اسماعیل (ع) قربان گاہ میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
شیطانى وسوسہ اسماعیل (ع) اور ہاجرہ(ع) کو منتقل کرنے کا حکم

اسماعیل کا سن 13 /سال کا تھا کہ حضرت ابراہیم نے ایک عجیب اور حیرت انگیز خواب دیکھا ،یہ خواب اس عظیم الشان پیغمبر کے لئے ایک اور آزمائشے کو بیان کرتا تھا _ انھوں نے خواب دیکھا کہ انھیں خدا کى طرف
سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قربانى کریں اور اسے ذبح کردیں _
ابراہیم(ع) وحشت زدہ خواب سے بیدار ہوئے ،وہ جانتے تھے کہ پیغمبروں کے خواب حقیقت اور شیطانى وسو سوں سے دور ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود دو راتوں میں بھى یہى خواب دیکھا جو اس امر کے لازم ہونے اور اسے جلد انجام دینے کے لئے تاکید تھى _
کہتے ہیں کہ پہلى مرتبہ '' شب ترویہ'' (آٹھ ذى الحجہ کى رات ) یہ خواب دیکھا اور '' عرفہ '' اور '' عید قربان '' (نویں اور دسویںذى الحجہ ) کى راتوں میں خواب کا تکرار ہوا _ لہذا اب ان کے لئے ذراسا بھى شک باقى نہ رہا کہ یہ خدا کا قطعى فرمان ہے _
ابراہیم(ع) جو بار ہا امتحان خداوندى کى گرم بھٹى سے سرفراز ہو کر باہر آچکے تھے،اس دفعہ بھى چاہئے کہ بحر عشق میں کود پڑیں اور خداوند عالم کے فرمان کے سامنے سرجھکادیں،اور اس فرزند کو جس کے انتظار میں عمر کا ایک حصہ گذاردیا تھا اور اب وہ ایک آبرومند نوجوان تھا، اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کردیں _
لیکن ضرورى ہے کہ ہر چیز سے پہلے اپنے فرزند کو اس کام کے لئے آمادہ کریں ، لہذا اس کى طرف رخ کرکے فرمایا :'' میرے بیٹے : میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہاہوں ، اب تم دیکھو: تمہارى اس بارے میں کیا رائے ہے ''؟ (1)
بیٹا بھى تو ایثار پیشہ باپ کے وجود کا ایک حصہ تھا اور جس نے صبرو استقامت اور ایمان کا درس اپنى چھوٹى سى عمر میں اسى کے مکتب میں پڑھا تھا ، اس نے خوشى خوشى خلوص دل کے ساتھ اس فرمان الہى کا استقبال کیا اور صراحت اور قاطیعت کے ساتھ کہا: ''اباجان : جو حکم آپ کو دیا گیا ہے اس کى تعمیل کیجئے''_(2)
میرى طرف سے بالکل مطمئن رہئے_ '' انشاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے ''_(3)
باپ اور بیٹے کى یہ باتیں کس قدر معنى خیز ہیں اور کتنى باریکیاں ان میں چھپى ہوئی ہیں _
ایک طرف تو باپ، 13/ سالہ بیٹے کے سامنے اسے ذبح کرنے کى بات بڑى صراحت کے ساتھ کرتا ہے اور اس سے اس کى رائے معلوم کرتا ہے اس کے لئے مستقل شخصیت اور ارادے کى آزادى کا قائل ہوتا ہے ، وہ ہرگز اپنے بیٹے کو دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا اور اسے اندھیرے میں رکھتے ہوئے امتحان کے اس عظیم میدان میں آنے کى دعوت نہیں دیتا وہ چاہتا ہے کہ بیٹا بھى اس عظیم امتحان میں پورے دل کے ساتھ شرکت کرے اور باپ کى طرح تسلیم ورضا کا مزہ چکھے _
دوسرى طرف بیٹا بھى یہ چاہتا ہے کہ باپ اپنے عزم وارادہ میں پکااور مضبوط رہے، یہ نہیں کہتا کہ مجھے ذبح کریں بلکہ کہتا ہے : جوآپ کو حکم دیا گیا ہے اسے بجالائیں میں اس کے امرو فرمان کے سامنے سر تسلیم خم ہوں ،خصوصاً باپ کو '' یا ابت '' (ابا جان :) کہہ کر مخاطب کرتا ہے ،تاکہ اس بات کى نشاندہى کردے کہ اس مسئلے پر جذبات فرزندو پدر کاسوئی کى نوک کے برابر بھى اثر نہیں ، کیونکہ فرمان خدا ہر چیز پر حاکم ہے _
اور تیسرى طرف سے پروردگار کى بارگاہ میں مراتب اداب کى اعلى ترین طریقے سے پاسدارى کرتا ہے ،ہرگز اپنے ایمان اور عزم وارادہ کى قوت پر بھروسہ نہیں کرتا ، بلکہ خدا کى مشیت اور اس کے ارادہ پر تکیہ کرتاہے اور اس عبادت کے ساتھ اس سے پامردى اور استقامت کى توفیق چاہتاہے _
اس طرح سے باپ بھى اور بیٹا بھى اس عظیم آزمائشے کے پہلے مرحلے کو مکمل کامیابى کے ساتھ گزاردیتے ہیں_


(1)سورہ صافات آیت102
(2) سورہ صافات آیت 102
(3)سورہ صافات آیت102
 

 

 

شیطانى وسوسہ اسماعیل (ع) اور ہاجرہ(ع) کو منتقل کرنے کا حکم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma