الہٰی اورنمائشی انفا ق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
۲۳ . نمائشی انفاق کا دوسرا نمونہ ۲۲ . ریا کاروں کا انفاق

یہ آیہٴ کریمہ متکبر ، خود خواہ اور بخیل افراد کی طرف اشارہ کر رہی ہے جن کا ذکر اس سے پہلی والی آیت میں آیا ہے ۔خدا وند عالم فرماتا ہے: یہ افراد وہ ہیں جو نہ صرف دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے میںبخل کرتے ہیںبلکہ دوسروں کو بھی بخل کی دعوت دیتے ہیں :اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاٴْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ
اور خدا وند عالم نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اسے پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ لوگ ان سے کسی طرح کی کوکوئی توقع نہ رکھیں:وَیَکْتُمُوْنَ مَآ آتَا ہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ
اس کے بعد ایسے لوگوں کا انجام اس طرح بیان کرتا ہے کہ :ہم نے کافرین کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیاّ کر رکھا ہے ۔
شاید تعبیر کفر کا راز یہ ہو کہ عام طور سے کفر کا سر چشمہ بخل اور کنجوسی ہے اس لئے کہ بخیل ، پروردگار کی بے نہایت نعمتوں اور اس کے وعدہ پر مکمل ایمان نہیں رکھتے ہیں ۔اوروہ احسان کرنے والوںسے کہتے ہیںکہ دوسروں کی مدد کرنا انہیں فقیر بنا دے گا۔
ایسے لوگوں کے لئے ذلیل و رسوا کن عذاب ہے اس لئے کہ تکبّر اور دوسروں کو ذلیل کرنے کی سزا یہی ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں پر کنجوسی صرف مال ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خداکی دی ہوئی ہر نعمت میںکنجوسی کو شامل ہے بہت سے ایسے افراد ہیں جو مال میں بخیل نہیںہوتے لیکن علم و دانش اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔
مذکورہ آیت میں کنجوس متکبرین کی ایک دوسری صفت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے کہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اگر انفاق بھی کرتے ہیں تو لوگوں کے دکھاوے ، شہرت اور مقام و منصب حاصل کرنے کے لئے ۔ان کا مقصد خدمت خلق اور رضائے الہٰی نہیں ہوتا۔ لہٰذاوہ انفاق کرنے میں سامنے والے کے استحقاق کو نظر میں نہیں رکھتے بلکہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح انفاق کیا جائے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جاسکے اور اپنی مو قعیت اور مقام کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔اس لئے کہ وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا ان کے انفاق میں معنوی وہ جذبہ نہیں ہوتاہے۔
وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطَانُ لَہ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنا انہوں نے شیطان کو اپناساتھی بنا رکھا ہے اورجس نے ایسا کیا اس نے اپنے لئے بدترین ساتھی کاانتخاب کیا ہے اور وہ اس سے اچھا راستہ اختیار نہیں کر سکتا اس لئے کہ اس کی ساری فکر اور منطق ان کے دوست، شیطان کی فکر ومنطق ہے اور شیطان ہی ہے جو اس سے کہتا ہے کہ خالصانہ انفاق فقرو غربت کا سبب بنتا ہے:اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ (۱)
اسی لئے وہ یا تو انفاق نہیں کرتا اور کنجوسی کرتا ہے (جیسا کہ پہلی آیت میں اشارہ ہوا)یا انفاق کرتا ہے تو ایسے مقامات پر جہاں سے شخصی اور ذاتی فائدہ اٹھاسکیں۔(جیسا کہ اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے)
اس آیہٴ کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ برا ساتھی کس حد تک انسان کے سر انجام میں موٴثر ثابت ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس کو پستی کے آخری درجہ تک پہنچا سکتا ہے اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ متکبرین کا شیطان (اور شیطا نی اعمال) سے ایک مسلسل اور مستقل رابطہ ہے صرف وقتی اور اتفاقی نہیں ۔جیسا کہ فرمارہا ہے”انہوں نے شیطان کو اپنا دوست ،ساتھی اور ہمنشین بنا رکھا ہے“
اس کے بعدارشاد فرماتا ہے : وَمَا ذَا عَلَیْہِمْ لَوْآمَنُوْا بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ کیاہواکہ یہ لوگ اس گمراہی میں پلٹ آئے کاش یہ لوگ خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آتے اور پروردگار نے انہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کو خلوص نیت اور پاکیزہ افکار کے ساتھ اس کے بندوں پر انفاق کرتے اور اس کے ذریعہ دنیا وآخرت میں اپنے لئے سعادت و کامیابی کا انتظام کرتے؟!!
آیت کے آخر میں فرماتا ہے خدا ان کے حالات سے آگاہ اورباخبر ہے۔وَکَانَ اللّٰہُ بِہِمْ عَلِیْماً
بے شک ہرحال میں خدا وند عالم ان کی نیتوں اور اعمال سے باخبر ہے اور اسی کے مطابق انہیں جزا اور سزا دے گا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ گذشتہ آیات جن میں دکھاوے کے انفاق کو بیان کیا گیا تھا اس میں انفاق کی نسبت ”اموال“ کی طرف دی گئی ہے اور اس آیہٴ کریمہ میں :مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ خدا کی عطا کردہ روزی کی طرف نسبت دی جا رہی ہے تعبیر کا یہ اختلاف ممکن ہے کہ تین اہم نکتوں کی طرف اشارہ ہو:
۱- دکھاوے کے انفاق میں مال کے حلال اور حرام ہونے کی طرف توجہ نہیں ہوتی جب کہ خدائی انفاق میں حلال اور ”مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ “ کا مصداق ہونے کی طرف توجہ ہو تی ہے۔
۲- دکھاوے کے انفاق میں چونکہ انفاق کرنے والا مال کو اپنے سے متعلق جانتا ہے لہٰذا وہ احسان جتانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا جبکہ خدائی انفاق میں چونکہ اس بات کی طرف توجہ ہوتی ہے کہ ان اموال کو خدا ہی نے انہیں عطا کیا ہے اگر اسمیں سے کچھ اس کی راہ میں خرچ کردیا جائے تو احسان جتانے اور منت گذاری کا کوئی مقام نہیں ہے لہٰذاوہ ہر طرح کی منت گذاری اور احسان جتانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔
۳- دکھاوے کے انفاق عام طور سے مال سے مخصوص ہوتے ہیں اس لئے کہ ایسے افراد معنوی سرمایہ سے محروم ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ انفاق کر سکیں لیکن خدائی انفاق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ساری مادی اور معنوی نعمتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے چاہے مال اور علم ہو یا سماجی مقام و منزلت یہ سب ”مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ“کا مصداق ہیں ۔

۲۳ . نمائشی انفاق کا دوسرا نمونہ ۲۲ . ریا کاروں کا انفاق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma