روایات اور پیروں کا مسح کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
امامیہ فقہاء کا عقیدہ ہے کہ وضو میں پیروں کا مسح واجب ہے اور اہلبیت علیہم السلام کی روایتیں اسی مطلب کی حکایت کرتی ہیں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مذکورہ حدیث اور اسی طرح دیگر حدیثیں ہمارے مدعا پر بہترین دلیل ہیں ۔
لیکن اہلسنت کی کتابوں میں منقول حدیثیں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اس لئے کہ بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)سر کے مسح کے بعد پیروں کا مسح کیا کرتے تھے اور بعض میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)پیروں کو دھویا کرتے تھے اور بعض روایتوں میں جوتوں پر مسح کرنے کی حکایت ہوئی ہے ۔
وہ حدیثیں جوصرف مسح پر دلالت کرتی ہیں درج ذیل کتابوں میں موجود ہیں :
١۔ صحیح بخاری ۔
٢۔ مسند احمد۔
٣۔ سنن ابن ماجہ۔
٤۔ مستدرک حاکم ۔
٥۔ تفسیر طبری ۔
٦۔ کنزل العمال اور دیگر کتب جو اہلسنت کے نزدیک معتبر ہیں ۔
ان حدیثوں کے راوی کے اسماء درج ذیل ہیں :
١۔ امیر المومنین علی علیہ السلام۔
٢۔ ابن عباس۔
٣۔ انس بن مالک ( خام پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) )۔
٤۔ عثمان بن عفان۔
٥۔ بسر بن سعید ۔
٦۔ رفاعہ۔
٧۔ ابو ظبیان اور دیگر روات جو اہلسنت کے نزدیک معتبر ہیں ۔
ہم یہاں پر صرف پانچ روایتوں کو بیان کریں گے اگر چہ اہل سنت کے مشہور مفسر آلوسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ وضو میں پیروں کے مسح کے متعلق صرف ایک روایت ہے کہ جسے شیعوں نے اپنے مدعا پر دلیل بنایاہے ۔
١۔ عن علی ابن ابی طالب قال : کنت ارای ان باطن القدمین احق بالمسح من ظاھرھما حتی رایت رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) یمسح ظاھرھما حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : میں یہ سوچتا تھا کہ مسح کرنے کے لئے پیروں کا تلا اس کے اوپری حصہ ( ظہر قدم) سے زیادہ مستحق ہے لیکن میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کو دیکھا کہ وہ دونوں پیروں کے اوپری حصہ کا مسح کررہے ہیں ۔
مسح کے متعلق درج ذیل روایت میں حضرت علی علیہ السلام آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی سنت کو کھلے الفاظ میں بیان کررہے ہیں ۔
٢۔ عن ابی مطر قال: بینما نحن جلوس مع علی فی المسجد جاء رجل الی علی وقال : ارنی وضوء رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)دعا قنبرفقال: اتیتنی بکوز من ماء فغسل یدہ ووجھہ ثلاثا فادخل بعض اصابعہ فی فیہ واستنشق ثلاثا و غسل ذراعیہ ثلاثا و مسح راسہ واحدة ... ورجلیہ الی الکعبین؛
ابن مطر کا بیان ہے : ہم لوگ مسجد میں حضرت علی کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص وارد ہوا اور حضرت سے درخواست کی کہ مجھے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا وضوکر کے دکھائیں ، آپ نے جناب قنبر کو آواز دی اور فرمایا کہ میرے لئے ایک لوٹا پانی مہیا کرو ،پس آپ نے تین مرتبہ چہرے اورہاتھوں کو دھویا اور انگلیوں کو منھ میں ڈالا (مسواک کیا ) ، پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور (چہرے اور) ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اور ایک مرتبہ سر اور پیروں کا اس کے ابھار تک مسح کیا ۔
اگرچہ مذکورہ دو نوں روایتیں حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں لیکن یہ دونوں روایتیں محتوا کے اعتبار سے متفاوت ہیں اس کے باوجود ان دونوں میں نقطہ اشتراک پیروں کا مسح ہے جسے دونوں روایتوں میں بیان کیا گیاہے .
٣۔ عن بسر بن سعید قال: اتی عثمان المقاعد فدعا بوضوء فتمضمض واستنشق ثم غسل وجھہ ثلاثا ویدیہ ثلاثا ثلاثا ثم مسح براسہ ورجلیہ ثلاثا ثلاثا ثم قال : رایت رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)ہکذا توضا یا ھولاء اکذلک ؟قالوا: نعم لنفر من اصحاب رسول اللہ عندہ
بسر بن سعید بیان کرتے ہیں : عثمان وضو کرنے کی جگہ حاضر ہوئے ، وضو کا پانی مانگا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور پھر تین مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کو دھویا ،تین مرتبہ سر اور پیروں کا مسح کیا اس کے بعد کہا: میں نے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کو دیکھا کہ اسی طرح وضو فرمایا کرتے تھے ( اس کے بعد حاضرین جو آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کے اصحاب میں سے تھے،انہوں نے تائید مانگتے ہوئے کہا ) کیا ایسا نہیں ہے ؟ سب نے جواب دیا کہ ہا ں ! ایسا ہی ہے ۔
یہ حدیث بہترین شاہد ہے کہ نہ صرف یہ کہ عثمان بلکہ دیگر اصحاب نے بھی وضو میں پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) کو پیروں کا مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے (شایدان کے نزدیک تین مرتبہ سر اور پیر کا مسح کرنا مستحب رہا ہو یا راوی کی طرف سے اشتباہ ہواہے ) ۔
٤۔ عن رفاعة بن رافع انہ سع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)یقول : انہ لا تتم صلوة لاحد حتی یسبغ الوضوء کما امرہ اللہ عزوجل یغسل وجھہ و یدیہ الی المرفقین و یمسح براسہ و رجلیہ الی الکعبین رفاعہ کا بیان ہے : میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی کی بھی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوسکتی جب تک اس طرح وضو بجا لائے جس طرح خدا نے بجا لانے کا حکم دیا ہے ، چہرے کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے ، سر اور پیروں کا اس کے ابھار تک مسح کرے .
٥۔ عن ابی مالک الاشعری انہ قال لقومہ: اجتمعوا اصلی بکم صلوة رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)فلما اجتمعوا قال : ھل فیکم احد من غیرکم ؟ قالوا: لا ، الا ابن اخت لنا ، قال: ابن اخت القوم منھم ، فدعا بجفنة فیھا ماء فتوضا و مضمض و استنشق و غسل وجھہ ثلاثاو ذراعیہ ثلاثا ثلاثا و مسح براسہ وظھر قدمیہ ثم صلی بھم
ابو مالک اشعری سے نقل ہوا ہے کہ جنہوں نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا: اکٹھا ہوجاؤ تاکہ میں اس طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں جس طرح رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)پڑھا کرتے تھے ، جب سب لوگ جمع ہوگئے تو کہا: کیا تمہارے درمیان تمہارے علاوہ کوئی غیر بھی ہے ؟ سب نے کہا: نہیں مگر ایک ہمارا خواہر زادہ ہے ،کہا: خواہر زادہ بھی قبیلہ کا فرد شمار کیا جاتا ہے ۔
( یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیاسی حالات کی وجہ سے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) کے وضو یا نماز کی تعلیم دینامشکل ساز تھی )اس کے بعد ایک لوٹے میں پانی لے کر وضو کیا ، کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنی صورت کو تین مرتبہ دھویا اسی طرح ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا ، سر اور پیروں کی پشت کا مسح کیا اور پھر نماز ادا کی ۔
جن روایتوں کو ہم نے ذکر کیا ہے وہ ان بے شمار روایتوں کا ایک مختصر حصہ ہے جو اہلسنت کی مشہور کتابوں میں مشہور راویوں سے نقل ہوئی ہیں ۔
لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیروں کے مسح کے متعلق کوئی روایت نہیں ہے یا تنہا ایک روایت ہے وہ جاہل اور متعصب لوگ ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حقیقتوں کے انکار کے ذریعہ انہیںچھپایا جاسکتا ہے ۔
ان لوگوں کا شمار ان میں سے ہوتا ہے جو پیروں کے مسح کے وجوب پر سورہ مائدہ کی آیت کی دلالت کے منکر ہیں بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک بھی کہا ہے کہ یہ آیت وضو میں پیروں کو دھونے پر صراحت کے ساتھ دلالت کررہی ہے اگرچہ ہم نے اس نظریہ کو بیان کردیا ہے.
1) روح المعانى ، جلد 6، 87_
2) مسند احمد جلد 1 ص 124_
3) کنز العمال، جلد 9، ص 448_
4) مسند احمد، جلد 1 ، ص 67_
5) سنن ابن ماجہ ، جلد 1 ، ص 156_
6) مسند احمد، جلد 5 ، ص 342_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma