خلاصہ:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_

١۔آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)سورہ حمد اور اسی طرح دیگر سوروں کے آغاز میں بسم اللہ کی تلاوت کیا کرتے تھے ( اس مدعا کی دلیل وہ بے شمار روایتیں ہیں جو اصحاب سے نقل ہوئی ہیں) بلکہ بعض روایتوں کے مطابق آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)بسم اللہ کو بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے ۔
٢۔ وہ روایتیں جو مذکورہ روایت کے برخلاف بسم اللہ کو قرآن کا جزء قرار نہیں دیتیں یا آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) اسے آہستہ پڑھا کرتے تھے تو یہ روایتیں اپنے سیاق کی وجہ سے جعلی ہیں اور بنی امیہ کے پنہاں ہاتھ اس میں دخالت رکھتے ہیں، اس لئے کہ ان لوگوں کے درمیان یہ مشہور تھا کہ علی بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے ہیں اوریہ بھی واضح ہے کہ وہ تمام چیزیں جو حضرت کا شعار شمار ہوتی تھیں اگرچہ ان سب چیزوں کو آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)سے سیکھا تھا لیکن ان لوگوں نے ہر طرح سے اس کی مخالفت کی ۔
جیسا کہ گذشتہ روایت میں معاویہ کے اقدام کے خلاف صحابہ کا شدید رد عمل اس مدعا کی بہترین دلیل ہے اور اسی طرح دوسرے قرائن موجود ہیں جو اسی مطلب کو بیان کرتے ہیں ۔
٣۔ائمہ علیہم السلام حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے ہر ایک نے بلند آواز سے بسم اللہ کی قرائت کی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اجتمع آل محمد علیہم السلام علی الجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم آل محمد علیہم السلام کا یہ اتفاق نظر ہے کہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو بلند آواز سے پڑھیں ۔
٤۔ہم حسن ختام کے لئے فخر راز ی کی دوباتوں کا تذکرہ کرتے ہیں جسے انھوں نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے :
وہ کہتے ہیں: ان علیا کان یبالغ فی الجھر بالتسمیة فلما وصلت الدولة الی بنی امیة بالغوا فی المنع من الجھر سیعا فی ابطال آثار علی
حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے پس جب بنی امیہ کا دور حکومت آیاتو انھوں نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہ پڑھنے کے لئے شدت سے منع کیا تاکہ اس طرح حضرت علی علیہ السلام کے تمام آثار کو مٹا ڈالیں ۔
اہلسنت کے مشہور بزرگوار فخر رازی کی اس گواہی سے یہ مطلب بخوبی واضح ہے کہ بسم اللہ کا بلند آواز سے پڑھانہ جانا یا اس کا حذ ف ہوجانا ایک مخصوص سیاست کے تحت تھا ۔
اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر محدث بیہقی سے نقل کرتے ہیں : عمر بن خطاب ، جناب ابن عباس ، عبد اللہ ابن عمر اور عبد اللہ بن زبیر بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے ، اس کے بعد لکھتے ہیں: اما ان علی بن ابی طالب کان یجھر بالتسمیة فقد ثبت بالتواتر ومن اقتدی فی دینہ بعلی بن ابی طالب فقد اھتدی والدلیل علیہ قول رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)اللھم ادر الحق مع علی حیث دار .
لیکن علی ابن ابی طالب بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے اور یہ مطلب تواتر کے ساتھ ثابت ہے پس جو بھی اپنے دین میں حضرت علی علیہ السلام کی اقتدا کرے گا وہ ہدایت پا جائے گا اس لئے کہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایاہے : خدایا! حق کو اسی طرف پھیر دے جس طرف علی مڑیں ۔
1) مستدرک الوسائل ، جلد 4 ص 189_
2) تفسیر کبیر فخررازى ، جلد 1، ص 206_
3) ایضاً ص 204 و 205_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma