متفرقہ مسائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
تینتالیسویں فصل امربالمعروف ونہی عن المنکرارث سے محروم کرنا

سوال ۸۸۶ -- مدنی قانون (سِوِل لا) کی دفعہ ۱۰۱۸ میں جو شیعہ نورانی فقہ سے ماخوذ ہے، آیا ہے: ”غائب کی فرضی موت کا حکم اس وقت صادر ہوسکتا ہے کہ جب اس کی تاریخ حیات کی آخری خبر اتنی مدت گذرجائے کہ معمولاً اتنی مدت میں اس جیسے افراد زندہ نہیں رہ سکتے“ اب اگر کوئی ۳۰ سال سے غائب ہو اور اس کے دو سال بعد ورثہ اس کی فرضی موت کا حکم صادر کرنے کا تقاضا کریں، کیا محکمہ عدالت کو حق ہے کہ ورثہ کی درخواست کی موافقت کرتے ہوئے اس کی مفقودیت کا اخباروں میں اعلان اور مقامی تحقیقات کے انجام کے بعد اگر اس کی حیات یا موت کا سراغ نہ لگے، اس کی فرضی موت کا حکم صادر کردے؟

جواب: موت کا حکم فقط اس صورت میں صادر ہوسکتا ہے کہ یا تو غائب شخص کی موت کا علم ہوجائے یا اتنی مدت گذرجائے کہ معمولاً اتنی مدت میں وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔

سوال ۸۸۷ -- ایک شخص ، قتل عمد ، شبہ عمد، یا خطائے محض کے نتیجہ میں فوت ہوگیا، بہرحال دیت لینے پر صلح ہوگئی ، کیا یہ دیت اس کے ترکہ کا جزء محسوب ہوگی، کہ پہلے متوفیٰ کے تمام قرض اس سے ادا کیے جائیں اور اس کے بعد باقی ماندہ کو تقسیم کیا جائے ، یا متوفیٰ کے قرضوں کو اس سے نہیں نکالا جائے گا؟

جواب: دیت کی رقم میت کے مال کے حکم میں ہے اور متوفی کے قرضوں کو اس سے ادا کیا جائے گا۔

سوال ۸۸۸ -- ایک چند بچوں کی بیوہ خاتون دوسری شادی کرلیتی ہے ، کچھ مدت کے بعد یہ شوہر بھی فوت ہوجاتا ہے، اس شوہر کے مال میں ، مذکورہ خاتون کے بچوں کی میراث کا کیا طریقہ ہے؟ مسئلہ کے برعکس صورت میں آیا ورثہ اپنی سوتیلی ماں سے میراث حاصل کرسکتے ہیں؟

جواب: بیوی کی اولاد اپنی ماں کے شوہر سے میراث نہیں پائیں گے اور نہ شوہر اپنی بیوی کی اولاد سے، ایسے ہی اس کے برعکس مسئلہ میں یعنی شوہر کے بچے بھی اپنی سوتیلی ماں سے میراث نہیں پائیں گے۔

سوال ۸۸۹ -- پچھتر (۷۵) سال پہلے دو بھائی بنام سید سلیمان وسید خداداد، زندگی بسر کرتے تھے باپ کی موت کے بعد انھوں نے اس کی جائداد اور ترکہ کو اپنے درمیان بطور مساوی تقسیم کرلیا، سید خداداد اپنی مرضی سے اپنے حصہ کو بیچے یا اجارہ پر دیئے بغیر، اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اس کا بھائی سید سلیمان ایک شخص بنام سید عبدالله (کہ جو اس زمانے میں اس علاقہ کا بانفود اور مشہور ومعروف شخص تھا ) اور دوسرے چند لوگوں کی مدد سے سید خداداد کے حصے کو بہ شرط بیع قطعی فروخت کردیتا ہے، سید خداداد جب اس چیز سے مطلع ہوتا ہے تو وہ اس علاقہ میں آتا ہے اور اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے ، اس کا بھائی اور دیگر افراد اس کو دھمکاتے ہیں اور اس کا حق نہیں دیتے، اس وقت سے لے کر آج تک سید خداداد کے وارثوں میں سے کوئی بھی اپنا حق نہیں لے پایا، لہٰذا فرمائیں کہ کیا سید خداداد کے وارثین اپنے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟

جواب: چنانچہ بھائیوں نے اس مرحوم کا حق ضائع کیا ہے لہٰذا اس کے وارثین شرعاً اپنا حق واپس لے سکتے ہیں۔

سوال ۸۹۰ -- کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“
میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:
۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟
۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟

جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

۳۔ وہ گھر جس میں اس خاتون کا سہم الارث (میراث کا حصہ) تھا (آدھا گھر) اس کو کسی شخص کے ہاتھوں بیچ دیا اور میں نے اس کی قیمت میں سے اس توافق کے مطابق جو ہمارے درمیان ہوا تھا ، اپنی وکالت کا محنتانہ لے لیا، اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ یہ خاتون واقعاً اسلام سے خارج اور حقیقت میں اپنے مسلمان باپ سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی تھی، خریدار کی تکلیف کیا ہے؟ وکالت کا وہ محنتانہ جو گھر کی قیمت میں سے میں نے حاصل کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:چنانچہ ثابت ہوجائے کہ وہ خاتون باپ کی حیات میں عیسائی ہوگئی تھی، میراث نہیں لے سکتی اور وہ مال جو آپ نے یا دوسروں نے اس کے حصے سے حاصل کیا ہے وارثین کو واپس دیدیں۔

۴۔ کیا اس گھر میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا خریدار ضامن ہے کہ آدھے گھر کو حاکم شرع (مقلد)کو واپس کرے یا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے؟ اگر آپ کی اجازت پر موکول ہو تو کیا آپ اجازہ فرماتے ہیں؟ یا ردّمظالم کے بدلے اجازہ ہوگا؟

جواب: جیسا کہ اوپر کہا جاچکا، اگر خلاف ثابت ہوتو اس کو تمام وارثین کی طرف پلٹایا جائے گا اور یہ مسئلہ مظالم سے ربط نہیں رکھتا کہ حاکم شرع کے اجازہ کی ضرورت پڑے۔

۵۔ اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ عورت عیسائی ہوگئی تھی،تو اس صورت میں اس کے ذاتی امور اور اموال میں (سہم الارث کے علاوہ) وکالت کو قبول کرنے کی کیا صورت ہے؟

جواب: اموال کے ان موارد میں جو مسیحی ہونے کے بعد حاصل کیے ہیں وکالت قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

سوال ۸۹۱ -- کیا تنخواہ ، وظیفہ، سبکدوشی کا بیمہ اور متوفی کارکنان کی تمام سہولیات ، میراث کے زمرے میں آتی ہیں؟ کیا وہ چیز جو حکومت متوفی کے وارثوں دیتی ہے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگی؟

جواب: مذکورہ اشیاء کا مصرف حکومت کے قانون کے تابع ہے؛ اگر حکومت، بیوی اور بیٹے کو دیتی ہے تو اسی کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔

سوال ۸۹۲ -- کیا عمر کے بیمہ کا سرمایہ ، ڈارئیوری حادثہ کے نقصان کا بیمہ اور دیگر بیمے، قانون ارث کے مطابق تقسیم ہوںگے؟ اور اگر بیمہ کی قرارداد میں اس بارے میں کوئی اور شرط رکھی گئی ہوتو کیا وہ شرط نافذ ہے؟

جواب: بیمہ عمر کے مورد میں بیمہ کے شرائط اور قوانین کے مطابق عمل ہونا چاہیے، لیکن ڈرائیوری کے حادثہ کے نقصان کا بیمہ چاہے وہ مالی ہو یا جانی، میت کے دوسرے اموال کا حکم رکھتا ہے۔

سوال ۸۹۳ -- کیا خنثیٰ مشکلہ، عورت اور مرد کے علاوہ حقیقت میں کوئی تیسری صنف ہے ، یا اس کا حکم دونوں میں سے کسی ایک کا حکم ہے؟

جواب: خنثیٰ مشکلہ حقیقت میں یا مذکر ہے یامونت۔

سوال ۸۹۴ -- قرض خواہوں کے متعدد ہونے اور متوفی کی جائداد کا تمام قرضوں کے لئے ناکافی ہونے کی صورت میں ، کیا قرض اور قرض خواہوں کی نوعیت کے لحاظ (ذیل کی شرح کے ساتھ) حق تقدم اور اولویت کے قائل ہوسکتے ہیں:
۱۔ زوجہ کا نفقہ اور مہر۔
۲۔ کمسن اولاد کا نفقہ۔
۳۔ وہ قرض جس کی بابت مقروض کا کچھ مال قرض دینے والے کے پاس بطور رہن اور وثیقہ رکھا ہوا ہے۔
۴۔ گھر اور کاروبار کہ جگہ (دفتر وغیرہ) کے خادموں اور کام کرنے والوں کی مزدوری اور تنخواہ ۔
۵۔ جو خرچ متوفی کے علاج میںاس کی موت سے پہلے ہوا ہے جیسے ڈاکٹروں کی فیس اسپتال کا خرچ دواخانہ کا قرض وغیرہ۔
۶۔ حکومت اسلامی کے قرضے جیسے مالیات (ٹیکس) پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کا بِل۔
۷۔ شرعی قرضے (خمس وزکات) اور نماز، روزہ اور واجب حج کو ادا کرانے کے لئے اجیر بنانا۔
۸۔ کفن ، دفن اور معمول کے مطابق ایصال ثواب کی مجالس اور فاتحہ وغیرہ کا اخراجات۔

جواب: معمول کے مطابق کفن اور دفن کے اخراجات سب پر مقدم ہےں، لیکن مجالس ترحیم وفاتحہ وغیرہ واجبات میں سے نہیں ہیں، اسی طرح کمسن بچوں کا نفقہ اگر پہلے نہ دیا گیا ہو، قرض میں شمار نہیں ہوتا، نماز وروزہ کے خرچ کو بھی میت کے اموال میں سے نہیں لے سکتے، باقی قرضے ایک صف میں قرار پاتے ہیں لہٰذا ان کو بہ نسبت ادا کیا جائے۔

تینتالیسویں فصل امربالمعروف ونہی عن المنکرارث سے محروم کرنا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma