نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال آٹھواں سبق :روح کی بقاء،قیامت کی ایک علامت

معاد کی بحث میں پیش آنے والے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ”معاد“ صرف روحانی پہلو رکھتی ہے یا انسان کا جسم و بدن بھی دوسری دنیا میں لوٹ آئے گا؟ اور انسان اسی دنیوی روح وجسم کے ساتھ صرف بلندتر درجہ کے ساتھ دوسری دنیا میں زندگی کوجاری رکھے گا؟
پرانے زمانہ کے بعض فلاسفہ صرف روحانی معاد کے قائل تھے اور جسم کو ایک ایسا مرکب جانتے تھے جو صرف اس دنیا سے مربوط ہے اور موت کے بعد انسان اس کا محتاج نہیں ہوگا، اسے چھوڑ کر عالم ارواح میں پرواز کرے گا۔
لیکن اسلام کے عظیم علما اور بہت سے فلاسفہ کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد دونوں صورتوں میں یعنی ”روحانی“ و”جسمانی“ ہوگی۔ صحیح ہے کہ یہ جسم خاک بن جائے گا اور یہ خاک زمین میں پراگندہ ہوکر گم ہوجائے گی، لیکن پروردگار قادر و عالم ان تمام ذرات کو قیامت کے دن دوبارہ اکٹھا کرکے انھیں زندگی بخشے گا اور اس موضوع کو”جسمانی معاد“ کہا جاتا ہے ،کیونکہ روح کے پھر سے لوٹنے کو قطعی سمجھا گیا ہے اور چونکہ بحث صرف جسم کے لوٹنے کی ہے، یہ نام اسی عقیدہ کے لئے رکھا گیاہے۔
بہر حال معاد سے متعلق، قرآن مجید میں مختلف اور کافی تعداد میں موجود آیات بھی ”جسمانی معاد“پر دلالت کرتی ہیں۔
جسمانی معادپر قرآنی شواہد
ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک صحرائی عرب نے ایک بوسیدہ ہڈی کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خد مت میں پیش کر کے سوا ل کیا تھا کہ کون اسے پھر سے زندہ کرسکتا ہے؟اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے جواب دیا تھا کہ وہی خدااسے پھر سے زندہ کر سکتا ہے جس نے اسے پہلے خلق کیا ہے،وہی جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سبزے درخت سے آگ نکالی ہے ۔اس واقعہ سے مربوط آیات سورہ یٓس کی آخر میں آئی ہیں۔
قرآن مجید کا دوسری جگہ پر ارشاد ہے:
”تم لوگ قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے۔“
( سورہ یٓس/۵۱،قمر/۷)
ہم جانتے ہیں کہ قبریں خاک شدہ جسموں کی جگہ ہیں نہ روح کی۔
بنیادی طور پر معاد کے منکروں کا تعجب اس بات پر تھا کہ وہ کہتے تھے :”جب ہم خاک میں تبدیل ہوجائیں گے اور یہ خاک پرا گندہ ہو جائے گی تو ہم کیسے پھر سے زندہ ہو جائیں گے؟“
<وقالوا ء إذاا ضللنا فی الارض ء إنّالفی خلق جدید(سورہ سجدہ/۱۰)
اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہو گئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے؟“
قرآن مجید جواب میں ارشاد فر ماتا ہے:
<اولم یروا کیف یبدی ء اللّٰہ الخلق ثم یعیدہ إنّ ذٰلک علی اللّٰہ یسیر(سورہ عنکبوت/۱۹)
”کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح مخلوقات کو ایجاد کرتا ہے اور پھر دوبارہ واپس لے جاتا ہے،یہ سب اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔“
ایک عرب جاہل کہتاتھا:
<اٴیعدکم اٴنّکم إذا متّم وکنتم تراباً وعظاما اٴنّکم تخرجون) (سورہ مومنون/۳۵)
”کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے؟“
قرآن مجید کی مذکورہ تمام تعبیرات اور اس موضوع سے متعلق دوسری آیات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جگہ پر ”جسمانی معاد“کی بات کرتے تھے اور تنگ نظر مشرکین کا تعجب بھی اسی بات پر تھا۔چنانچہ ہم نے دیکھاکہ قرآن مجید اسی جسمانی معاد کے چند نمونوں کو نباتات وغیرہ کے سلسلہ میں پیش کر کے ان کے لئے تشریح فر ماتا ہے اور ابتدائی خلقت اور خدا کی قدرت کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور قرآن مجید سے تھوڑی سی واقفیت رکھتے ہوئے جسمانی معاد کا منکر ہو۔قرآن مجید کی نظر میں جسمانی معاد کا انکار اصل معاد کے انکار کے برابر ہے۔
عقلی شواہد
اس کے علاوہ عقل بھی کہتی ہے کہ روح اور بدن الگ الگ حقیقتیں نہیں ہیں ،یہ دونوں مستقل ہونے کے باوجود آپس میں پیوند اور رابطہ رکھتے ہیں،دونوں ایک ساتھ نشو ونما پاتے ہیں ،اور یقینا ابدی اور جاودانی زندگی کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اگرچہ دونوں(روح اور بدن)برزخی مدت(دنیا وآخرت کے در میان فاصلہ)کے دوران کچھ مدت تک ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں،لیکن ہمیشہ کے لئے یہ دوری ممکن نہیں ہے ۔جس طرح روح کے بغیر جسم ناقص ہے اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر ناقص ہے ۔روح حکم فرما اور عامل حرکت ہے اور بدن فر مانبردار اور وسیلہ عمل ہے ،کوئی بھی حکم فر ما،فرما نبردار سے اور کوئی بھی ہنر مند وسیلہ عمل سے بے نیاز نہیں ہوتاہے۔
چونکہ آخرت میں روح اس دنیا کی نسبت ایک بلندتر سطح پر قرار پائے گی اس لئے اسی نسبت سے جسم کو بھی کمال حاصل کر نا چاہئے ،اور ضرور ایساہی ہوگا ،یعنی انسان کا جسم قیامت کے دن اس دنیا کی فرسودگی ،عیوب اور نقائص سے خالی ہوگا۔
بہر حال جسم و روح ایک دوسرے کی ہمزاد اور مکمل کر نے والے ہیں اور معاد صرف روحانی یا صرف جسمانی نہیں ہو سکتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں جسم وروح کی خلقت اور ان کے آپسی رابطہ اور پیوند کی حالت کا مطالعہ اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ معاد جسمانی و روحانی دونوں صورتوں میں واقع ہوگی ۔
دوسری طرف انصاف وعدالت کا قانون بھی یہی کہتا ہے :معاد دونوں پہلوؤں سے (جسمانی وروحانی)ہونی چاہئے ۔کیونکہ اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔تو اس نے اس گناہ کو اس روح اور جسم کے ذریعہ انجام دیا ہے ،اور اگر اس نے کو ئی نیک کام انجام دیا ہے تو وہ بھی اس جسم وروح سے انجام دیا ہے اس لئے اس کی جزا اور سزا بھی اسی روح اور بدن کو ملنی چاہئے ۔اگر صرف جسم ہی پلٹے گا یا صرف روح ہی پلٹے گی اور ان میں سے صرف ایک ہی کو جزا یاسزا ملے گی،تو عدل وانصاف کا قانون نافذ نہیں ہوگا ۔
جسمانی معاد سے متعلق چند سوالات
دانشوروں نے اس سلسلہ میں متعدد سوالات پیش کئے ہیں کہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ان میں سے بعض کاذکر جواب کے ساتھ ضروری ہے:
۱۔علوم طبیعیات( natural sciences)کے دانشوروں کی تحقیقات کے مطابق،انسان کا بدن اس کی پوری عمر کے دوران کئی بار تبدیل ہوتا ہے ۔اس کی مثال اس پانی کے حوض جیسی ہے،جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے رفتہ رفتہ باہر نکلتا ہے ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد اس حوض کا پورا پانی تبدیل ہو جاتا ہے ۔
انسان کے بدن میں یہ صورت احتمالاًہر سات سال کے بعد ایک بار پیش آتی ہے ،اس لئے انسان کا بدن اس کی پوری حیات کے دوران کئی بار تبدیل ہو تا ہے!
اب یہ سوال پیداا ہوتا ہے کہ انسان کے جسموں میں سے کون سا جسم قیامت کے دن لوٹے گا؟
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں :ان میں سے انسان کا آخری بدن لوٹے گا،جیسا کہ مذکورہ آیات میں ہم نے پڑھا کہ خداوند متعال انسانوں کو ان ہی پوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ کرے گا ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ انسان کا آخری بدن لوٹے گا،اسی طرح قبروں سے مردوں کے اٹھ کر نکلنے سے بھی آخری بدن کے زندہ ہو نے کے معنی نکلتے ہیں۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کا آخری بدن اپنے اندر وہ تمام آثار اور خصو صیات محفوظ رکھتا ہے جو اس کی پوری عمر میں مختلف بدن رکھتے تھے ۔
دوسرے الفاظ میں:جو بدن تدریجاًنابود ہو تے ہیں۔وہ اپنے آثار وخصوصیات کو آنے والے دوسرے بدن میں منتقل کرتے ہیں،اس لئے آخری بدن گزشتہ تمام بدنوں کا وارث ہو تا ہے اور عدل وانصاف کے قانون کے تحت تمام جزا وسزا کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔
۲۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم خاک میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہمارے بدن کے ذرات پودوں اور میوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے ،اور نتیجہ کے طور پر دوسرے انسان کے بدن کے جزو بن جائیں گے تو قیا مت کے دن کیا ہو گا؟(یہ وہی چیز ہے جسے فلسفہ وکلام کے علم میں ”شبہئہ آکل و ماٴکول“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)
اگر چہ اس سوال کا جواب تفصیلی بحث کا حامل ہے، لیکن ہم ایک مختصر عبارت میں ضرورت بھر اس پر بحث کر نے کی کوشش کریں گے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے :جس انسان کے بدن کے ذرات خاک میں تبدیل ہو نے کے بعد دوسرے بدن میں منتقل ہوتے ہیں ،وہ یقینا پہلے بدن میں واپس آجاتے ہیں۔(مذکورہ آیات بھی اس دعویٰ کی واضح شا ہد ہیں)
یہاں پر بظاہر جو مشکل نظر آتی ہے ،وہ صرف یہ ہے کہ دوسرا بدن ناقص ہو جائے گا۔
لیکن حقیقت میں یہ دوسرا بدن ناقص نہیں ہو تا ہے بلکہ چھوٹا ہو تا ہے،چونکہ یہ ذرات تمام بدن میں پھیلے ہوئے تھے ،جب اس سے واپس لئے جاتے ہیں تو وہ بدن اسی نسبت سے ضعیف اور چھوٹا ہو جاتا ہے۔
اس لئے نہ پہلا بدن نابود ہوتا ہے اورنہ دوسرا بدن،صرف جو چیز یہاں پر وجود میں آتی ہے وہ دوسرے بدن کا چھوٹا ہو نا ہے اور یہ امر کبھی کو ئی مشکل پیدا نہیں کرتا ہے،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قیا مت کے دن تمام بدن کمال حاصل کریں گے،اور نقائص اور کمیاں دور ہو جائیں گی،جس طرح ایک بچہ نشو ونما پاتا ہے ۔یا ایک زخمی کے زخم میں نئے سرے سے گوشت بھر جاتا ہے اوراس کی شخصیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح قیا مت کے دن چھوٹے اور ناقص بدن مکمل صورت میں زندہ ہوں گے ،کیونکہ قیامت عالم کمال ہے۔
اس طرح اس سلسلہ میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے(غورکیجئے ۔مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“کی طرف رجوع کیجئے)۔


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا قیامت کے دن انسان کی زندگی ہر لحاظ سے اس دنیا جیسی زندگی ہے؟
۲۔کیا ہم قیامت کے دن جزا وسزا کو اس دینا میں بالکل درک کرسکتے ہیں؟
۳۔کیا بہشت کی نعمتیں اور جہنّم کے عذاب صرف جسم سے مربوط ہیں۔
۴۔اعمال کے مجسم ہونے سے مراد کیا ہے اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میں کیسے دلالت کی ہیں؟
۵۔اعمال کے مجسم ہو نے کاعقیدہ معاد کی بحث کی کن مشکلات کا جواب دیتا ہے۔

دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال آٹھواں سبق :روح کی بقاء،قیامت کی ایک علامت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma