قیصر روم کے نام خط

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
جنگ ذات السلاسل پیغمبر (ص) کے خطوط دنیا کے بادشاہوںکے نام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم
من:محمد بن عبداللّہ
الی: ہرقل عظیم الرّوم
سلام على من اتبع الھدى
اما بعد:فانى ادعوک بدعایةالاسلام_
اسلم تسلم،یو تک اللّہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،___یا اھل الکتب تعالواالى کلمة سواء بیننا و بینکم'' ان لا نعبد الا اللّہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون''_
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_
منجانب: محمدبن عبد اللہ _
بطرف: ہرقل بادشاہ روم_
''اس پر سلام ہے جو ہدایت کى پیروى کرے_میں تجھے اسلام کى دعوت دیتا ہوں_ اسلام لے آئو تاکہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ایک خود تمہارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کى وجہ سے جو تمہارى پیروى کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى کى تو اریسوں کا گناہ بھى تیرى گردن پر ہوگا_اے اہل کتاب ہم تمہیں ایک مشترک بنیادکى طرف دعوت دیتے ہیں او روہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسى کى پرستش نہ کریں اور کسى کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانى نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں''_
قیصر کے پاس نبى اکرم (ص) کا پیغام پہنچانے کے لئے ''دحیہ کلبی'' مامور ہوا سفیرپیغمبر(ص) عازم روم ہوا_
قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا کہ قیصربیت المقدس کى زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ہے، لہذا اس نے بصرى کے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاہراً پیغمبر اکرم (ص) نے بھى اجازت دے رکھى تھى کہ دحیہ وہ خط حاکم بصرى کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدى بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کى طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کى قیصر سے ملاقات ہوئی لیکن ملاقات سے قبل شاہى دربار کے کارکنوں نے کہا:
''تمہیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہیں کرے گا ''
دحیہ ایک سمجھدار آدمى تھا کہنے لگا :
''میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا ہوں _ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کى طرف سے آیا ہوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستى کو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسى کى عبادت نہیں ہونى چاہیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں''_
پیغمبر (ص) کے قاصد کى قوى منطق سے وہ بہت حیران ہوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کہا:
''تمہیں چاہئے کہ خط بادشاہ کى مخصوص میز پر رکھ کر چلے جائو، اس میز پر رکھے ہوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا''_
دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو''
بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا_
''حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نہیں دیکھا ''
اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے خط لکھنے والا وہى نبى ہو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ہے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کى زندگى کى خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کى جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقى حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانہیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :
کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکى رشتہ دار ہے ؟
ابو سفیان نے کہا :
میںاور محمد ایک ہى خاندان سے ہیں او رہم چوتھى پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ہیں_
پھرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے دونوں میں یوں گفتگو ہوئی''
قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران ہوا ہے؟

ابوسفیان: نہیں _
قیصر: کیا نبوت کے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟
ابوسفیان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_
قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ہے اور کونسا موافق؟
ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ہیں، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ہیں_
قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھى ہے؟
ابوسفیان: نہیں_
قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟
ابوسفیان:ہاں _
اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کہا:
''اگر یہ باتیں سچى ہیں تو پھر یقینا وہ پیغمبر موعود ہیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے ہوگا، میں تیار ہوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پائوں دھوو ں ،میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی''_
پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم (ص) کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنى عقیدت او رتعلق کا اظہار کیا_
یہ بات جاذب نظر ہے کہ جس وقت پیغمبرا کرم (ص) کا قاصد آنحضرت(ص) کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظہار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کى دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پہلے ان کى آزمائشے کى جائے، جب اس کى فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کہا کہ میں تو تمہیں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_
 

جنگ ذات السلاسل پیغمبر (ص) کے خطوط دنیا کے بادشاہوںکے نام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma