حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
فلسفه انتظار
انتظار کے اثراتانتظار اور فطرت

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام ابو محمد نے ادارہ رابطہ عالم اسلامی سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔
اس ادارے کے جنرل سکریٹری جناب محمد صالح اتغزاز نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ھے کہ وھابی فرقے کے بانی ابن تیمیہ نے بھی ان روایات کو قبول کیا ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ھوئی ھیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ھے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ھے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں: ۔۔۔۔
عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ھے۔ آپ کے والد کا نام عبد اللہ ھے اور آپ مکّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ھوگی۔ ھر طرف ضلالت و گمراھی کی آندھیاں چل رھی ھوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ھوگا۔
رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ھوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ھیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ھے۔
حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ھے ان میں سے بعض کے نام یہ ھیں:۔
(1) علی ابن ابی طالب (ع)، (2) عثمان بن عفان، (3) طلحہ بن عبیدہ، (4) عبد الرحمٰن بن عوف، (5) عبد اللہ بن عباس، (6) عمار یاسر، (7) عبد اللہ بن مسعود، (8) ابوسعید خدری، (9) ثوبان، (10) قرہ ابن اساس مزنی، (11) عبد اللہ ابن حارث، (12) ابوھریرہ، (13) حذیفہ بن یمان، (14) جابر ابن عبد اللہ (15) ابو امامہ، (16) جابر ابن ماجد، (17) عبد اللہ بن عمر (18) انس بن مالک، (19) عمران بن حصین، (20) ام سلمہ۔
پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ھیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ھے۔ یہ ایسا مسئلہ ھے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ھے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ھے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ھیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ھے جیسے:۔
سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی اخبار المھدی۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔
علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ھیں جن میں سے بعض کے نام یہ ھیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم
القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی
التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی
المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی
الوھم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی
مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماھنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ھے، ھر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ھے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ھوئی ھیں وہ متواتر ھیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ھونے کا دعویٰ کیا ھے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ھیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ھے:۔
1۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں
2۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں
3۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں
4۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں
5۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں
6۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں
7۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں
8۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں
9۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں
10۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوھم المکنون میں
ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ھے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ھے) کے ھم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ھے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوھم المکنون تحریر کی ھے۔ یہ کتاب تقریباً 30 برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ھوچکی ھے۔
حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ھونے کی صراحت فرمائی ھے۔
ان تمام باتوں کی بنا پر ھر مسلمان پر واجب ھے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اھل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ھے اور ان کے عقائد میں سے ایک ھے۔
ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ھیں جو روایات سے بے خبر ھیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ھیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)
سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی
محمد منتصر کنانی
اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ھوجاتی ھے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ھے کسی بھی دوسرے مذھب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ھے۔
ایک بات ضرور قابل ذکر ھے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ھے۔ جب کہ اھل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ھے
اس شبہ کی وجہ وہ روایت ھے جس کے الفاظ یہ ھیں اسم ابیہ اسم ابی (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ھے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ھے، صرف نون کا نقطہ حذف ھوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ھوگیا ھے۔ اسی بات کو گنجی شافعی نے اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں ذکر کیا ھے، اس کے علاوہ
1۔ یہ جملہ اھل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ھے
2۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ھیں: اسمہ اسمی اسم ابیہ اسم ابنی۔ (اس کا نام میرا نام ھے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ھے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ھیں۔
3۔ اھل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ھے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ھے۔
4۔ اھلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ھیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ھے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ھے۔

انتظار کے اثراتانتظار اور فطرت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma