آغاز جنگ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
کون پکارا کہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟مسلمانوں کى دفاعى تیاریاں

دونوں لشکر ایک دوسرے کے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور یہ دونوں لشکر اپنے نوجوانوں کو ایک خاص انداز سے اکسا رہے تھے، ابوسفیان کعبہ کے بتوں کے نام لے کر اور خوبصورت عورتوں کے ذریعے اپنے جنگى جوانوںکى توجہ مبذول کراکے ان کو ذوق وشوق دلاتا تھا_
جب کہ پیغمبر اسلام (ص) خدا کے اسم مبارک اور انعامات اعلى کے حوالے سے مسلمانوں کو جنگ کى ترغیب دیتے تھے اچانک مسلمانوں کى صدائے اللہ اکبراللہ اکبر سے میدان اور دامن کوہ کى فضا گونج اٹھى جب کہ میدان کى دوسرى طرف قریش کى لڑکیوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا کر قریش کے جنگ جو افراد کے احساسات کو ابھارتى تھیں_
جنگ کے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ایک شدید حملہ سے لشکر قریش کے پرخچے اڑادیئےور وہ حواس باختہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور لشکر اسلام نے ان کا پیچھا کرنا شروع کردیا خالدبن ولید نے جب قریش کى یقینى شکت دیکھى تو اس نے چاہا کہ درہ کے راستے نکل کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کرے لیکن تیراندازوں نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا قریش کے قدم اکھڑتے دیکھ کر تازہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے دشمن کو شکت خوردہ سمجھ کرمال غنیمت جمع کرنے کے لئے اچانک اپنى پوزیشن چھوڑدى ، ان کى دیکھا دیکھى درہ پر تعینات تیراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑدیا، ان کے کمانڈرعبد اللہ بن جبیرنے انہیں آ نحضرت(ص) کا حکم یاددلایا مگرسوائے چند (تقریبا ًدس افراد) کے کوئی اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_
پیغمبراکرم (ص) کى مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالدبن ولید نے درہ خالى دیکھ کر بڑى تیزى سے عبد اللہ بن جبیر پر حملہ کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا، اس کے بعد انہوں نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اچانک مسلمانوں نے ہر طرف چمک دار تلواروں کى تیزدھاروں کو اپنے سروں پر دیکھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ کو منظم نہ رکھ سکے قریش کے بھگوڑوں نے جب یہ صورتحال دیکھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرلیا_
اسى موقع پر لشکر اسلام کے بہادر افسر سید الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا ،سوائے چند شمع رسالت کے پروانوں کے اور بقیہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوکر میدان کو دشمن کے حوالے کردیا_
اس خطرناک جنگ میں جس نے سب سے زیادہ فداکارى کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر اکرم (ص) پر ہونے والے دشمن کے ہر حملے کا دفاع کیا وہ حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام تھے _
حضرت على علیہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ کررہے تھے یہاں تک کہ آپ کى تلوار ٹوٹ گئی، اور پیغمبر اکرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ کو عنایت فرمائی جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ایک مورچہ میں ٹھہرگئے اور حضرت على علیہ السلام مسلسل آپ کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ بعض مورخین کى تحقیق کے مطابق حضرت على علیہ السلام کے جسم پر ساٹھ کارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پیغمبراکرم (ص) سے عرض کیا :اے محمد یہ ہے مواسات ومعاونت کا حق ،آپ (ص) نے فرمایا ( ایسا کیوں نہ ہو کہ ) على مجھ سے ہے اور میں على سے ہوں ،تو جبرئیل نے اضافہ کیا : میں تم دونوں سے ہوں _
امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قاصد وحى کو آسمان میں یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ: ''لاسیف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں اور على کے سوا کوئی جوانمرد نہیں )
اس اثناء میں یہ آواز بلند ہوئی کہ محمد قتل ہوگئے _
یہ آواز فضائے عالم میں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں کے جذبات پر مثبت اثر پیدا ہوا اتناہى مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا ہوگیا چنانچہ ایک گروہ کے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تیزى سے میدان جنگ سے نکل گئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے سوچا کہ پیغمبر شہیدہو گئے ہیں لہذا اسلام ہى کو خیرباد کہہ دیا جائے اور بت برستوں کے سرداروں سے امان طلب کرلى جائے لیکن ان کے مقابلہ میں فداکاروں اور جانثاروں کى بھى ایک قلیل جماعت تھى جن میں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جیسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں کوپامردى اور استقامت کى دعوت دے رہے تھے ان میں سے انس بن نضر لوگوں کے درمیان آیا اور کہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہید ہوگئے ہیں تو محمد کا خدا تو قتل نہیں ہوا چلو اور جنگ کرو ،اسى نیک اور مقدس ہدف کے حصول کے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،یہ گفتگو تمام کرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ کردیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگیا کہ پیغمبر اکرم (ص) سلامت ہیں اور اطلاع ایک شایعہ تھى _
 

 


کون پکارا کہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟مسلمانوں کى دفاعى تیاریاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma