معامله میں سود کی مقدار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
معاملہ سلف (پیشگی خرید وفروخت)ولایت فقیه

سوال ۵۱۶۔ ہم نے فروخت کرنے کی غرض سے مثال کے طور پر کسی جنس کو سو تومان میں خریدا ہے کہ جس کو ۲۰/فیصد منافعہ کے ساتھ ایک سو بیس تومان میں بیچتے ہیں، کچھ عرصہ بعد ضرور اسی جنس کو ۱۵۰ تومان کی قیمت میں خریدیں گے جس پر اس دوران اصل سرمایہ میں سے تیس تومان نقصان میں بیچا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہے تو اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے چلاجائے گا، اب ہم کیا کریں جو منصفانہ فائدہ بھی حاصل ہوجائے اور نقصان بھی نہ ہو؟

جواب: جنس کی قیمت کو بیچنے والامعیّن کرسکتاہے؛ لیکن اس طرح کے موقعوں پر بہتر یہ ہے کہ جس جنس کو سستا خریدا ہے، سستا بیچے (منصفانہ فائدے کے ساتھ) اور جس جنس کو مہنگا خریدا ہے، مہنگا بیچے (انصاف سے فائدہ وصول کرنے کے بعد)۔

سوال ۵۱۷۔ برائے مہربانی بیچنے والوں (دکانداروں) کے منافع کے سلسلہ میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
۱۔ تاجر اور دکاندار کے لئے منافع کی شرح کتنے فیصد ہے؟

جواب: فائدے کی کوئی مقدار معیّن نہیں ہے بلکہ یہ بات دونوں فریق (دگاندار اور خریدار) کی مرضی سے تعلق رکھتی ہے، مگر وہ جنس جس کی قیمت حکومت اسلامی کی جانب سے معیّن کی گئی ہو لیکن انصاف سے کام لینا بہرحال بہت اچھی بات ہے ۔

۲۔ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ تاجروں کی کمیٹی نے، دکانداروں اور بیچنے والوں کے لئے ۲۴/فیصد منافع پاس کیا ہے، اگر کوئی تاجر خریداروں سے مذکورہ منافع سے زیادہ حاصل کرے تو کیا یہ حلال ہے یا اضافی مقدار کا منافع جائز نہیں ہے؟

جواب: اسلامی حکومت کے قاونون کی خلاف ورزی نہ کریں ۔

۳۔ دکاندار، مال بنانے والی کمپنی سے دو یا چار مہینہ کے ادھار کی صورت میں نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر مال خریدتا ہے، لیکن فروخت کے وقت وہی ادھار قیمت جس پر اس نے وہ مال خریدا تھا، چالیس فیصد یا اس سے زیادہ منافع بڑھ جاتا ہے جو وہ دکاندار، خریداروں سے وصول کرتا ہے، اس قسم کے لین دین کا کیا حکم ہے؟

جواب: کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر حکومت نے قیمت معین کی ہے تو اس کی رعایت کریں ۔

۴۔ کہتے ہیں کہ معاملہ طرفین کی مرضی سے ہوتا ہے، اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بیچنے والے اور دکاندار جنس کی قیمت اور اس کا منافع، خریداروں کو نہیں بتاتے، اس صورت میں کیا جس قدر بھی فائدہ خریداروں سے وصول کریں وہ جائز ہے؟

جواب: گذشتہ جوابات سے واضح ہوگیا ہے ۔

۵۔ مذکورہ مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے، بندہ ناچیز اپنی زندگی کا خرچ نکالنے کی خاطر اسی قسم کی دکانوں اور مارکیٹوں پر کام کرنے میں مصروف ہوگیا ہے اور تنخواہ کے عنوان سے کچھ رقم ماہانہ وصول کرتا ہوں، مذکورہ باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا میری تنخواہ حلال ہے؟

جواب: اگر ایسے کام انجام دیتے ہو جو شریعت کی رُو سے جائز ہیں تو آپ کی وصول کی ہوئی تنخواہ میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
معاملہ سلف (پیشگی خرید وفروخت)ولایت فقیه
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma