زمانۂ غیبت میں وجودِ امام کا فائدہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
فلسفه انتظار
1) اُمّید تین: انقلابی گروہ

حضرت مھدی عجل اللہ فرجہ کی غیبت کا جب تذکرہ ھوتا ھے تو یہ سوال ذھنوں میں کروٹیں لینے لگتا ھے کہ امام یا رھبر کا وجود اسی صورت میں مفید اور قابل استفادہ ھے جب وہ نگاھوں کے سامنے ھو اور اس سے رابطہ برقرار ھوسکتا ھے لیکن اگر امام نظروں سے غائب ھو، اس تک پہونچنا ممکن نہ ھو، ایسی صورت میں وجود امام سے کیا حاصل …؟
بعض کے لئے ھوسکتا ھے کہ یہ سوال نیا معلوم ھو اور کسی دانشمند ذھن کی اُپج معلوم ھو مگر خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ سوال بہت پرانا ھے۔ یہ سوال حضرت مھدی (عج) کی ولادت سے پہلے کیا جاچکا ھے کیونکہ جب حضرت مھدی (عج) اور ان کی غیبت کے بارے میں رسول خدا (ص) یا ائمہ علیہم السلام بیان فرماتے تھے اس وقت بعض لوگ یہی سوال کرتے تھے۔
احادیث میں اس سوال کا جواب متعدد انداز سے دیا گیا ھے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث قابلِ غور ھے۔ آنحضرت (ص) نے زمانہ غیبت میں حضرت مھدی (عج) کے وجود کا فائدہ بیان کرتے ھوئے ارشاد فرمایا:
ای والذی بعثنی بالنبوة انھم ینتفعون بنور ولایتہ فی غیبتہ کانتفاع الناس بالشمس وان جللھا السحاب
قسم ھے اس ذات اقدس کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا، لوگ ان کے نورِ ولایت سے اس طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ سورج سے اس وقت استفادہ کرتے ھیں جب وہ بادلوں کی اوٹ میں ھوتا ھے۔
اس حدیث کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ھے کہ ھم پہلے یہ سمجھیں کہ نظام کائنات میں آفتاب کیا کردار ادا کرتا ھے۔
آفتاب دو طرح اپنا نور پھیلاتا ھے ایک بلا واسطہ اور دوسرے بالواسطہ۔ دوسرے لفظوں میں ایک واضح اور دوسرے پوشیدہ۔
جس وقت آفتاب بلا واسطہ اور واضح نور پھیلاتا ھے، اس وقت اس کی شعاعیں دکھائی دیتی ھیں۔ یہ درست ھے کہ زمین کے گرد ھوا کی دبیز چادر شعاعوں کی حرارت میں کمی کر دیتی ھے اور ان کے زھریلے اثرات کو ختم کرتی ھے۔ لیکن ھوا کی یہ دبیز چادر آفتاب کو بلا واسطہ نور پھیلانے سے نہیں روکتی۔
لیکن بالواسطہ اور بطور مخفی نور افشانی کی صورت میں بادل آفتاب کے چہرے کو چھپا لیتا ھے اس صورت میں روشنی تو ضرور نظر آتی ھے مگر آفتاب دکھائی نہیں دیتا۔
اس کے علاوہ آفتاب کا نور اور اس کی شعاعیں نظام کائنات میں اھم کردار ادا کرتی ھیں یہ نور اور شعاعیں،
زندہ چیزوں کا رشد و نمو،
غذا اور بقائے نسل،
حس و حرکت،
خشک زمینوں کی آبیاری،
دریا کی موجوں کا جوش و خروش،
نسیم سحر کی اٹکھیلیاں،
پژمردگی کو حیات نو عطا کرنے والی بارش،
آبشاروں کے نغمے،
مرغانِ چمن کی خوش الحانیاں،
پھولوں کی نزاکت اور طراوٹ،
انسان کی رگوں میں خون کی گردش اور دل کی دھڑکن،
ذھنِ بشر میں فکر کی جولانیاں،
طفلِ شیر خوار کی طرح کیوں کی مسکراھٹ۔
یہ ساری کرشمہ سازی آفتاب کے نور اور اس کی شعاعوں کی بدولت ھے۔ اگر لمحہ بھر بھی زمین کا رشتہ آفتاب سے منقطع ھوجائے تو پھر نور پر ظلمتوں کا راج ھوجائے اور نظام کائنات درھم برھم ھوجائے۔
ہاں ایک سوال کیا جاسکتا ھے۔ یہ ساری باتیں صرف اس صورت میں ھیں جب آفتاب بلا واسطہ نور پھیلا رھا ھو۔؟
ھر شخص نفی میں جواب دے گا۔ جب آفتاب کا نور بالواسطہ زمین تک پہونچ رھا ھو اس وقت بھی آثار حیات باقی رھتے ھیں۔ بالواسطہ نور افشانی کی صورت میں صرف وھی آثار ختم ھوتے ھیں جن کا تعلق بلا واسطہ نور افشانی سے ھوتا ھے، بالواسطہ نور افشانی میں وہ جراثیم ضرور پھیل جاتے ھیں جن کے حق میں بلا واسطہ نور افشانی زھر ھلاھل ھے۔
اب تک بادلوں کی اوٹ میں آفتاب کے اثرات کا تذکرہ تھا۔ اب ذرا یہ دیکھیں، کہ غیبت کے زمانے میں دینی رھبروں کے فوائد کیا ھیں اور اس کے اثرات کیا ھیں۔
غیبت کے زمانے میں وجود امام کی نامرئی شعاعیں مختلف اثرات رکھتی ھیں۔

 

1) اُمّید تین: انقلابی گروہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma