5) مقصد تخلیق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
فلسفه انتظار
فتح کا انداز 4) نامرئی تاثیر

کوئی بھی عقلمند بے مقصد قدم نہیں اٹھاتا ھے۔ ھر وہ سفر جو علم و عقل کی روشنی میں طے کیا جائے اس کا ایک مقصد ضرور ھوگا۔ فرق صرف یہ ھے کہ جب انسان کوئی با مقصد کام انجام دیتا ھے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات پورا کرنا ھوتا ھے لیکن جب خدا کوئی کام انجام دیتا ھے تو اس میں بندوں کا فائدہ پوشیدہ ھوتا ھے کیونکر خدا ھر چیز سے بے نیاز ھے۔
اب ذرا اس مثال پر توجہ فرمائیے:
ایک زرخیز زمین میں ایک باغ لگایا جاتا ھے جس میں طرح طرح کے پھل دار درخت اور رنگ برنگ کے خوشنما اور خوشبودار پھول ھیں، ان درختوں کے درمیان کچھ بیکار قسم کی گھاس بھی اُگی ھوئی ھے۔ لیکن اس باغ کی آبیاری کی جائے گی تو گھاس کو بھی فائدہ پہونچے گا۔
ہاں دو مقصد سامنے آتے ھیں:
اصلی مقصد: پھل دار درختوں کی اور پھولوں کی آبیاری،
ثانوی مقصد: گھاس کی آبیاری،
بغیر کسی شک و تردید کے یہ بات کہی جاسکتی ھے کہ آبیاری کا سبب اصلی مقصد ھے ثانوی مقصد نہیں۔
اگر اس باغ میں صرف ایک پھل دار درخت باقی رہ جائے جس سے تمام مقاصد پورے ھورھے ھوں، تب بھی آبیاری ھوتی رھے گی اور اس بنا پر کوئی عقل مند آبیاری سے دستبردار نہیں ھوگا کہ ایک درخت کی خاطر کتنی بیکار چیزیں سیراب ھورھی ھیں۔ البتہ اگر باغ میں ایک درخت بھی نہ رہ جائے تو اس صورت میں آبیاری ایک بے مقصد کام ھوگا۔
یہ وسیع و عریض کائنات بھی ایک سر سبز و شاداب باغ کی مانند ھے۔ انسان اس باغ کے درخت ھیں۔ وہ لوگ جو راہ راست پر گامزن ھیں اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر رھے ھیں، وہ اس باغ کے پھل دار درخت ھیں اور خوشبو دار پھول ھیں۔ لیکن وہ افراد جو راہ راست سے منحرف ھوگئے اور جنھوں نے گناہ کی راہ اختیار کی، ارتقاء کے بجائے پستیوں میں گرتے چلے گئے، یہ لوگ اس باغ کی گھاس وغیرہ کہے جاسکتے ھیں۔
یہ چمکتا ھوا آفتاب، یہ نسیم جانفزا، یہ آسمان و زمین کی پے پناہ برکتیں، گناھگاروں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں افراد کے لیے پیدا نہیں کی گئی ھیں، بلکہ یہ ساری کائنات اور اس کی تمام نعمتیں خدا کے نیکو کار بندوں کے لئے پیدا کی گئی ھیں اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ کائنات ظالموں کے ھاتھ سے نکل کر صالحین کے اختیار میں ھوگی۔
ان الارض یرثھا عبادی الصالحون
قیناً میرے صالح بندے اس زمین کے وارث ھوں گے۔
یہ صحیح ھے کہ دنیا میں ھر طرف گناھگاروں اور خدا ناشناس افراد کی اکثریت ھے لیکن کائنات کا حسنِ نظام بتا رھا ھے کہ کوئی ایسی فرد ضرور موجود ھے جس کی خاطر یہ دنیا سجی ھوئی ھے۔ حدیث میں اس بات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ھے:
بیمنہ رزق الوریٰ و بوجودہ ثبتت الارض والسماء
ان کی (حجت خدا کی) برکت سے لوگوں کو رزق ملتا ھے اور ان کے وجود کی بنا پر زمین و آسمان قائم ھیں۔
اسی بات کو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں پیغمبر اسلام (ص) کو مخاطب کرکے بیان فرمایا ھے:
لولاک لما خلقت الافلاک
اگر آپ نہ ھوتے تو میں آسمانوں کو نہ پیدا کرتا۔
زمانۂ غیبت میں وجود امام علیہ السلام کا ایک فائدہ اس کائنات ھستی کی بقاء بھی ھے۔
وہ لوگ جو حقائق سے بہت دور ھیں وہ زمانۂ غیبت میں وجود امام (ع) کے لئے صرف شخصی فائدے کے قائل ھیں اور اس عقیدے کے سلسلے میں شیعوں پر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ھیں جبکہ وہ اس بات سے بالکل غافل ھیں کہ خود ان کا وجود امام علیہ السلام کے وجود کی بنا پر ھے۔ یہ کائنات اس لئے قائم ھے کہ امامِ قائم (عج) پردۂ غیبت میں موجود ھیں اگر امام نہ ھوتے تو نہ یہ دنیا ھوتی اور نہ اس دنیا کے بسنے والے

فتح کا انداز 4) نامرئی تاثیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma