دوسرا سبق: امام کے وجود کا فلسفہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
تیسرا سبق : امام کے خاص شرائط وصفات پہلاسبق: امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

بعثت انبیاء کی ضرورت کے موضوع پر جو بحث ہم نے کی اس سے کافی حد تک ہمارے لئے پیغمبر کے بعد امام کی ضرورت کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے ،کیونکہ نبیاور امام(ع) اکثر موضوعات میں مشترک ہیں ،لیکن یہاں پر ضروری ہے کہ کچھ دوسرے موضوعات پر بھی روشنی ڈال جائے :
الہٰی رہبروں کے وجود کے ساتھ معنوی تکامل
سب سے پہلے ہمیں انسان کی خلقت کے مقصد پر بحث کرنی چاہئے کیونکہ یہ گلدستہ کائنات کا سب سے اچھا پھول ہے۔
انسان خدا کی طرف ،تمام جہات میں کمال مطلق اور معنوی تکامل کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایک طولانی اور نشیب وفراز سے پر راستہ طے کرتا ہے۔
بیشک انسان اس راستہ کو ایک معصوم پیشوا کی رہبری کے بغیر طے نہیں کر سکتا ہے اور اس کے لئے ایک الہٰی معلم کی رہبری کے بغیر یہ منزل طے کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ”اس راہ میں تاریکیاں اور گمراہی کے خطرات موجود ہیں“۔
یہ صحیح ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو عقل وشعور کی قوت سے نوازا ہے اور اسے محکم اور قوی ضمیر عطا کیا ہے ،اس کے لئے آسمانی کتابیں بھیجی ہیں۔لیکن ممکن ہے یہ انسان ان تمام تکوینی اور تشریعی وسائل کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کی شناخت کر نے میں غلطی کا شکار ہو جائے ۔بیشک ایک معصوم پیشوا انحراف اور گمراہی کے خطرات کو دور کر دیتا ہے ۔لہذا ”امام کا وجود انسان کی تخلیق کے مقصد کو مکمل کر نے والا ہے۔“
یہ وہی چیز ہے جسے عقائد کی کتابوں میں”قاعدہ لطف“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ”قاعدہ لطف“سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیتا ہے جو اس کو تخلیق کے مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں ۔انبیاء کی بعثت اور امام معصوم کا وجود بھی ان ہی میں سے ہے ورنہ انسان کے مقصد خلقت کی مخالفت لازم آئے گی۔(غور فر مائیں)۔
آسمانی ادیان کی حفاظت
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جب الہٰی ادیان انبیاء کے قلوب پر نازل ہو تے ہیں تو وہ بارش کے پانی کی بوندوں کے مانند صاف وشفاف حیات بخش اور روح پرور ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ آلودہ ماحول اور کمزور یا ناپاک ذہنوں میں وارد ہوتے ہیں تو رفتہ رفتہ آلودہ ہو جاتے ہیں اور خرافات وتو ہمات ان میں اس قدر مخلوط ہو جاتے ہیں کہ ان کی بنیادی پاکیزگی اور لطافت ختم ہو جاتی ہے ۔اس حالت میں نہ ان میں جذّابیت باقی رہتی ہے اور نہ تربیت کا خاص اثر ،نہ ہی یہ ادیان پیاسوں کو سیراب کر سکتے ہیں اور نہ ان میں فضائل وکمالات کی کلیاں اور پھول کھلا سکتے ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ دین ومذہب کی اصلی شکل کی حفاظت اور دینی اصول وضوابط کے خالص رہنے کے لئے ایک معصوم پیشوا موجود ہو تا کہ وہ انحرا فات ،غلط افکار،غلط اور اجنبی نظریات،توہمات وخرافات سے دین کو بچاسکے ۔اگر دین ومذہب ایسے رہبر سے محروم ہوگا تو وہ دین مختصر مدت کے اندر ہی اپنی حقیقی شکل اور پاکیزگی کو کھودے گا۔
اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:
”اللّٰھم بلی ،لا تخلوا لارض من قائم للّٰہ بحجة،اماظاھراًمشھورا،اوخائفاًمغمورا لئلا تبطل حجج اللّٰہ وبینا تہ۔“ (نہج البلاغہ،کلمات قصارنمبر۱۴۷)
”جی ہاں ،زمین ہر گز قیام کر نے والے حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی ہے،خواہ(وہ حجت خدا)ظاہر وآشکار ہو یامخفی وپوشیدہ،تاکہ خدا کی واضح دلیلیں اور نشانیاں باطل نہ ہونے پائیں۔“
حقیقت میں قلب امام اس محفوظ صندوق کے مانند ہے جس میں ہمیشہ گراں قیمت اسنادرکھے جاتے ہیں تاکہ چوروں کی لوٹ مار اور دوسرے حوادث سے محفوظ رہیں یہ بھی وجود امام کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے۔
امت کی سیاسی واجتماعی رہبری
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ یاگروہ ایک ایسے اجتماعی نظام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا ہے جس کی سر پرستی ایک توانا رہبر کرتا ہو۔اسی لئے زمانہ قدیم سے آج تک تمام اقوام و ملل نے اپنے لئے ایک رہبر کو منتخب کیا ہے۔ کبھی یہ رہبر صالح ہو تا تھا لیکن بہت سے مواقع پر ناصالح ہو تا تھا ۔اکثر مواقع پر امتوں کی ایک رہبر کی ضرورت اور احتیاج سے ناجائز فائدہ اٹھا تے ہو ئے ظالم بادشاہ اور سلاطین زورو زبر دستی سے لوگوں پر مسلط ہو کر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھےیہ ایک طرف۔
دوسری طرف انسان کو اپنے معنوی کمال کے مقصد تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کو اکیلے ہی نہیں بلکہ جماعت اور معاشرہ کے ہمراہ طے کر ناچاہئے ۔کیونکہ فکری ،جسمانی، مادی اور معنوی لحاظ سے انفرادی طاقت کمزور ہو تی ہے اور اس کے مقابلہ میں اجتماعی طاقت بہت قوی ہوتی ہے ۔
لیکن ایک معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ایک ایسا صحیح نظام حکم فر ماہو،جو انسانی صلاحیتوں میں نکھار لائے ،انحرا فات اور گمراہیوں سے مقابلہ کرے،معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کا تحفظ کرے،بلند مقاصد تک پہنچنے کے لئے پرو گراموں کو منصوبہ بند طریقے پر منظم کرے اور ایک آزاد ماحول میں پورے معاشرے کو حرکت میں لانے کے عوامل یکجا کرے۔
چونکہ ایک خطا کارانسان میں ایسی عظیم ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے ،جیسا کہ ہم ہمیشہ صحیح راستہ سے سیاسی حکمرانوں کے انحراف اور گمراہی کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں ،اس لئے ضروری ہے کہ خداوند متعال کی طرف سے ایک معصوم رہبران امور کی نگرانی ونظارت کرے اور لوگوں کی توانائیوں اور دانشوروں کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے انحرافات کی بھی روک تھام کرے۔
یہ امام کے وجود کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اور”قاعدہ لطف“کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ہم مکرر عرض کر رہے ہیں کہ استثنائی زمانہ میں بھی ،جب امام معصوم کچھ وجوہات کی وجہ سے غائب ہوں تو لوگوں کی ذمہ داریاں واضح ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ ہم”حکومت اسلامی“کی بحث میں اس پر مفصل روشنی ڈالیں گے۔
اتمام حجّت کی ضرورت
امام کے وجود کی نورانی کرنوں سے صرف آمادہ دلوں کی رہنمائی ہی مقصد نہیں ہے تاکہ وہ کمال مطلق کے راستے پر گامزن رہیں بلکہ امام کا وجودان لوگوں کے لئے بھی حجت کے طور پر ضروری ہے،جو جان بوجھ کر گمراہی کی طرف جاتے ہیں ،تاکہ ان کے ساتھ وعدہ کی گئی سزابے دلیل نہ ہو اور کوئی شخص ایسا اعتراض نہ کر سکے ،کہ اگر کسی الہٰی رہبر نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں حق کی طرف دعوت دی ہو تی تو ہم ہر گزگمراہ نہ ہو تے۔
مختصر یہ کہ امام کے وجود کا مقصد یہ ہے کہ عذر اور بہانہ کے تمام راستے بند کر دیئے جا ئیں ،حق کی دلیلیںکافی حد تک بیان کی جائیں ،نا آگاہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے اور آگاہ افراد کو اطمینان دلاکر ان کے ارادہ کو تقویت بخشی جائے۔
امام،فیض الہٰی کا عظیم وسیلہ ہے
بہت سے علماء ،اسلامی احادیث کی روشنی میں،انسانی معاشرہ یا تمام کائنات میں پیغمبر اور امام کے وجود کو انسان کے بدن میں ”قلب“کے وجود سے تشبیہ دیتے ہیں۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکن کے نتیجہ میں خون تمام رگوں میں پہنچ جاتا ہے اور اس طرح بدن کی تمام خلیوں کو غذا پہنچتی ہے۔
چونکہ امام معصوم ایک انسان کامل اور کاروان انسانیت کے راہنما کی حیثیت سے فیض الہٰی کے نازل ہو نے کا وسیلہ ہے اور ہر شخص پیغمبر وامام سے اپنے ارتباط کے مطابق اس فیض الہٰی سے بہرہ مند ہو تا ہے ۔لہذا یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح انسان کے لئے ”دل“کا وجود ضروری ہے اسی طرح عالم انسانیت کے لئے فیض الہٰی کے اس وسیلہ (امام(ع)) کا ہونابھی ضروری ہے۔(غور فر مائیے)
مغالطہ نہ ہو ،پیغمبر اور امام کے پاس اپنی کوئی ایسی چیز نہیں ہو تی ہے جسے وہ دوسروں کو عطا کریں ،بلکہ ان کے پاس جو کچھ ہو تا ہے وہ خدا کا دیا ہوا ہو تا ہے ،لیکن جس طرح ”دل“بدن کے لئے فیض الہٰی کا وسیلہ ہو تا ہے ،اسی طرح پیغمبر اور امام بھی تمام انسانوں کے لئے فیض الہٰی کے سبب اور وسیلہ ہو تے ہیں۔


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔انسان کے معنوی تکامل میں امام کا کیا کردار ہے؟
۲۔دین و مذہب کے محافظ کی حیثیت سے امام کا کیا کردار ہے؟
۳۔حکومت اور نظام کی رہبری کے لحاظ سے امام کا کیا کردار ہے؟
۴۔ اتمام حجت سے کیا مراد ہے ؟اور اس سلسلہ میں امام کا کیا کردار ہے؟
۵۔فیض الہٰی کے وسیلہ سے کیا مراد ہے ؟اس حوالے سے پیغمبر اور امام کے بارے میں کون سی تشبیہ بہترین تشبیہ ہے؟

تیسرا سبق : امام کے خاص شرائط وصفات پہلاسبق: امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma