موسى علیہ السلام کى مخفیانہ مدین کى طرف روانگی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
حضرت موسى علیہ السلام کے لیے سزا ئے موتموسى علیہ السلام مظلوموں کے مددگار کے طورپر

فرعونیوں میں سے ایک آدمى کے قتل کى خبر شہر میں بڑى تیزى سے پھیل گئی قرائن سے شاید لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ اس کا قائل ایک بنى اسرائیل ہے اور شاید اس سلسلے میں لوگ موسى علیہ السلام کا نام بھى لیتے تھے_
البتہ یہ قتل کوئی معمولى بات نہ تھى اسے انقلاب کى ایک چنگارى یا اس کا مقدمہ شمار کیا جاتاتھا اور درحقیقت یہ معاملہ کوئی اہم اور بحث طلب تھا ہى نہیں کیونکہ ستم پسند وابستگان فرعون نہایت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنى اسرائیل کے ہزاروں بچوںکے سرقلم کیے اور بنى اسرائیل پر کسى قسم کا ظلم کرنے سے بھى دریغ نہ کیا اس جہت سے یہ لوگ اس قابل نہ تھے کہ بنى اسرائیل کےلئے ان کا قتل احترام انسانیت کے خلاف ہو _
البتہ مفسرین کے لئے جس چیزنے دشواریاں پیدا کى ہیں وہ اس واقعے کى وہ مختلف تعبیرات ہیں جو خود حضرت موسى نے کى ہیں چنانچہ وہ ایک جگہ تو یہ کہتے ہیں:
''
ھذا من عمل الشیطان ''
''یہ شیطانى عمل ہے ''_
اور دوسرى جگہ یہ فرمایا:
''
رب انى ظلمت نفسى فاغفرلى ''
''خدایامیںنے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے معاف فرمادے ''_
جناب موسى علیہ السلام کى یہ دونوں تعبیرات اس مسلمہ حقیقت سے کیونکر مطابقت رکھتى ہیں کہ :
عصمت انبیا ء کا مفہوم یہ ہے کہ انبیا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ہر دو حالات میں معصوم ہوتے ہیں '' _
لیکن حضرت موسى علیہ السلام کے اس عمل کى جو توضیح ہم نے آیات فوق کى روشنى میں پیش کى ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسى سے جو کچھ سرزد ہوا وہ ترک اولى سے زیادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ کو زحمت میں مبتلاکرلیا کیونکہ حضرت موسى کے ہاتھ سے ایک قبطى کا قتل ایسى بات نہ تھى کہ وابستگان فرعون اسے آسانى سے برداشت کرلیتے_
نیز ہم جانتے ہیںکہ ''ترک اولى ''کے معنى ایسا کام کرنا ہے جو بذات خود حرام نہیں ہے_ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ''
عمل احسن ''ترک ہوگیا بغیر اس کے کہ کوئی عمل خلاف حکم الہى سرزد ہوا ہو؟
حکومت کى مشینرى اسے ایک معمولى واقعہ سمجھ کراسے چھوڑنے والى نہ تھى کہ بنى اسرائیل کے غلام اپنے آقائوں کى جان لینے کا ارادہ کرنے لگیں_
لہذا ہم قرآن میں یہ پڑھتے ہیں کہ'' اس واقعے کے بعد موسى شہر میں ڈررہے تھے اور ہر لحظہ انہیں کسى حادثے کا کھٹکا تھا اور وہ نئی خبروں کى جستجو میں تھے ''_(1)
ناگہاں انہیں ایک معاملہ پیش آیا آپ نے دیکھا کہ وہى بنى اسرائیلى جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب کى تھى انھیں پھر پکاررہا تھا اور مدد طلب کررہاتھا (وہ ایک اور قبطى سے لڑرہا تھا) _
''لیکن حضرت موسى علیہ السلام نے اس سے کہا کہ تو آشکارا طور پر ایک جاہل اور گمراہ شخص ہے''_(2)
توہر روز کسى نہ کسى سے جھگڑ پڑتا ہے اور اپنے لئے مصیبت پیدا کرلیتا ہے اور ایسے کام شروع کردیتا ہے جن کا ابھى موقع ہى نہیں تھا کل جو کچھ گزرى ہے میں تو ابھى اس کے عواقب کا انتظار کرہا ہوں اور تونے وہى کام از سر نو شروع کردیا ہے _
بہر حال وہ ایک مظلوم تھا جو ایک ظالم کے پنجے میں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے کچھ قصور ہوا ہو یانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسى کے لئے یہ ضرورى ہوگیا کہ اس کى مدد کریں اور اسے اس قبطى کے رحم وکرم پر نہ چھوڑدیں لیکن جیسے ہى حضرت موسى نے یہ اراداہ کیا کہ اس قبطى آدمى کو (جو ان دونوں کا دشمن تھا )پکڑ کر اس بنى اسرائیل سے جدا کریں وہ قبطى چلایا، اس نے کہا : اے موسى : کیا تو مجھے بھى اسى طرح قتل کرنا چاہتا ہے جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا تھا''_(3)''تیرى حرکات سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ تو زمین پر ایک ظالم بن کررہے گا اور یہ نہیں چاہتا کہ مصلحین میں سے ہو ''_(4)
اس جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام نے فرعون کے محل اور اس کے باہر ہر دو جگہ اپنے مصلحانہ خیالات کا اظہار شروع کردیا تھا بعض روایات سے یہ بھى معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان کے فرعون سے اختلافات بھى پیدا ہوگئے تھے اسى لئے تو اس قبطى آدمى نے یہ کہا :
یہ کیسى اصلاح طلبى ہے کہ تو ہر روز ایک آدمى کو قتل کرتاہے ؟
حالانکہ اگر حضرت موسى کا یہ ارادہ ہوتا کہ اس اس ظالم کو بھى قتل کردیں تو یہ بھى راہ اصلاح میں ایک قدم ہوتا _
بہرکیف حضرت موسى کو یہ احساس ہوا کہ گزشتہ روز کا واقعہ طشت ازبام ہوگیا ہے اور اس خوف سے کہ اور زیادہ مشکلات پیدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے میں دخل نہ دیا _


(1)سورہ قصص آیت15
(2)سورہ قصص آیت16
(3)سورہ قصص آیت19
(4)سورہ قصص آیت 19

 

 

حضرت موسى علیہ السلام کے لیے سزا ئے موتموسى علیہ السلام مظلوموں کے مددگار کے طورپر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma