الف: زمین پر سجدہ کے متعلق آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کا کلام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
اس حدیث کو شیعہ اور سنی راویوں نے نقل کیا ہے جس میں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)فرماتے ہیں: جعلت لی الارض مسجدا و طھورا زمین میرے لئے سجدہ اور پاک( تیمم) کرنے کی جگہ قراردی گئی ہے ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ پوری زمین خد اکی عبادت کے لئے ہے لہذا خدا کی عبادت کسی خاص مقام سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا خیال ہے کہ خدا کی عبادت صرف کلیسا اور کنیسہ میں ہوسکتی ہے .
لیکن یہ تفسیر حدیث کے واقعی معنی کے موافق نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایاہے : زمین پاک کرنے والی بھی اور مسجد بھی ہے اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو چیز طہور ہوتی ہے اور اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے وہ خاک اور پتھر ہیں لہذا وہ اس حدیث میں سجدگاہ سے مراد صرف خاک اور پتھر ہونا چاہئے ۔
اس لئے کہ جس معنی کو اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے بیان کیا ہے اس کے مطابق آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کو اس طرح بیان کرنا چاہئے : جعلت لی الارض مسجدا و ترابھا طھورا پوری زمین میرے لئے مسجد ہے اور اس کی خاک میرے لئے طہارت اور تیمم کا ذریعہ ہے لیکن آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے اس طرح نہیں فرمایا ۔لہذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہ گاہ ہے اور سجدہ گاہ کو ایسی چیز ہونا چاہئے جس پر سجدہ کیا جاسکے .
پس اگر شیعہ زمین پر سجدہ کرتے ہیں اور فرش وغیرہ پر سجدہ کو صحیح نہیں سمجھتے تو انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اس لئے کہ انھوں نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی حدیث پر عمل کیا ہے ۔
1) صحیح بخارى جلد 1، ص 91و سنن بیہقی، جلد 2_ ص 433 (ا ور بہت سى دوسروى کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے)_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma