندوں کو تکلیف دینے والی کوئی چیز نہ ہو ۔
لہٰذاجو لوگ راہ خدا میں مال توخرچ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاکاری کرتے ہیں، حاجت مندوں کو اذیت دیتے اوران پر احسان جتاتے ہیںجو ان کی رنجیدگی کا سبب بنتا ہے ایسے افراد اپنے اس ناپسندیدہ عمل کے ذریعہ اپنے اجروثواب کو ضائع کر دیتے ہیں ۔
اس آیہٴ کریمہ میں جس چیز کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید انسانی زندگی کے سرمایہ کو صرف مادی سرمایہ ہی نہیں جانتا ہے بلکہ وہ معنوی اور اجتماعی سرمایہ پر بھی نظر رکھتا ہے۔
جو شخص کسی کو کوئی چیز دیتا ہے اوراس پر احسان جتاتا ہے یا اسے اذیت دے کر اس کا دل توڑ دیتا ہے تودرحقیقت اس نے اسے کچھ دیانہیںہے اس لئے کہ اس نے ایک مادی سرمایہ دیا ہے اس کے بدلے میںاور ایک معنوی سرمایہ اس سے چھین لیا ہے اور بسا اوقات یہ ذلتیں اور روحی اذیتیں اس مال سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں جو اسے دی گئی ہےں۔
لہٰذااگر ایسے افراد اجروثواب کے مستحق نہ ہوں تو عدالت کے موافق بات ہے بلکہ بہت سے مقامات پر حاجت مند افراد مقروض ہونے کے بجائے طلب گار بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان کی عزت وآبر، مال وثروت سے کہیں زیادہ بر تر و بلند ترہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آیہٴ کریمہ میں احسان جتانے اور اذیت دینے کو کلمہٴ”ثُمَّ“ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو عام طور سے دو واقعہ کے درمیان فاصلہ کے لئے آتا ہے (اصطلاحاًتراخی کے لئے)لہٰذا آیت کا معنی یہ ہے کہ !جو لوگ انفاق کرتے ہیں اور بعد میں احسان نہیں جتاتے اور اذیت نہیں دیتے ان لوگوں کا اجر و ثواب خدا کے پاس محفوظ ہے ۔
یہ تعبیر خود اس بات کی گواہ ہے کہ قرآن کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ انفاق ادب و احترام کے ساتھ ہو اور احسان جتا نے سے خالی ہو بلکہ مہینے اور سال گذرنے کے بعد بھی اسے یاد کرکے اس پر احسان نہ جتایا جائے اور یہ تعبیر اسلام میں خالص اور بے ریا خدمات کی طرف نشاندہی کر رہی ہے ۔
متوجہ رہنا چاہئے کہ احسان جتانا اور اذیت دینا جو کہ انفاق کے قبول نہ ہونے کا سبب ہے صرف حاجت مندوں اورفقیروں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عمومی اور سماجی کاموں میں بھی اس بات کی رعایت کرنا ضروری ہے جیسے راہ خدا میں جہاد کرناعام فلاحی کام انجام دیا مدرسے،مسجدیں ،اور اسپتال بنانا۔
جملہٴ”لَھُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ “( ان کے اجرو ثواب ان کے ان پروردگار کے پاس ہیں )راہ خدا میں انفاق کرنے والوں کو اطمینان دلاتا ہے کہ ان کے اجرو ثواب ان پروردگار کے پاس محفوظ ہیں اوروہ اطمینان کے ساتھ اس راہ میں قدم اٹھائیں اس لئے کہ جو چیز خدا کے پاس ہے اس کوہی نابودی کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کمی کا، بلکہ تعبیر”ربہم“ (ان کا پروردگار ) گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا وند عالم ان کے اجر و ثواب کو زیادہ اور برابر اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں بھی اس بات کو بیان کیا گیا ہے۔
جملہٴ”وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاْ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ “اس بات کے پیش نظر کہ ”خوف“،آنے والے امور کے سلسلہ میں ہوتا ہے اور حزن وغم گذری ہوئی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے لہٰذا فرماتا ہے کہ انفاق کرنے والے پروردگار کے نزدیک اپنے اجرو ثواب کے محفوظ ہونے کی وجہ سے نہ ہی مستقبل اور قیامت سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی اپنے کئے ہوئے انفاق پر محزون اور فکر مند ہیں ۔
 


روایات اسلامی میں انفاق کی قبولیت کے شرائط ۲۰. موانع قبول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma