حضرت خضر کون تھے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
خود ساختہ افسانےان واقعات کاراز

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت خضر(ع) کانام صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں لیا گیا اور حضرت موسى کے دوست اور استاد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :''ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ جسے ہم نے اپنى رحمت عطا کى اور جسے ہم نے اپنے علم سے نوازا''_اس تعارف میں ان کے مقام عبودیت کا تذکرہ ہے اور ان کے خاص علم کو واضح کیا گیا ہے لہذا ہم نے بھى عالم کے طور پر ان کا زیادہ ذکر کیا ہے_
لیکن متعدد روایات میں اس عالم کا نام''خضر''بتایا گیا ہے_بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصلى نام''بلیا ابن ملکان''تھا اور''خضر''ان کا لقب تھاکیونکہ وہ جہاں کہیں قدم رکھتے ان کے قدموں کى بدولت زمین سر سبز ہوجاتى تھی_
مجھے آج کسى سخت بیمارى میں مبتلا کردے ، اس طرح سے کہ میں گھرسے باہر نہ نکل سکوں کیونکہ وہ چاہتا ہے _
دوسرے لفظوں میں اس عالم میں مامورین کا ایک گروہ باطن پر مامور ہے اور ایک گروہ ظاہر پر مامور ہے جو باطن پر مامور ہیں ان کے لئے اپنے اصول وضوابط اور پروگرام ہیں اور جو ظاہر پر مارمور ہیں ان کے لئے اپنے خاص اصول وضوابط ہے_
یہ ٹھیک ہے کہ ان دونوں پر وگراموں کا اصلى اور کلى مقصد انسان کو کمال کى طرف لے جانا ہے اس لحاظ سے دونوں ہم آہنگ ہیں، شک نہیں کہ ان دونوں طریقوں میں سے کسى میں بھى کوئی خود سرى سے کوئی اقدام نہیں کرسکتا بلکہ ضرورى ہے کہ وہ حقیقى مالک وحاکم کى طرف سے مجاز ہو لہذا حضرت خضر علیہ السلام نے صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کیا اور کہا:
میںنے یہ کام حکم الہى کے مطابق اور اسى کے ضابطے اور طریقے کے مطابق انجام دیئےیں اس طرح ان اقدامات میں جو ظاہرى تضاد نظر آتا ہے وہ ختم ہوجاتاہے _اور یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حضرت موسى حضرت خضر کے کاموں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے تو یہ اسى بناء پر تھا کہ ان کى ماموریت اور ذمہ دارى کا طریقہ جناب خضر(ع) کى ذمہ دارى کے راستے سے الگ تھا لہذا جب انہوں نے حضرت خضر کاکام ظاہراً شرعى قوانین کے خلاف دیکھا تو اس پر اعتراض کیا لیکن خضر نے ٹھنڈے دل سے اپنا کام جارى رکھا اور چونکہ یہ دو عظیم خدائی رہبر مختلف ذمہ داریوں کى بناء پر ہمیشہ کے لئے اکٹھے نہیںرہ سکتے تھے لہذا حضرت خضرا نے کہا :
''یہ اب میرے اور تمہارے جدا ہونے کا مرحلہ آگیا ہے ''_
بعض نے یہ احتمال بھى ذکر کیا ہے کہ اس عالم کا نام''الیا(ع) س''ہے یہى سے یہ تصور پیدا ہوا کہ ہوسکتا ہے''الیاس''اور''خضر''ایک ہى شخص کے دو نام ہوں لیکن مشہور و معروف مفسرین اور راویوں نے پہلى بات ہى بیان کى ہے_
واضح ہے کہ یہ بات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتى کہ اس شخض کا نام کیا ہے_اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک عالم ربانى تھے اور پروردگار کى خاص رحمت ان کے شامل حال تھی_وہ باطن اور نظا م تکوینى پر مامور تھے اور کچھ اسرار سے آگاہ تھے اور ایک لحاظ سے موسى (ع) بن عمران کے معلم تھے اگر چہ حضرت موسى علیہ السلام کئی لحاظ سے ان پر مقدم تھے_
یہ کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں_اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں_اصول کافى جلد اول میں متعدد روایات ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتى ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ''ذوالقرنین''اور''آصف ابن برخیا''کى طرح ایک عالم تھے_
جبکہ کچھ اور روایات ایسى بھى ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقام نبوت کے حامل تھے اور زیر نظر روایات میں بھى بعض تعبیرات کا ظاہرى مفہوم بھى یہى ہے_کیونکہ ایک موقع پروہ کہتے ہیں:
''میں نے یہ کام اپنى طرف سے نہیں کیا''_
ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
''ہم چاہتے تھے کہ ایسا ہو''_
نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لمبى عمر کے حامل تھے_(1)
 


(1)یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے_ وہ یہ کہ کیا اس عالم بزرگوار کا واقعہ یہودیوں اور عیسائیوں کى کتابوں میں بھى ہے؟
سوال کا جواب یہ ہے:
اگر کتب سے مراد کتب عہدین(توریت و انجیل)ہیں،تو ان میں تو نہیں ہے لیکن بعض یہودى علماء کى کتابیں کہ جو

 

 

 

خود ساختہ افسانےان واقعات کاراز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma