جنگ احزاب قرآن کى روشنى میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
منافقین او رضعیف الایمان جنگ احزاب میںحذیفہ کا واقعہ

قرآن اس ماجرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ''اے وہ لوگ جو ایمان لائے ہو، اپنے اوپر خدا کى عظیم نعمت کو یاد کرو،اس موقع پر جب کہ عظیم لشکر تمہارى طرف آئے ''_(1)
''لیکن ہم نے ان پر آندھى اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنہیں تم نہیں دیکھتے رہے تھے اور اس ذریعہ سے ہم نے ان کى سرکوبى کى اور انھیں تتر بتر کردیا ''_(2)
'' نہ دکھنے والے لشکر '' سے مراد جو رسالت ماب (ص) کى نصرت کے لئے آئے تھے ، وہى فرشتے تھے جن کا مومنین کى جنگ بدر میں مدد کرنا بھى صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے لیکن جیسا (کہ سورہ انفال کى آیہ 9 کے ذیل میں) ہم بیان کرچکے ہیں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ نظر نہ آنے والا فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل ہوا اور وہ جنگ میں بھى مصروف ہوا ہو بلکہ ایسے قرائن موجود ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف مومنین کے حوصلے بلند کرنے اور ان کا دل بڑھانے کے لئے نازل ہوئے تھے _
بعد والى آیت جو جنگ احزاب کى بحرانى کیفیت ، دشمنوں کى عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کى شدید پریشانى کى تصویر کشى کرتے ہوئے یوں کہتى ہے '' اس وقت کو یاد کرو جب وہ تمہارے شہر کے اوپر اور نیچے سے داخل ہوگئے ،اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکھیں شدت وحشت سے پتھرا گئی تھیں اور جاںبلب ہوگئے تھے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کى بدگمانیان کرتے تھے ''_(3)
اس کیفیت سے مسلمانوں کى ایک جماعت کے لئے غلط قسم کے گمان پیدا ہوگئے تھے کیونکہ وہ ابھى تک ایمانى قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نہیں پہنچ پائے تھے یہ وہى لوگ ہیں جن کے بارے میں بعد والى آیت میں کہتا ہے کہ وہ شدت سے متزلزل ہوئے _
شایدان میں سے کچھ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار ہم شکست کھا جائیں گے اور اس قوت و طاقت کے ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب ہوجائے گا، اسلام کے ز ندگى کے آخر ى دن آپہنچے ہیں اور پیغمبر (ص) کا کا میابى کا وعدہ بھى پورا ہوتا دکھا ئی نہیں دیتا _
البتہ یہ افکار اور نظریات ایک عقیدہ کى صورت میں نہیں بلکہ ایک وسوسہ کى شکل میں بعض لوگوںکے دل کى گہرائیوں میں پیدا ہو گئے تھے بالکل ویسے ہى جیسے جنگ احد کے سلسلہ میں قرآن مجید ان کا ذکر کرتے ہو ئے کہتا ہے :''یعنى تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانى لمحات میںصرف اپنى جان کى فکر میں تھا اور دورجا ہلیت کے گمانوں کى مانند خدا کے بارے میں بدگمانى کررہے تھے ''_
یہى وہ منزل تھى کہ خدائی امتحان کا تنور سخت گرم ہوا جیسا کہ بعد والى آیت کہتى ہے کہ ''وہاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت دہل گئے تھے_(4)
فطرى امر ہے کہ جب انسان فکرى طوفانوںمیںگھر جاتا ہے تو اس کا جسم بھى ان طوفانوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ،بلکہ وہ بھى اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے ،ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب لوگ ذہنى طور پر پریشان ہوتے ہیں تو وہ جہاں بھى بیٹھتے ہیں اکثر بے چین رہتے ہیں، ہاتھ ملتے کاپنتے رہتے ہیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوںکو اپنى حرکات سے ظاہر کرتے رہتے ہیں _
اس شدید پریشانى کے شواہد میں سے ایک یہ بھى تھا جسے مورخین نے بھى نقل کیا ہے کہ عرب کے پانچ مشہور جنگجو پہلوان جن کا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ کا لباس پہن کر اورمخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور ''ھل من مبارز''( ہے کو ئی مقابلہ کرنے والا )کى آواز لگانے لگے ، خاص کر عمرو بن عبدود رجز پڑھ کر جنت اور آخرت کا مذاق اڑا رہا تھا ،وہ کہہ رہا تھا کہ ''کیا تم یہ نہیںکہتے ہوکہ تمہارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟تو کیا تم میں سے کوئی بھى جنت کے دیدار کا شوقین نہیںہے ؟لیکن اس کے ان نعروں کے برخلاف لشکر اسلام پر بُرى طرح کى خاموشى طارى تھى اور کوئی بھى مقابلہ کى جر ائت نہیںرکھتا تھا سوائے على بن ابى طالب علیہ السلام کے جو مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابى سے ہم کنار کردیا _اس کى تفصیل نکات کى بحث میں آئےگی_
جى ہاں جس طرح فولاد کو گرم بھٹى میں ڈالتے ہیں تا کہ وہ نکھر جائے اسى طرح اوائل کے مسلمان بھى جنگ احزاب جیسے معرکوں کى بھٹى میں سے گزریں تا کہ کندن بن کر نکلیںاو رحوادثات کے مقابل میں جرا ت اور پا مردى کا مظاہرہ کر سکیں _


(1)سورہ احزاب آیت 9
(2) سورہ احزاب آیت 9

(3)سورہ احزاب ایت10

(4)سورہ احزاب آیت 11

 


منافقین او رضعیف الایمان جنگ احزاب میںحذیفہ کا واقعہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma